بھکاری

 ڈنمارک میں ایک خاتون کو ملک بدر کر دیا گیا ہے، جرم اُس خاتون کا یہ تھا کہ وہ بھیک مانگ رہی تھی، جب کہ قانون میں اس عمل کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ یہ فیصلہ کوپن ہیگن کی سٹی کورٹ نے کیا، جس کے مطابق سلواکیہ کی ایک خاتون کو چالیس دن کی قید اور ا س کے بعد ملک بدر ی کی سزا سنائی ہے۔ گویا چالیس روز تک وہ بھیک مانگے بغیر اچھے ماحول میں رہے گی اور یقینا اس سے اچھا کھانا کھائے گی، جو وہ بھیک مانگ کر باہر سے کھاتی ہوگی، بھیک مانگنے والوں کی عموماً یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ کنجوس بھی بے حد ہوتے ہیں، جس بھکاری کو دیکھیں ، وہ شکل اور ظاہری حالت سے بھکاری ہی دکھائی دیتا ہے، پھٹے پرانے کپڑے، ٹوٹی ہوئی جوتی، مسکین شکل اور بھی وہ تمام لوازمات جو ایک بھکاری کے لئے ہونے چاہیئں، موجود ہوتے ہیں۔ اگرچہ بھکاری شام تک معقول آمدنی کما لیتے ہیں، مگر جب خرچ کی باری آتی ہے تو وہ بچت کرنے اور کمائی ہوئی ’دولت‘ کو جوڑ جوڑ کر رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی بھکاری اپنی حالت سے دور سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ایسی حالت والے بھکاری بھی اپنے بینک اکاؤنٹ رکھتے ہیں ، وہ یہ ظاہری روپ اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ لوگ ان پر ترس کھاتے ہوئے، انہیں بھیک میں کچھ رقم دے دیں۔

بات بھکاریوں کی ہیئتِ کذائی کی طرف چلی گئی، اب حالات پہلے والے نہیں رہے۔ اب بھکاری سیانے ہوگئے ہیں، وہ یہی ایک گندے کپڑے، الجھے بال، ٹوٹی جوتی ایک ہاتھ میں کاسہ ایک میں لاٹھی والے بہروپ میں نہیں رہتے، اب بھکاریوں کی ایک اور قسم بھی منظر پر آچکی ہے، وہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر چوراہوں میں کھڑے ہوتے ہیں، بعض اوقات چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں، (جو اکثر سو رہے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں امکان غالب یہی پایا جاتا ہے کہ انہیں نشہ دیا گیا ہوتا ہے، ورنہ یہ سرِ شام کیسے سو سکتے ہیں؟)کبھی کوئی بزرگ مرد اور خاتون دامن پھیلائے کھڑے ہوتے ہیں، وہ بے حس و حرکت گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں، نرم دل لوگ (خاص طور پر خواتین) ایسے لوگوں پر زیادہ اور جلدی ترس کھاتے ہیں، شام ڈھلنے تک وہ اپنی جگہ پر موجود رہتے ہیں۔ کچھ بھکاری ایسے بھی ہوتے ہیں، جو آپ کو مارکیٹوں وغیرہ کے باہر کچھ فروخت کرتے دکھائی دیں گے، چیز نہ خریدنے کی صورت میں وہ مدد کی اپیل کریں گے اور اپنا کوئی دکھڑا سنانے لگیں گے۔ بچے یا تو جنتریاں بیچ رہے ہوتے ہیں، یا ایک میلا اور گندا سا کپڑا اٹھا کر گاڑیوں کے سامنے والا شیشہ صاف کرنے میں مشغول ہوتے ہیں، صاحب کے آنے پر وہ اپنے کئے ہوئے کام کا معاوضہ بھیک مانگنے کے انداز میں طلب کرتے ہیں۔

اپنے پیارے وطن میں بھی شاید بھیک مانگنے پر پابندی ہے، مگر اس پر عمل کی نوبت نہیں آتی، کبھی کہیں سوشل ویلفیئر والے آپریشن شروع کردیں تو سادہ بھکاری تو نہایت چالاکی کے ساتھ بھیس بدل لیتے ہیں، کہ انہوں نے تو کبھی یہ مکروہ دھندا کیا ہی نہیں۔ اپنے ہاں بھکاریوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ اگر انہیں گرفتار کر کے جیل بھیجنے کی نوبت آبھی جائے تو جیلیں کم پڑ جائیں گی، گرفتار کرنے والی پولیس کی نفری بھی کم پڑ جائے گی۔ گلی محلوں میں سے بھکاریوں کو ڈھونڈ نکالنا آسان نہیں۔ لیکن یہ تو سب کرنے پر منحصر ہے، اگر قانون پر عمل کرنے کی بات ہو تو مسائل پیدا ہوں، اگر بھکاریوں کو پوچھنا ہی نہیں تو کیسے مسائل، کیا پریشانی؟ ڈنمارک میں تو بھکارن کو ملک بدر کر نے کا فیصلہ ہوا،مگر یہاں تمام بھکاری اور بھکارنیں محبِ وطن ہیں۔ اپنے ہاں بھکاریوں کی ایک اور قسم بھی موجود ہے، وہ صرف صاف ستھرے کپڑے ہی نہیں پہنتی بلکہ بہت وی آئی پی بن کر رہتی ہے، ان کے آگے پیچھے پروٹوکول ہوتا ہے، گاڑیوں کی طویل قطاریں ہوتی ہیں، وہ لوگ صرف پاکستان میں ہی نہیں رہتے، بیرونِ ملک بھی چلے جاتے ہیں۔ عرفِ عام میں ان لوگوں کو ’’حکمران‘‘ کہتے ہیں۔ یہ پاکستان میں بھیک نہیں مانگتے، کیونکہ یہاں ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، یا بھیک دینے والے اُن کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ باہر کے ملکوں کے حکمران ہمارے سرکاری بھکاریوں کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ دیکھ کر حیران تو ہوتے ہیں، مگران کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے کچھ نہ کچھ ان کی جھولی میں ضرور ڈال دیتے ہیں۔ ڈنمارک اور پاکستان میں یہی ایک معمولی سا فرق ہے، وہ بھکاریوں کو ملک بدر کرتے ہیں، اور ہم ملک سے باہر جا کر بھیک مانگتے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472230 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.