گھر۔ایک محفوظ پناہ گاہ؟؟؟

گرمیوں کی ایک رات تقریباٌ سوا تین بجے گھبرا کر جب اُس کی آنکھ کھُلی تو اُس نے کسی کو خود پر جُھکا ہوا پایا۔پندرہ سالہ لڑکی کے لیٔے یہ منظر کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا مگر اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس درندے کا مقابلہ کرسکتی اسی لیٔے کروٹ بدل کر آنکھیں موندے اس اُمید پر لیٹی رہی کہ شاید وہ درندہ اب وہاں سے چلا جائے مگر اُس کا خیال غلط ثابت ہوا۔کیونکہ آدمی نے پھر سے تسلّی کرنی چاہی کہ آیا لڑکی سو چکی ہے یا نہیں مگر جب اُسے احساس ہوا کہ لڑکی جاگ چُکی ہے تو وہاں سے چلا گیا۔ایک کڑوی حقیقت اب لڑکی کے سامنے تھی۔جسے بھائی بھائی کہتے وہ آگے پیچھے گھومتی تھی آج وہی ـ’’بھائی‘‘ اُس کی عزت کا دشمن ہوگیا تھا۔

یہ صرف ایک واقعہ ہے جو یہاں گوش گزار کیا گیا ہے۔ایسے درجنوں واقعات پچھلے چند سالوں میں اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کی شہ سُرخیوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔کوئی لڑکی کسی رشتہ دار کے ہاتھوں رُسوا ہوئی تو کسی کا سوتیلا باپ ہی مجرم نکلا۔کوئی بھائی کی ہوس کا شکار ہوئی تو کوئی باپ کی لالچ کی بھینٹ چڑھ گئی۔ایسے ہی واقعات ہم نے سنے،دیکھے اور پڑھے ہیں مگر انہیں صرف اپنی سماعت اور بصارت تک ہی محدود رکھا۔کبھی ان واقعات کو اپنی بصیرت تک پہنچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔کبھی غوروفکر کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ آخر ان سب کی وجہ کیا ہے۔آخر کہاں غلطی ہورہی ہے جس کا نتیجہ بنتِ حوا کو یوں بھگتنا پڑرہا ہے۔مگر ہم یہ سب کیوں سوچیں آخر’’ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے‘‘۔

غلط بالکل غلط !یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ یہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے اور ہر شہری جلد یا بدیر معاشرتی مسائل کا شکار ضرور ہوتا ہے۔اس سے پہلے کہ ہم سب ان مسائل کی لپیٹ میں آئیں ان کا حل تلاش کرنا انتہائی اہم ہے۔

اگر اس طرح کے واقعات پر غور کیا جائے تو تین اہم عوامل ذہن میں آتے ہیں۔ تربیت،ماحول اور بیٹھک۔ یہ تینوں عناصر کسی شخصیت کو بنانے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ہم اپنی بیٹیوں کی تربیت پر تو بہت توجہ دیتے ہیں مگر کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ ہم اپنے بیٹوں کی تربیت پر کتنا وقت صَرف کررہے ہیں؟ بیٹیوں کو زمانے کی اُونچ نیچ سمجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی مگر بیٹوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے کہ باہر نکلے گا تو خود ہی سیکھ لے گا۔ بیٹیوں کی چھوٹی سی غلطی گناہ کے برابر تصور کی جاتی ہے جبکہ بیٹوں کے لیئے بس ایک ہی جملہ کافی ہوتا ہیـ’’لڑکا ہے عمر ہے اسکی یہ سب کرنے کی۔ خود ہی سمجھ جائے گا‘‘۔ درحقیقت معاشرے میں پھیلتے اس ناسور کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ہم نے کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی کہ لڑکیوں سے ذیادہ لڑکوں کی تربیت ضروری ہوتی ہے۔آج ہم خود سے سوال کریں کیا ہم نے کبھی اپنے بیٹوں کو سمجھایا کی صنفِ مخالف کی عزت کرو۔اُن پر آوازیں نہ کَسو۔راستے پر چلو تو نظریں جھکا کر چلو۔۔۔ افسوس مگر اسکا جواب یک لفظی ہے’’نہیں ــ‘‘۔ہم نے کبھی اپنے بیٹوں کی تربیت پر توجہ ہی نہیں دی نہ ہی انہیں کبھی اِخلاقیات سکھانے کی کوشش کی۔وہ اِخلاقیات جو ایک انسان اپنے گھر سے سیکھتا ہے۔ جو دنیا کی بڑی سے بڑی ڈگری اُسے نہیں سکھاسکتی۔ یہ ہماری تربیت کا ہی فقدان ہے کہ کل تک جو گلی محلّوں میں ہوتا تھا آج اُس کیچڑ کے چھینٹے ہمارے گھروں کو بھی گندا کرنے لگے ہیں۔ہوس اور لالچ نے خونی رشتوں کی بھی تمیز ختم کردی ہے۔کل تک جو محافظ تصور کیا جاتا تھا آج وہی مُجرم کا روپ دھارچکا ہے۔

آخر کیوں انسان اپنے ہی رشتوں کا بھرم توڑرہا ہے۔کیوں وہ خونی رشتوں کا قاتل بنتا جارہا ہے۔اس کا ایک جواب ماحول بھی ہے۔ انسان وہی کچھ کرتا ہے جو وہ اپنے ماحول سے سیکھتا ہے۔اُس کا ہر عمل اس کے اردگرد اور اُس کی بیٹھک کی عکاسی کرتا ہے۔اگر کوئی بچہ اپنے باپ کو صنفِ نازک کی عزت کرتے ہوئے دیکھے گا تو یقیناً وہ بھی اُن کی عزت کریگا لیکن اگر وہی بچہ صنفِ مخالف کو اپنے باپ کہ ہاتھوں رُسوا ہوتے دیکھتا ہو تو اُس بچے سے کیسے اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے باپ کہ نقشِ قدم پر نہیں چلے گا۔ اِسی طرح انسان اپنی بیٹھک سے اثر لیتا ہے۔ایک خراب بیٹھک کبھی بھی اچھی شخصیت تعمیر نہیں کرسکتی۔ مگر ہم کبھی توجہ ہی نہیں دیتے کہ ہمارا لڑکا کس کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہے کیسے لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے۔ کیونکہـ’’ وہ تو لڑکا ہے خود ہی سمجھ جائے گا‘‘۔

بحیثیت والدین بیٹوں کے معاملے میں ان تین اُصولوں کو ہم سب سے ذیادہ نظر انداز کرتے ہیں اور پھر اُس کے نتائج یا تو یونہی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کی شہ سُرخیاں بن جاتے ہیں یا پھر گمنام خاموشی کی نظر ہوجاتے ہیں۔ معلوم نہیں عرفِ عام میں ان نتائج کو کیا نام دیا جاتا ہے مگر میں اِسے گھریلو ذبیحہ (Domestic Slaughter) کا نام دیتی ہوں جو نا صرف رشتوں بلکہ کسی معصوم و مظلوم کی شخصیت حتٰی کہ پوری زندگی کا اُس کے اپنوں کے ہاتھوں فنا ہوجانے کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔

خُدارا بحیثیت والدین اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ خُدارا اپنے بیٹوں کو صرف کامیاب آدمی ہی نہیں بلکہ کامیاب انسان بنانے کے لیئے محنت کریں۔ بیٹوں کی تربیت کی اہمیت کو سمجھیں اور انہیں عصمت در نہ بننے دیں بلکہ انہیں عزتوں کا محافظ بننے کی تلقین کریں تاکہ پھر کوئی بنتِ حوا اپنی عصمت کا تماشہ دیکھے نہ ہی کوئی ابنِ آدم انسانیت کی معراج سے گرے۔

ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم ہر واقعے کا ذمہ دار حکومت کو ٹہرادیتے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ حکومت ہی ہر نقصان کا ازالہ بھی کرے۔ مگر ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ان تمام واقعات سے حکومتِ وقت کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اگر حکومت کچھ کرسکتی ہے تو بس اتنا کہ مُجرم کو سزا دلواسکتی ہے۔مگر یہ سب جُرم کے بعد کی کہانی ہے۔ گُناہ سے پہلے حکومت کا کوئی کردار نہیں۔ یہ تو معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ گُناہ ہونے سے پہلے اُسے روک لیا جائے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اُولاد کو اعلیٰ اوصاف کا مالک بنائیں تاکہ پھر سے ایسی کوئی داستان ہماری سماعتوں سے نہ ٹکرائے۔ابھی وقت ہمارے ہاتھ میں ہے ہم چاہیں تو اپنی نسلوں کو اِس تباہی سے بچاسکتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل اِس گندگی سے ہمارا دامن بھی غلیظ ہوجائے اور پچھتاوا ہمارا مُقدر بن جائے۔

اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے سوچیں، سمجھیں اور اصلاح کریں۔ اﷲ آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
Maheen Usman
About the Author: Maheen Usman Read More Articles by Maheen Usman: 2 Articles with 2994 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.