ہماری زندگی میں جو چیز کبھی تبدیل نہیں کی
جا سکتی وہ تبدیلی ہے۔ جو ہمشہ جاری رہتی ہے اور رہے گئی جب تک کہ موت واقع
نہ ہو جائے ۔کسی بھی انسان کے لیے ترقی کے حصول کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس
تبدیلی کو نہ صرف قبول کرئے بلکہ اس تبدیلی کو اپنی ترقی کے لیے استعمال
بھی کریے۔میں جب اپنی زندگی کا مشاہدہ کرتی ہوں تویہ سمجھ میں آتا ہے کہ
وقت کے گزرنے پر ہمارا اختیار نہیں لیکن وقت کو درست استعمال کرنے پر ہمارا
اختیار ہے ۔میں کافی عرصہ سے یہ جاننا چاہ رہی تھی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ
ہم ترقی وکامیابی کی وہ رفتار حاصل نہیں کر پاتے جو ہماری سوچ ہوتی ہے یا
پھر یوں کہا جا سکتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم تبدیلی کے وقوع پذیر ہونے پر
اس کا ساتھ نہیں دے پاتےمیری جستجو کی وجہ سے میں مختلف کتابوں کو پڑھتی
رہی ۔میں نے اپنی ایک دوست کے پاس ایک کتاب پڑی دیکھی ۔جس پر لکھا تھا [ہو
مووڈ مائی چیز]کون ہے جس نے میرا چیز ہٹا دیا۔میں نے اپنی دوست سے ہنس کر
پوچھا؟ آج کل کامیڈی پڑھنے لگی ہو تواس نے جواب دیا خود دیکھ لو۔ میں نے
کتاب دیکھی تو اس کے کچھ ورق یوں ہی پڑھ ڈالے ،اچانک میرے ذہین کو وہ سارے
جواب ملے جو تبدیلی کو لے کر میرے دماغ میں گھوم رہے تھے۔اس کتاب کو پڑھ کر
جو میری سمجھ میں آیا وہ میں ضرور آپ کے ساتھ بانٹنا چاہوں گی تاکہ آپ
بھی میری طرح تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہونے میں کامیاب ہو سکیں۔یہ کتاب ایک
آسان کی کہانی سے بے شمار پیچیدہ سوالوں کو حل کرتی ہے۔ ہرانسان کے لیے
لازم ہے کہ وہ تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہو۔ میں باتوں کو اپنے قلم سے ترتیب
دوں گئی تاکہ آپ چیزوں کو اپنی زندگی سے قریب تر محسوس کرسکیں۔ لیکن اصل
بات اس کتاب کے رائٹر ہی کی ہے جس کا نام [سپینسر جانسن ]ہے۔ کتاب[ ہو مووڈ
مائی چیز ] سے ہی اخذ کیے گئے اصول ہی ہیں۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو مکمل
کتاب کامطالعہ ضرور کریں۔
ہم تبدیلی نہیں چاہتے۔
کیسا عجیب ہے کہ ہم اپنے حالات سے مطابقت پیدا کر لیتے ہیں۔ہم سردیاں شروع
ہونےلگتی ہیں تو ناک چڑھاتے ہیں کہ اچھا خاصا موسم تھا اب رضائیاں نکالنی
پڑھیں گی۔جب سردیاں ختم ہونے کو ہوتی ہیں تو پھر غصہ آتا ہے لو جی اب
گرمیوں کے کپڑے نکالو۔ اس کی بہت سی مذید مثالیں بھی ہیں۔جیسے کہ ہم جس گھر
میں عرصہ سے رہ رہے ہوتے ہیں خواہ کرایہ کا ہی ہو اس سے محبت سی ہو جاتی ہے
ہم نہیں چاہتے کہ اسے چھوڑ کر جایں۔ہمارے ہاں لڑکوں کو نوکری کرنے کامشورہ
دیا جاتا ہے کیونکہ ابا نے بھی نوکری ہی کی ہوتی ہے ہم تبدیلی نہیں چاہتےاس
کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہےکہ ہم اپنے آرام سے نکلنا نہیں چاہتے۔یہ ہی وجہ
ہے کہ ہمارے ہاں اگر کوئی نئی بات کرتا ہے تو فوراْ اس پر پاگل یا بے وقوف
کی مہر لگ جاتی ہے۔
کتاب[ہو مووڈ مائی چیز] میں جانسن نے ایک خوبصورت کہانی کو بیان کر کے
تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہو جانے کا سبق دیا ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ دو چوہے
سنیف، سیکاری اور دو بونے جو چوہوں کی طرح کے تھے ہیم ،ہاو چیز کی تلاش کے
لیے روز نکلتے ہیں اور ایک دن وہ چیز سیکشن سی میں بہت سا چیز تلاش کر لیتے
ہیں ۔انہیں کافی چیز ملنے پر سکون ہو جاتا ہے چھوٹے انسان ہیم اور ہاو
مطیمین ہو جاتے ہیں کہ اب ساری زندگی کے لیے محنت سے جان چھوٹی وہ فقط روز
چیز کھانے اور پرسکون رہنے پر اکتفا کرتےہیں جبکہ چوہوں کو چیز کے کم ہونے
کا بھی اندازہ ہوتا رہتا ہے۔وہ ہیم اور ہاو سے پہلے صبح ہی چیز کے لیے آ
جاتے ہیں۔وہ چیز کو سونگ کر اس کے تازہ یا باسی ہونے کا جائزہ بھی لیتے
رہتے ہیں۔ ایک دن جب دونوں چوہے حسب معمول چیز کھانے کے لیے آتے ہیں تو
چیز وہاں نہ پا کر انہیں حیرت نہیں ہوتی۔وہ مذید چیز کی تلاش کے لیے نکل
جاتے ہیں۔ بہت تلاش کے بعد انہیں ایک اور جگہ سے بہت سی چیز مل جاتی ہے
جبکہ ہیم اور ہاو جب چیز کو نہیں پاتے تو بہت مایوس ہو جاتے ہیں۔اس کی وجہ
ان کے جذبات اور دماغ کی پیچیدگی ہوتی ہے۔ انہوں نے چیز کے ملنے پر جس طرح
خوشی منائی تھی اور دیوار کو سجا کر لکھاتھا کہ چیز کا ہونا خوشی دیتا ہے۔
وہ ہی اس خوشی کو محسوس کر سکتے تھے جبکہ اب چیز نہیں تھا تو وہ مایوس ہو
گے۔روز بروز چیز کا کم ہونا انہوں نے محسوس ہی نہیں کیا تھا۔ ان میں سے ہیم
نے چیخ کر حیرت سے کہا یہ صیح نہیں ہے ۔ کون ہے جس نے میرا چیز یہاں سے ہٹا
دیا۔ہاو جب ارد گرد سنیف اور سیکاری کو نہیں پاتا تو کہتا ہےکہ ہو سکتا ہے
یہ کام چوہوں کا ہو۔ہاو کہتا ہے۔ لیکن ہیم نہیں مانتاوہ کہتا ہے۔ نہیں ایسا
نہیں ہو سکتا ہم انسان چوہوں سے ذیادہ ہوشیار ہوتے ہیں وہ ایسا نہیں کر
سکتے۔ ہاوپھر ہیم کو مشورہ دیتا ہے کہ چلو اس جگہ کو چھوڑ دیں اور باہر
جائیں ممکن ہے کہ ہمیں کہیں اور سےچیز ملے لیکن ہیم نہیں مانتا اور وہ بضد
ہوتا ہے کہ اسے وہی چیز چاہیے۔مجبور ہو کر ہاو بھی ہیم کا ساتھ دیتا ہے
دونوں سیکشن سی میں چیز کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ
وہ دونوں کھدائی کرتے ہیں لیکن کچھ نہیں پاتے ۔یہ دیکھ کرہاو ایک دن ہنس کر
کہتا ہے کہ ہم کس قدر پاگل ہیں کہ بار بار ایک ہی کام کرتے جا رہے ہیں اور
چاہتے ہیں کہ کام کا نتیجہ مختلف آئے۔ایسا ممکن نہیں۔ وہ پھر ہیم کوراضی
کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ہیم کو کہتا ہے چلو باہر جائیں اور جا کر دوسرا
چیز ڈھونڈیں۔
ہم نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ باہر جانا خطر ناک ہو سکتا ہے۔میں کبھی یہ
جگہ چھوڑ کر نہیں جاوں گا اور اپنا چیز تلاش کر کے ہی رہوں گاممکن ہے کہ
چیز واپس آ جائے اور ہم یہاں نہ ہوں۔ہاو دیوار پر یہ لکھ لیتا ہے۔ چیز
جتنا ہی اہم ہوتا ہے ہم اسے اُتنا کی پکر کر رکھنا چاہتے ہیں۔انہیں جب کافی
دنوں تک چیز نہیں ملتا تو ہاو،ہیم کو کہتا ہے کہ باہر جا کر چیز تلاش کرتے
ہیں۔ہم پہلے بھی تو ایسا کرتے تھے۔ یہ ہی ٹھیک ہو گا۔وہ اپنے تخیل میں سنیف
ور سیکاری کو اپنے تخیل میں چیز کھاتے دیکھتا ہے اور پھر دوبارہ ہیم کو
باہر جانے کا بولتا ہے جبکہ ہیم نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ کیا ہو گا اگر
باہر جا کر چیز تلاش کرنے پر بھی ہمیں چیز نہیں ملا۔ہمیں یہیں بیٹھ کر
انتظار کرنا چاہیےہاو کہتا ہے بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ چیزیں تبدیل ہوتی
ہیں مگر کبھی پہلے جیسی نہیں ہو تیں۔ زندگی چلتی رہتی ہے سو ہمیں بھی چلنا
چاہےمگر اس کی باتوں کا ہیم پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔مجبور ہو کر ہاو چیز
تلاش کرنے نکل جاتا ہے.وہ دیوار پر پتھر کی نوک سے لکھتا ہے کہ اگر تم
تبدیل نہیں ہوئے تو تم معدوم ہو جاو گے اگرچہ وہ خوفزدہ ہوتا ہے لیکن وہ
چلتا جاتا ہے وہ اپنی محسوسات کو لکھتا جاتا ہےتاکہ اُسے راستہ نہ بھولے
اور وہ ہیم تک یا ہیم اس تک پہنچ سکے ۔وہ لکھتا ہے تم کیا کرتے اگر جو تم
ڈرتے نہیں؟
اگرچہ وہ خوفزدہ ہوتا ہے اور اسے نہ چیز ملنے پر بہت تکلیف ہو رہی ہوتی ہے
لیکن وہ سوچتا ہے کہ کچھ نہ ملنے سے دیر سے ملنا اچھا ہے ۔وہ خود کوحوصلہ
دیتا ہے اپنے برے خیالات کو دور بھگاتا ہے ۔اپنی تلاش کے دوران وہ محسوس
کرتا ہے کہ چیز سٹیشن سی میں چیز اچانک سے غائب نہیں ہوئی جیسا ان کو لگا
تھا بلکہ وہ آئستہ آئستہ ختم ہوئی تھی ۔وہ لکھتا ہے کہ چیز کو سونگتے رہو
تا کہ پتہ چلتا رہے کہ چیز خراب ہو رہی ہے۔ آپ کی حرکت آپ کو نیا چیز
لینے میں مدد کرئے گی۔اس نے اندھیروں سے لڑ کر اپنی روح کو طاقت ور کرنا
سیکھ لیا۔اگرچہ اسے کوئی چیز نہیں ملی لیکن وہ خوش تھا۔وہ حیران تھا کہ وہ
خوش کیوں ہے۔وہ لکھتا ہے ۔جب آپ اپنے خوف سےآگے نکل جاتے ہو تو آپ ایک
آزادی محسوس کرتے ہو۔تخیل میں چیز کو کھانا محسوس کر کے آپ چیز کے قریب
ہو جاتے ہو۔جتنی جلدی آپ پرانی چیز کو چھوڑتے ہو آپ اُتنی جلدی نئ چیز پا
لیتے ہو۔یہ زیادہ بہتر ہے کہ آپ چیز کی تلاش میں نکل جائیں اس بات سے کہ
آپ ایک خالی سٹیشن میں بیٹھے رہیں۔اپکی غلط سوچیں اور یقین کہ چیز نہیں
ملے گا آپ کو نئے چیز تک پہنچنے نہیں دے گا۔وہ اپنے جسم اور روح کو ترو
تازہ محسوس کر رہا تھا ۔اسے یہ تلاش اچھی لگ رہی تھی۔
جب آپ چھوٹی تبدیلیاں قبول کر لیتے ہیں تو آپ کو بڑی تبدیلیوں سے نبٹنے
کا حوصلہ مل جاتا ہے۔اسے ایک جگہ چیز ملتا ہے وہ واپس جا کر ہیم کو بتاتا
ہےلیکن وہ اس قدر مایوس ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ جانے سے انکار کر
دیتا ہے۔ ہاو پھر چیز کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔وہ آخر کار ایک چیز
سٹیشن این میں داخل ہوتا ہے وہاں اِتنا ذیادہ چیز دیکھتا ہے جتنا اس نے
پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا۔وہ بہت خوش ہوتا ہے۔وہاں سنیف اور سیکاری بھی
ہوتے ہیں ۔اس بار وہ مستعد ہو جاتا ہے اور روز چیز کے کم ہونے کا مشاہدہ
کرتا اور چیز کو سونگھتا ہے تا کہ چیز کے کم اور باسی ہونے کا اسے پتہ چلتا
رہے اور اسے پہلےجیسی مشکل سے دوچارنہ ہونا پڑھے۔
اس کہانی سے اہم ایسے اصول ملتےہیں جو ہماری زندگی کو بہتر بنانے کے لیے
لازمی ہیں۔ اگر ہم ان کو سمجھ جائیں تو زندگی خوبصورت اور بہتر بنائی جا
سکتی ہے۔ اصول کچھ یوں ہیں۔
1۔ خوف پر قابو پا کر ہی نیا راستہ ملتا ہے۔
ہو مووڈ مائی چیز میں چیز کو اگر ایک استعارہ مان لیا جائے تو وہ ہر وہ چیز
ہے جس کو انسان حاصل کرنا چاہتا ہے۔وہ چیز ہے ،وہ ملازمت ، اچھا رشتہ
،بہترین گھر اور ہر وہ چیز ہو سکتی ہے جس کی خواہش کی جائے۔ اگر وقت بدلنے
پر ہماری وہ خواہش یا مادی شے ہم سے دور ہو جائے تو ہم کیا کریں گئے۔ہمارا
رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ ہم اپنی زندگی میں جب آسانی پاتے ہیں تو اس کے ساتھ
خود کو ہمشہ کے لیے منسوب کر لیتے ہیں۔ہمیں لگتا ہے کہ مشکل تو آنی ہی
نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔مشکل نے آنا ہی ہوتا ہے کیونکہ تبدیلی تو
ناگزیر ہے ۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی
ہے۔ کسی بھی ترقی حاصل کرنے والے انسان کو دیکھ لیجیے ،اس نے اپنے خوف پر
قابو پا لیا اور ترقی حاصل کر لی۔سب سے بڑا خوف تو اپنے مقصد کو حاصل نہ کر
سکنے کا ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ تبدیلی کو قبول ہی نہیں کرتے۔موجودہ
دور ہم جن سہولیات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ ساری کی ساری تبدیلی کو قبول
کرنے کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔ریڈ بردران نے اگر یہ سوچا ہوتا کہ ان کا جہاز
آسمان پر سے گرا وہ اپائج ہو گئے تو کیا ہو گا ممکن ہے کہ مر ہی جائیں۔سچ
تو یہ ہے کہ انسان جب خوف پر قابو پاتا ہے تو ہی ترقی و خوشحالی کے لیے
کوشاں ہوتا ہے۔
2۔بے کار بیٹھنے سے اچھا ہے کہ کوشش کی جائے۔
اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بعض اوقات حالات سازگار مل جاتے ہیں۔ ہم
خوش ہو جاتے ہیں جیسے کہ آج کل نجی ملازمتیں ۔اگر کسی کو اچانک سے نوکری
سے نکال دیا جائے یا کمپنی بند ہو جائے تو وہ کیا کرئےگا ۔ہمیں کیا کرنا
چاہیے ؟ بیٹھ کر انتظار کہ شاہد بوس کا موڈ اچھا ہو تو مجھے واپس بلا لےیا
پھر کمپنی کا مالک ایک نئی کمپنی کھولے اور مجھے واپس بلا لے ۔نہیں ایسا
نہیں ہوتا۔ آپ کو حالات کے مطابق بدلنا ہی ہو گا اور نی ملازمت کے لیے
ہاتھ پاوں مارنے ہوں گئے۔ اس کی ایک دوسری مثال ایسے طالبعلم سے دی جا سکتی
ہے جو کسی وجہ سے امتحان نہیں دے پایا۔ اسے دوبارہ کوشش کرنا ہی ہو گی
۔ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے وہ اپنی قابلیت کو ثابت نہیں کر سکتا۔ممکن
ہے کہ وہ فیل ہو جائے لیکن امتحان نہ دینے سے فیل ہونا اچھا ہے ۔فیل ہونا
اسے مزید امتحان کے لیے تیار کرئے گا۔
3۔ہروقت غور و فکر اور مشاہدہ جاری رکھیں۔
کچھ بھی اچانک سے رونما نہیں ہوتا۔ کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کہ آپ
کا بچہ ایک دن پیدا ہو اور دوسرے دن کھڑا ہو کر تقریر کر رہا ہو۔ کوئی بھی
تبدیلی ہونے میں اپنا پورا وقت لیتی ہے ۔قدرت کے قوانین کسی کے لیے نہیں
بدلتے۔ قرآن ہمیں بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے تاکہ انسان اپنے شعور
سے اس لامحدود کائنات سے فائدہ اُٹھا سکے۔ ہمارا ذہین چونکہ آسانیاں چاہتا
ہے تو ہمیں چوہوں کی کہانی سے چیزیں ذیادہ آسانی سے سمجھ آنے لگتی ہیں۔
ہو مووڈ مائی چیز میں ہیم اور ہاو نے چیز کے کم ہونے یا باسی ہونے کا
اندازہ ہی نہیں لگایا۔انسان اپنے ارد گرد وقوع ہونے والے عوامل پر نظر رکھ
کر ہی ان عوامل پر قابو پا سکتا ہے۔ہم خود کو غور سے نہیں دیکھیں گے کہ ہم
موٹے ہو رہے ہیں یا نہیں ۔ ایسے میں اگر کپڑے اچانک پورے نہ رہیں تو ہمیں
تکلیف تو ہو گی ہی ۔ہم یہ ہی سوچیں گے کہ ہم موٹے کیسے ہو گئے۔اکثر لوگ بجٹ
نہیں بناتے اور پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو انہیں یقین نہیں آتا کہ مہینے کے
ختم ہونے سے پہلے اِتنے ذیادہ پیسے ختم کیسے ہو سکتے ہیں۔
4۔ محنت و جدوجہد خوشی دیتی ہے۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ بوڑھے لوگ چڑچڑھے اور بد مزاج کیوں ہو جاتے
ہیں۔سب نہیں لیکن اکثر غصہ میں ہی رہتے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ ان کو اپنا
بے کار ہو جانا محسوس ہوتا ہے۔انسان کو اللہ تعالی نے ایسا بنایا ہے کہ وہ
محنت میں ہی خوشی محسوس کرتا ہے۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
لیس للانسان الا ماسعی ۔یعنی انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا
ہے۔ہم جب چاہتے ہیں دوسرے ہی سارے کام کریں ہم بس آرام کریں یا بیٹھے
بیٹھائے سب کچھ حاصل ہو جائے تو ہم اپنی ذات سے دشمنی کرتے ہیں۔کامیاب لوگ
کبھی محنت سے نہیں گھبراتے۔ اگرچہ ایک کسان کومعلوم نہیں ہوتا کہ فصل تیار
ہو جانے کے بعد اسے اس کی محنت کا پورا پورا صلہ ملے گا یا بارش وقت پر نہ
ہونے کی وجہ سے یا فصل میں کیڑا لگ جانے کی وجہ سے اس کی محنت کا ذیادہ حصہ
برباد ہو جائے گا۔ وہ محنت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ محنت ہی اسے امید
دیتی ہے ۔محنت کے بغیر وہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ اس کی فصل تیار ہو کر اس کی
خوشحالی کا سبب بنے گی وہ اپنی محنت کے بل پر ہی تو خواب دیکھیے گا لہذا
محنت کیجیے اور خواب دیکھیے۔
5۔چھوٹی تبدیلی کو قبول کرنا بڑی تبدیلی کے لیے تیاری ہے۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ اکثر گاوں سے شہر کی طرف ںہیں آنا چاہتے کیونکہ
وہ وہاں کے ماحول سے گھبراتے ہیں۔ اُنہیں ایسا لگتا ہے کہ شہر میں وہ اجنبی
بن کر رہ جائیں گے لیکن جو لڑکے گاوں سے ہوسٹل میں آ کر رہتے ہیں۔ان کے
لیے شہر کا رخ کرنا آسان ہو جاتا ہے وہ اپنے گھر سے الگ مختلف ماحول میں
رہنے پر یہ سمجھ جاتے ہیں کہ تبدیلی کو قبول کرنا اتنا بھی برا نہیں ہے
جتنا کہ ان کے والدین سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک عام مثال بچوں کی بڑھوتی کا
عمل ہے بچہ پہلے بیٹھنا سیکھ جاتا ہے تو اس کے لیے چلنے کا عمل آسان ہو
جاتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی میں آنے والی تبدیلی کو خوش دلی سے قبول کرنا
چاہیے۔
6۔ کامیابی پر دوستوں کو نہ بھولیں۔
اکثر لوگ جب اپنے مقاصد کو پالیتے ہیں تو اپنوں کو بھول جاتے ہیں جبکہ آپ
کے اپنے آپ کی زندگی کی خوبصورتی ہوتے ہیں ۔جب آپ کامیابی یا وہ خواہش پا
لیں جو آپ پانا چاہتے ہیں تو اپنے دوستوں کو نہ بھولیں ۔اُنہیں بھی اپنی
کامیابی کے راز بتائیں ۔یہ دنیا بہت مالامال ہے یہاں وسائل کی کم نہیں لیکن
ہم انسان یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مسائل کی کم نہیں ۔لہذا جیسا آپ دیکھیں
گئے اور سوچیں گئے ویسا ہی آپ پائیں گئے۔ اپنی کامیابی پر اپنے دوستوں کے
پاس جائیں انہیں بھی ساتھ لانے کی کوشش کریں تا کہ وہ بھی کامیاب ہو۔
7۔مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جا سکتا۔
ایک کتاب میں میں نے پرندوں سے متعلق ایک کہانی پڑھی تھی جس میں سردی کی
وجہ سے بہت سے پرندے مر جاتےہیں ہر طرف برف پر پرندوں کی لاشیں پڑھی ہوتی
ہیں ۔سخت سردی ہوتی ہے پھر دھیرے دھیرے جب سورج کی کرنیں نکلتی ہیں تو بچ
جانے والے پرندے گیت گانے لگتےہیں۔ وہ خوشی کا گیت زندگی کا گیت ہوتا ہے۔جو
بتاتا ہے کہ زندگی خوبصورت ہے۔ جو کوئی زندہ ہے اسے چاہیے کہ اس کی قدر
کرئے ۔اس سے لطف اٹھائے۔ یہ رب کی عظیم نعمت ہے۔
امید سے مایوسی کا خاتمہ ممکن ہے۔
ہو مووڈ مائی چیز کی کہانی اس طرح کی بہت سی باتیں سکھاتی ہے جو نہ صرف آپ
کو تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہو جانے پر تحریک دیتی ہیں بلکہ جدوجہد کی اہمیت
سے روشناس کرواتی ہیں ۔کوئی بھی کام کرنے کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ فوراْ
کوئی فائدہ ہو ۔جب فائدہ نہیں ہوتا تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ محنت
کرنے والے کو فائدہ ضرور ہوتا ہے یہ کہانی اس بات پر زور دیتی ہے۔جو محنت
نہیں کرئے گا وہ امید بھی کیسے کر سکتا ہے کہ اسے کچھ حاصل ہو گا ۔یہ تو
ممکن ہے کہ بیچ لگانے والے کا پودا دیر سے نکلے یہ ممکن نہیں کہ آپ بیج
بوئے بغیر پودے کا انتظار کریں۔ لہذا اپنے وجود کے پودے کو پنپنے دیں۔زندگی
جو رب کی عظیم نعمت ہے اس کی قدر کریں۔ہر قسم کے حالات سے مطابقت پیدا کر
کے بہترین راستوں کا انتخاب کیجیے۔ |