صحابہؓ پر غم کے پہاڑ ٹوٹے۔۔۔

(12 ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر)
ماہ ربیع الاول میں حضور اکرم ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے ۔ آپ ﷺ کی تشریف آوری سے ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوگئیں۔حضور اکرم ﷺ کے آنے سے جہاں ایک طرف غلاموں کو آزادی اور خواتین کو عزت ملی وہاں دوسری طرف عدل و انصاف کا نظام قائم ہوا۔ جہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر جھگڑے ہوتے تھے وہاں پیار و محبت اور شفقت کی فضا قائم ہوئی۔آپ ﷺ کو صادق و امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا اوریہاں تک کہ کفار بھی اپنی امانتیں آپ ﷺ کے پاس رکھا کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے عدل و انصاف کو اس قدر فروغ دیا کہ کوئی اپنا ہو یا بیگانہ سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیا۔حضور اکرم ﷺ کے غیر جانب درانہ فیصلوں اور برابری کے اصولوں کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ایک نامور و امیر قبیلے کی فاطمہ نامی عورت نے چوری کر لی اور اس کے لیے معافی کی درخواست کی گئی ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس عورت کی جگہ میری اپنی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹنے سے بھی گریز نہ کرتا۔حضور اکرم ﷺ کے عدل و انصاف کی تعریفیں دشمن بھی کرتے تھے ۔

حضور اکرم ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور ہمیں ہر حال میں حضور اکرم ﷺ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ خوشی ہو یا غمی کا عالم ہو ہمیں ہر ایک موقعہ پر سنت نبوی ﷺ کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ حضور اکرم ﷺ خوشی کے موقعوں پر خالق کائنات کا شکرانہ ادا کیا کرتے تھے اس کی کئی صورتیں تھیں۔ کبھی آپ ﷺ اﷲ کریم کا شکریہ نماز پڑھ کر ادا کیا کرتے تو کبھی نفلی روزہ رکھ کر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے تھے۔حضور اکرم ﷺ اپنی ولادت کی خوشی میں سوموارکے دن کا روزہ رکھتے تھے کیونکہ سوموار کو آپ ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی۔غم کے موقعوں پر آپ ﷺ ہمیشہ صبر کرتے تھے اور صبر کی تلقین کرتے تھے۔آج کے گئے گزرے دور میں ہماراخوشی و غمی کے اظہار کا طریقہ آپ ﷺ کے طریقے سے بالکل تبدیل ہو چکا ہے بلکہ ہم مخالف سمت میں جا رہے ہیں ۔ غمی کے موقعہ پر ہمارا واویلہ اور چیخ و پکار حضور اکرم ﷺ کے طریقے سے بالکل الٹ ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا بیٹا ابراہیم فوت ہوا تو آپ ﷺنے اس کو ہاتھوں میں اٹھایا ہوا تھا اور آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے مگر آپ ﷺ نے ذرا بھی چیخ و پکار نہیں کی بلکہ صبر کا مظاہرہ کیا۔ رنج و الم کے موقعوں پر آپ ﷺ نے ہمیشہ صبر کی تلقین کی ہے اور چیخنے چلانے ، واویلا کرنے اور اپنے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے۔خوشی کے مواقع پر ڈھول بجانا ، ناچ گانا ، بھنگڑے ڈالنا اور فضول خرچی سے حضور اکرم ﷺ نے سختی سے منع کیا ہے بلکہ آپ ﷺ خوشی کے موقعوں پر اﷲ کا شکریہ ادا کرنے کا حکم دیاہے ۔ آج کے دور میں لوگ خوشی کے موقعہ پر خدا کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ شادی کے موقعہ کو دیکھا جائے تو وہاں کیا کچھ نہیں ہورہا جو حضور اکرم ﷺ کی سنت کے خلاف ہے۔ تیل مہندی کے فنگشن ، ڈھول، بینڈ باجے ، ناچ گانا ، ویڈیو فلمیں ، بارات میں لوگوں کی کثیر تعداد ، جہیز کی ڈیمانڈ وغیرہ سب کچھ اسلام کے اصولوں اور سنت نبوی ﷺ کے سراسر خلاف ہے ۔ اور سنت نبوی ﷺ کے مطابق شادی صرف اور صرف نکاح اور ولیمے پر مشتمل ہے باقی سب کچھ فضول رسمیں ہیں۔

12 ربیع الاول کوپاکستان سمیت دنیا بھر میں حضور اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت کی خوشی منائی جاتی ہے۔ اس روز جلوس نکالے جاتے ہیں اور گلیوں ، بازاروں کو رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے ۔ہر طرف ایک جشن کا سماں ہوتا ہے ، ہر گلی محلے اور گاڑی میں بلند آواز میں گلہائے عقیدت پیش کرنے کے لیے باقاعدہ لاوڈ سپیکر کے انتظام کے ساتھ ساتھ گلیوں میں مٹی اور رنگدار مٹیریل سے مسجد نبوی ،خانہ کعبہ اور دیگر نقش تیار کیے جاتے ہیں ۔ شام کے اوقات میں لوگ بچوں اور خواتین سمیت ان مصنوئی مساجد و بیت اﷲ اور دیگر نقشوں کو دیکھنے کے لیے جلوسوں کی شکل میں نکلتے ہیں اور گلیوں کے چکر لگاتے ہیں ۔ولادت مصطفی کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور میٹھے شربت ودودھ کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔یہ سارے اعمال 12 ربیع الاول کو حضور اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت کی خوشی میں سرانجا دیے جاتے ہیں۔ جبکہ ولادت کی حتمی تاریخ کا علم ہی نہیں۔حضور اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کی حتمی تاریخ کے بارے میں مفسرین کی رائے میں اختلاف پایا جاتا ہے جبکہ آپ ﷺ کی وفات کی تاریخ تمام مفسرین نے 12 ربیع الاول لکھی ہے ۔ ولادت با سعادت کی مختلف تاریخیں بیان کی گئی ہیں کہیں 8 ربیع الاول تو کہیں 12 ربیع الاول کی تاریخ آتی ہے ۔ کسی مفسر نے 9 ربیع الاول بیان کیا ہے تو کسی نے 11 ربیع الاول کی تاریخ لکھی ہے ۔ اگر تاریخ ولادت 12 ربیع الاول کو ہی مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ 12 ربیع الاول کو ولادت با سعادت اور 12 ربیع الاول کو ہی وفات النبی ﷺ ہوئی کیونکہ تاریخ وفات کی تاریخ میں کوئی اختلاف نہیں اور تمام مفسرین نے 12 ربیع الاول کو ہی وفات لکھی ہے۔اگر ولادت اور وفات ایک ہی دن ہو تو بھلا خوشی زیادہ ہو گی یا غم ؟ یقینا غم خوشی پر غالب آجاتا ہے۔

وفات النبی ﷺ کے موقعہ پر صحابہ کرام ؓ پر غموں کے پہاڑ ٹوٹے ۔ ہر کوئی پریشان تھا ، اور کچھ صحابہ تو بار بار غشی کی حالت میں مبتلا ہورہے تھے۔ موذن رسول ﷺ حضرت بلالؓ مدینہ ہی چھوڑ گیا کہ حضور اکرم ﷺ نظر نہیں آتے اس وجہ سے یہاں رہا نہیں جاتا۔غم کی شدت کی وجہ سے موذن رسول حضرت بلال ؓ سے آذان نہیں دی جاتی تھی ۔ کافی عرصہ بعد حضرت بلال ؓ مدینے آئے تو لوگوں نے گھیر لیا کہ بلال ؓ آج آذان سناؤ۔ حسنین کریمین ؓ کی ضد پر حضرت بلال ؓ نے آذان شروع تو کردی مگر مکمل نہ کر سکے ۔ محمد الرسول ﷺ کے الفاظ پر پہنچے تو بے ہوش ہو کر گر پڑے۔وہ بلال ؓ جو امیہ کے ظلم سے ایک پل کے لیے بھی نہیں گھبرایا آج حضور اکرم ﷺ کی جدائی کا غم برداشت نہیں کرپایا۔ وہ بلال ؓ جس کو گرم ریت پر گھسیٹا گیا تو پریشانی نہیں ہوئی آج حضور اکرم ﷺ کی جدائی کی پریشانی برداشت نہیں کر پایا اور بے ہوش ہوکر گر پڑا۔یہ عالم تھا صحابہ کرام کا کہ اپنی ہوش ہی گنوا بیٹھے تھے ۔ وفات سے کچھ لمحات پہلے حضرت فاطمہؓ کے کان میں حضور اکرم ﷺ نے اپنے جانے کے بارے میں بتلایا تو حضرت فاطمہ ؓ کی آنکھوں میں سمندر امڈ آیا۔حضور اکرم ﷺ کی وفات کا دکھ تو جانوروں سے بھی برداشت نہیں ہوا اور حضور اکرم ﷺ جس اونٹنی پر سواری کیا کرتے تھے وہ اونٹنی غم کے مارے کنویں میں گر کر جان دے گئی۔وفات النبی ﷺ کے موقعہ پر تمام صحابہ کرامؓ پر غم کی انتہا ہوگئی تھی۔ بڑے بڑے جلیل القدر اور بہادر صحابہ کرام ؓ وفات النبی ﷺ کے موقعہ پرغم کی وجہ سے اپنے ہوش گنوابیٹھے ۔حضرت عمر ؓ نے اپنی تلوار میان سے نکال لی اور اعلان کیا کہ جو کہے گا حضور اکرم ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں عمر ؓ اس کی گردن اڑا دے گا۔صحابہ کرام کی غم کی وجہ سے حالت یہ تھی کہ کچھ صحابہ کا کہنا تھا کہ اگر اتنا بڑا غم پہاڑوں پر آجاتا تو پہاڑ غم کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ 12 ربیع الاول کا دن صحابہ پر قیامت کی طرح گزرا تھا ۔ زندگی بھر اس دن خوشیوں کا اظہار کسی بھی صحابی ؓ نے نہیں کیا۔کیاولادت باسعادت کی خوشی صحابہ کرام ؓ کو نہیں تھی؟حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ نے اپنی بیٹیاں حضور اکرم ﷺ کے نکاح میں دے رکھی تھیں کیا ان کوولادت رسول ﷺ کی خوشی نہیں تھی؟ ۔ کیا حضور اکرم ﷺ کے داماد حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت علی ؓ کو آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی نہیں تھی ؟ کیا عشرہ مبشرہ و دیگر صحابہ کرام کو حضور اکرم ﷺ کی ولادت کی خوشی نہیں تھی؟

کسی بھی صحابی کی زندگی سے حضور اکرم ﷺ کی ولادت کی خوشی اس انداز میں منانے کا ثبوت نہیں ملتاجس انداز سے آج ہم مسلمان منا رہے ہیں۔خدارا خوشی ضرورمنائیں مگر سنت رسول ﷺ کے مطابق منائیں۔ آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھیں ، نفل و نوافل پڑھیں۔صدقہ و خیرات اور دیگر ایسے اعمال کریں جو حضور اکر م ﷺ سے ثابت ہیں۔ اگر واقعی خوشی منانا چاہتے ہو تو جلوس نکانے کی بجائے باجماعت نماز ادا کریں جو حضور اکرم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔جس طریقے سے آج ہم مسلمان ولادت رسول ﷺ کا جشن منارہے ہیں یہ صرف اور صرف دکھاوا ہے ، ریاکاری ہے اسلام میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ خدارا دکھاوا کرنے سے نیکی نہیں ملتی بلکہ وقت اور پیسوں کا ضیاع ہے ۔آج ہم تمام مسلمان نیکی سمجھ کر جس طریقے سے میلاد النبی ﷺ کاجشن منارہے ہیں یہ حضور اکرم ﷺ کا پسندیدہ طریقہ نہیں ہے۔ خدارا حق کو پہچانیے اور سنت رسول کے مطابق اپنی خوشی کا اظہار کریں۔ اﷲ پاک ہمیں حق سمجھنے ، اس پر عمل کرنے اور سنت نبوی ﷺ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
Malik Muhammad Shahbaz
About the Author: Malik Muhammad Shahbaz Read More Articles by Malik Muhammad Shahbaz: 54 Articles with 39882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.