امت محمدیہ کی سعادت حاصل ہونا ہی اعزاز ہے

سرزمین یمن پر حکمرانی کرنے والا بادشاہ سیف ذوالنیر نے ایک بار حضرت عبدالمطلب کو اپنے ہاں تشریف لانے کی دعوت دی ۔جب آپ دربار شاہی میں پہنچے تو بادشاہ نے خلاف توقع اپنی نشست سے اٹھ کر استقبال کیا ۔حضرت عبدالمطلب ، بادشاہ کے اس خوشدلانہ روپے پرحیران ہوئے ۔ بادشاہ نے کہا میں نے صرف یہ بتانے کے لیے آپ کو یہاں بلایا ہے کہ مکہ مکرمہ کے حرم کی چار دیواری میں ایک بزرگ مہمان آنے والا ہے جس کے نور سے پوری دنیا منور ہوجائیگی ان کے دونوں کندھوں کے درمیان حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی کی طرح ایک خوبصورت تل ہوگا ۔یہ فرزند حضرت آدم علیہ السلام کی طرح برگزیدہ ، حضرت شیث علیہ السلام کی نسبت رکھنے والا ، حضرت ادریس علیہ السلام جیسی پاک دامن ، دین الہی ملت ابراہیمی کا عبا پوش ، حضرت اسمعیل علیہ السلام کی مانند را ہ خدا میں اپنے آپ کو پیش کرنے والا ، حضرت یعقوب علیہ السلام جیسا محبت کرنے والا ، حضرت یوسف علیہ السلام جیسا خوبصورت ، حضرت موسی علیہ السلام کی طر ح اﷲ سے کلام کرنے والا ، حضرت لقمان جیسی حکمت والا ، حضرت یحیی جیسی عصمت والا ، حضرت عیسی جیسی طہارت کا حامل ہوگا ۔وہ پیدائشی یتیم ہوگا جس کی پرورش آپ فرمائیں گے ۔بادشاہ نے رب کعبہ کی قسم دیتے ہوئے کہا میں نے کتب آسمانی میں جو پڑھا وہ آپ کے گوش گزار کردیا ۔یہ سن کر حضرت عبدالمطلب سجدہ شکر بجالائے اور مکہ مکرمہ کی جانب چل دیئے ۔جب وقت ولادت آ پہنچا تو حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے وضع حمل کے وقت ایک باعظمت آواز سنی جسے سن کر میں خوفزدہ ہوگئی ۔میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ایک سفید شربت کا بھرا ہواپیالہ میرے سامنے تھا ۔ پیاس کا غلبہ مجھ پر طاری تھا، میں نے پیا تو وہ شہد سے زیادہ شیریں اور خوش ذائقہ تھا ۔اس کے بعد مجھ سے نور عظیم ظاہر ہوا ۔ جس سے اردگرد کا تمام ماحول نور کی روشنی سے منور ہوگیا ۔کوشش کے باوجود مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔کچھ دیر بعد میں نے اپنے اردگرد خوبصورت چہروں والی عورتیں دیکھیں وہ میری دیکھ بھال کررہی تھیں۔میں نے ریشم کا ایک لمبا ٹکڑا جس کا رنگ انتہائی سفید تھا آسمان سے زمین پر اترتے ہوتے دیکھا پھر میں نے ایک غیبی آواز سنی ۔اس فرزند کو لوگوں کی نظروں سے محفوظ رکھو ۔پرندوں کی ایک جماعت دیکھی جن کی چونچیں زمرد اور یاقوت کی مانند تھیں ۔اپنے صحن میں لوگوں کی ایک اور جماعت دیکھی جن کے ہاتھوں میں چاندی کے برتن تھے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر خوف کی وجہ سے میرا جسم پسینے سے شرابور تھا جس سے کستوری کی خوشبو آرہی تھی ۔اس حالت میں مجھ پر مشرق و مغرب کے کنار ے ظاہر ہوگئے ،میں نے تین علم بلند ہوتے دیکھے ایک مشرق ،دوسرا مغرب اور تیسرا کعبہ کی چھت پر ۔یہی وہ وقت تھا جب محمد ﷺ دنیا میں تشریف لائے ۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنا سر سجدے میں اور ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا رکھے تھے ۔اسی اثنا میں سفید بادل کا ایک ٹکڑا آسمان سے زمین پر اترا اور آپ ﷺ کو لے کر غیب ہوگیا ۔اس کے بعد میں غیب سے آواز سنی کہ محمد ﷺ کو دنیا کے مشرقوں ، مغربوں اور تمام جہانوں کی سیر کراؤ تاکہ وہ تمام مخلوقات کو شکل اور صفات سے پہچان لیں پھر پلک جھپکتے میں بادل چھٹ گیا اور محمد ﷺ کو سفید صوف میں لپٹا ہوا دیکھا جو دودھ سے زیادہ صاف اور ریشم سے زیادہ نرم تھا۔پھر دو شخص ظاہر ہوئے جنہوں نے آپ ﷺ کے کان میں بہت سی باتیں کیں، دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا اور کہا اے محمد ﷺ تجھے خوشخبری ہو کہ تمام پیغمبروں کا علم تجھے عطا کردیاگیا ہے۔پھر آپ ﷺ کو حضرت آدم علیہ السلام کے پاس لے جایاگیا حضرت آدم علیہ السلام نے آپ کو سینے لگایااور فرمایا اے محمدﷺ تجھے بشارت ہو کہ تو میرے اولین و آخرین فرزندوں میں سے ہوگا ۔ہشام بن مالک کہتے ہیں کہ ایک بار ہمیں امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے روم کے بادشاہ ہرقل کے پاس بطور قاصد بھیجا تاکہ میں اسے اسلام کی دعوت دوں ۔جب ہم دربار میں پہنچے تو ہرقل نے ہم سے کئی سوالات پوچھے جن کا ہم نے جواب دیا پھر ہرقل ہمیں ایک ایسی جگہ لے آیا جہاں ایک بڑا سا صندوق پڑا تھاجب وہ کھولا تو اس میں بہت سارے خانے تھے ہر ایک کاالگ دروازہ، جس پر تالہ لگاہواتھاوہ ہر خانہ کھولتا اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک کی تصویریں دکھاتا ۔ سب سے آخرمیں ایک خانہ کھولا جس میں سے کپڑے کا ٹکڑا نکالا اس پر حضرت محمد ﷺ کی صورت مبارک تھی ۔اس تصویر کی تعظیم میں پہلے وہ کھڑا ہوا پھر بیٹھ کر کہا تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا یہی حضرت محمد ﷺ ہیں ۔ہم نے جواب دیا بالکل یہ انہی کی تصویر ہے ۔ ہم نے ہرقل سے سوال کیا کہ آپ نے انبیاء کرام کی تصویریں کہاں سے حاصل کیں ۔ہرقل نے جواب دیاکہ حضرت آدم علیہ السلام نے مصور حقیقی اﷲ تعالی سے درخواست کی کہ ان کی وہ اولاد جنہیں شرف نبوت عطا ہونا ہے ، انہیں دکھادی جائے ۔ اﷲ نے انبیائے کرام کی تصویریں ان کے پاس بھیجیں ۔بلاد مغرب میں آدم علیہ السلام کے خزانہ میں یہ تصویریں محفوظ تھیں جب حضرت ذوالقرنین وہاں پہنچے تو انہوں نے وہ صندوق نکال کر حضرت دانیال علیہ السلام کے سپردکیا انہوں نے ریشم کے ٹکڑوں میں منتقل کیا وہاں سے یہ تصویروں والا صندوق روم کے بادشاہوں کے خزانوں میں منتقل ہوگیا ۔ ہرقل نے کہا کاش اﷲ تعالی مجھے یہ توفیق عطا فرمائے کہ میں بادشاہت کو چھوڑ کر تمہارے غلاموں کی غلامی میں کمربستہ ہوجاؤں یہاں تک کہ میری زندگی کا چراغ بجھ جائے ۔ جب یہ باتیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ تک پہنچیں تو آپ ؓ نے فرمایا کہ بیچارہ ہرقل... اگر اﷲ چاہتا تو اسے دولت اسلام نصیب ہوجاتی ۔لیکن یہ سعادت صرف اسے ہی حاصل ہوسکتی ہے جسے اﷲ تعالی خود عطا کرتاہے ۔آپ ﷺ کی ولادت سے پہلے حضرت عبدالمطلب نے خواب دیکھا کہ ایک نورانی درخت جس کی چوٹی آسمان کو چھو رہی ہے اس کی شاخیں مشرق و مغرب تک پھیلی ہیں اس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہے اس کے سامنے عرب و عجم سب سجدہ ریز ہیں۔میں نے قریش کے کچھ لوگوں کو اس نورانی درخت کی ٹہینوں سے لٹکے دیکھا ،کچھ افراد درخت کو کاٹنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں جب وہ قریب آتے ہیں تو اچانک ایک نورانی شخص نمودار ہوتا ہے جو انہیں مارمار کربھگادیتا ہے ۔کچھ لوگ درخت کی شاخوں سے لٹکے ہوئے ہیں جب میں لٹکنے کی جستجو کرتا ہوں تو شاخیں میرے ہاتھ سے بہت اونچی ہوجاتی ہیں۔صبح جب میں نے اس خواب کا ذکر کاہن سے کیا تو اس نے کہاکہ نبی آخر الزمان کی ولادت قریب ہے صرف وہی مشرف بہ اسلام ہوں گے جو قدرت کی جانب سے نورانی درخت پر پہلے لٹکے ہوئے تھے، جو درخت کاٹ رہے تھے وہ مکہ کے کفار ہیں جو لٹکے ہوئے تھے وہ آپ جانثار ساتھی ہوں گے ۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ اﷲ تعالی نے ہمیں اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا جس پر ہمیں ہر ہر لمحے رب کا شکر اداکرنا چاہیئے اور نبی کریم ﷺ کی اسوہ حسنہ پر زیاہ سے زیادہ عمل پیراہوکر حق بندگی اداکرنا چاہیئے ۔ہزاروں درود و ہزاروں سلام ..... آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچے ۔ جس نے انسانیت کی بہتری ، رہنمائی اور اصلاح کے لیے حضرت محمد ﷺ کو اس دنیا میں پیدا فرمایا۔ ( استفادہ کتاب معارج النبوت )
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663467 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.