میں آؤں گا فراق کا درد لیکر_

زندگی، موت کسی انسان کے بس میں نہیں کسی نے کب اور کہاں مرنا ہے کس حالت میں مرنا ہے خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا زندگی میں ہی کسی پر عذاب کا نازل ہوجانا اس یقین کے ساتھ کہ یہ خدا کی پکڑ ہے خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا، اللہ تعالٰی نے بدلے کے لئے ایک معیار اور پیمانہ بنایا ہے جو انسانی جذبات سے بلکل بالاتر ہے، اللہ تعالٰی کسی انسان کی طرح غصے میں آ کر مار دو، جلاؤ، جہنم میں پھینکو جیسے فیصلے بھی نہیں کرتا کوئی جزئی واقعہ ہوا ہو تو اس کی دوسری وجوہات ہوسکتی ہیں__

ایک انسان اپنے ہاتھ کے بنائے کھلونوں اور مٹی کے گھروندے کو مسمار کرتے ہوئے ایک وحشت سی کیفیت سے گزرتا ہے وہ انسان جس میں احساس نہ ہو وہ انسان کہ فرقے نے اس کی انسانیت پہ شب خون مارے ہو وہ انسان کہ جس کے آگے ایک جانور اور مخالف فرقے والے میں کوئی تمیز نہ ہو وہ انسان درد کے جذبات رکھتا ہے فراق اسے بھی بے چین کرتی ہے، ہجر کی رات اس سے بھی نہیں کٹتی وہ انسان جو زندہ بھی ہے مگر اس کے احساسات بھسم کردو پر محیط ہیں وہ انسان خدا کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے جو خدا کو جانتا بھی نہیں وہ خدا کو اپنے فیصلوں کا تابع بناتا ہے وہ خدا سے روز یہ کہتا ہے اس بندے کو جلا دو!! اس کی روح کھینچو!!

آج پھر اس انسان کی خوشی کا سماں ہے وہ انسان چراغاں کررہا ہے وہ محو رقص ہے وہ ناچتے ہوئے کہ رہا ہے دیکھو، دیکھو! میں نہ کہتا تھا اس پر عذاب آئے گی خدا کی اور آج آئی ہے آؤ دیکھو! میرے خدا نے اس بندے کا کیا حشر کیا ہے؟ خدا کے قریب ہو تو خدائی اختیارات پر قبضہ ایک لازمی امر ہے وہ اس لئے بھی کہ اس نے خدا کا نقشہ ایک جلاد کی طرح پیش کیا ہے جسے بس صرف مارنا آتا ہو جو جلانے، کھوپڑی اڑانے کے علاوہ رحم کے جذبات سے بلکل عاری ہو جس کی کتاب میں کسی سمجھوتے کی گنجائش نہ ہو وہ روز آتا ہے اور اعلان کرتا ہے مان جاؤ ورنہ تو مارے جاؤ گے!!

جنید جمشید جو کہ اب مرحوم ہوچکے بعد از مرگ بھی کفن چور ان کے کفن پر ڈاکے ڈال رہے ہیں یہ لوگ اپنی قسمت پر نازاں ہیں کہ ان کی دعائیں رنگ لائی ہیں ایک گستاخ انجام کو پہنچ چکا ہے گستاخ بھی ایسا نرا کہ جس نے معافی تو مانگ لی تھی مگر خدا قبول کرے نہ کرے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہاں ہم اس کی معافی قبول نہیں کریں گے ہم نے انہیں انجام تک پہنچانے کی کوشش کی تھی بچ گئے سو آج خود خدا کی پکڑ میں آگئے__

جنید جمشید مرحوم ایک انسان تھے اور انسان سے غلطیوں کا ہوجانا کچھ بھی عجیب نہیں ہاں اپنی غلطیوں پر ڈھٹائی دکھانا غلط ہے جنید جمشید صاحب سے اگر کچھ گستاخی ہوئی بھی تو انہوں نے علی الاعلان معافی مانگ لی تھی اس کے بعد ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہونا چاہئے تھا وہ اللہ کی مرضی ہے قبول کرے نہ کرے وہ اللہ ہی جانتا ہے کہ دل سے مانگی تھی یا عوام کے ڈر سے مگر اس نے اپنا دامن صاف کیا تھا__

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما تھے کہ مشہور منافق عبداللہ بن ابی بن سلول کے مسلمان بیٹے دوڑے آئے کہنے لگے : اللہ کے رسول! میرے والد کی وفات کا وقت ہے، نزع کا عالم ہے ان کی خواہش ہے کہ آپ کے کپڑوں میں دفن ہوجاؤں تو کچھ بچت ہوگی_____

ایک طرف عرب کے ایک غیور انسان کے جذبات دیکھئے جو اس موقع پر ہونے چاہئے تھے ساری زندگی دکھ دینے والا، تکلیف دینے والا برائیاں کرنے والا، غلط پروپیگنڈے کرنے والا آج ان کا محتاج ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر ان کپڑوں سے ان کی جان بخشی ہوتی ہے تو لے جائیں یاد رہے عبداللہ بن ابی وہ بدقمست آدمی ہے جس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے واقعہ افک جیسا اسکینڈل بنایا اللہ کے رسول کو کتنی تکلیف پہنچی ہوگی پھر بھی اللہ کے رسول نے معافی فرمائی__

اللہ کے رسول کے عاشقو!! کچھ لاج رکھتے اس عشق کا بھی جنید جمشید اپنے پیچھے ایک داستان چھوڑ گئے شاید رب کے حضور پہنچ کر قرار پالیں گے اپنے بھی نالاں تھے غیروں نے دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی زندہ تھے تو بیچارے سب کے لئے مطعون کسی نے کیا نام دیا اور کسی نے کیا فتوی لگایا شاید وہ ان عداوتوں سے تھک چکے تھے یا خدا سے شکوہ کیا ہوگا اللہ نے اپنے ہاں بلا لیا__ اب پیچھے رہنے والے جنت، جہنم کے ٹکٹوں پر لڑتے رہے انہیں کوئی پرواہ نہیں کوئی گستاخ کہے بھی تو وہ نہیں سن سکیں گے سنتے بھی تو کیا کرتے برداشت کرتے اب پتھر پھینکنے والے کسی دوسرے کو تلاش کریں انہوں نے جاتے جاتے بہت کچھ پیغام دیا ہم ہیں کہ سمجھتے نہیں کسی کی مصیبت پر خوش ہونا انسانی اخلاق نہیں اپنے بیوی، بچوں کو سامنے رکھ کر سوچیں جو گھر آپ عارضی طور سے خالی کرتے ہیں پھر آتے ہیں گھر میں وحشت ہوتی ہے یہاں تو جانے والے راہی عدم ہوچکے ہیں اب وہ کبھی نہیں آئیں گے جنید بھائی جاتے جاتے اپنوں سے کہ گئے میں آؤں گا بہار کی ایک جانفزا صبح میں فراق کا درد لیکر میں آؤں گا اور ضرور آؤں گا مگر کچھ محشر برپا ہونے میں دیر ہے__ آسمان تیری لحد پہ شبنم آفشانی کرے____
محمد التمش خان... کراچی پاکستان
Abo Yahya Khan
About the Author: Abo Yahya Khan Read More Articles by Abo Yahya Khan: 3 Articles with 3555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.