اونچا لمبا سرو قد،اچھی صحت ،سفید لباس،بے
مونڈھی بڑھی ہوئی لمبی داڑھی اور مونچھیں!یہ صاحب اپنے چہرے مہرے سے ہندو
سادھو معلوم ہوتے ہیں ،لیکن بلا کے شاعربھی ہیں ۔میں انہیں بالکل نہیں
جانتا کہ یہ کون ہیں اور کہاں سے ہیں،بلکہ میں تو ان کا نام تک نہیں جانتا
(اگر کوئی صاحب یا صاحبہ میری رہنمائی فرمائیں تو میں شکر گزار ہوں گا ۔)امریکہ
سے بھائی نصیرالدین صاحب نے جو ویڈیو بھیجی ہے اس میں یہ صاحب ’’ مہاراشٹر
سٹیٹ اردوساہتیا اکیڈمی‘‘ کے اشتراک سے محترمہ سمیرہ عزیز کی کتاب کی تقریب
رونمائی میں اپنا کلام سنا رہے ہیں ۔
محبت کے بنا اپناگزارا ہو نہیں سکتا
نبی ﷺ کے بن نظاروں کا نظارہ ہو نہیں سکتا
مجھے اپنا کہوچاہے مجھے تم غیر کہہ دینا
نہیں ہے جو محمد ﷺ کا ہمارا ہو نہیں سکتا
میرے سینے کی دھڑکن ہیں میری آنکھوں کے تارے ہیں
سہارا بے سہاروں کا، خدا کے وہ دلارے ہیں
سمجھ کر تم فقط اپنا ،انہیں تقسیم نہ کرنا
نبی ﷺ جتنے تمھارے ہیں نبی ﷺاتنے ہمارے ہیں
سبق تم نے محبت کا ہراک انساں کو سکھلایا
مقدس راستہ دے کر دین دنیا میں پھیلایا
تمھی ساگر،تمھی دریا ،تمھی کشتی ،تمہی ملاح
رسول اﷲ رسول اﷲ رسول اﷲ رسول اﷲ
جس انداز سے یہ کلام انہوں نے پڑھا ، اگر میرا اندازہ درست ہے تو یہ ان کا
اپناہی کلا م ہوگا۔ لیکن اگر یہ کلام ان کا اپنا نہیں بھی ہے تو میرے نزدیک
ان کے اچھا انسان ہونے کی یہ دلیل کافی ہے کہ یہ محسن انسانیت ﷺ کی صفت
رحمتہ اللعالمین پر زور دیتے ہیں ،محبت کے پرچارک ہیں اور نبی آخرالزمان ﷺ
کی ذات اقدس کو مذہب یا مسلک کی عینک سے دیکھنے کے روادار نہیں ہیں ۔ سچ
کہا ہے کسی نے کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ انسان خود بھی اپنی خوبیاں
بیان کرتا ہے اور اپنے پیاروں کی بھی،لیکن ایک غیر مسلم ہوکر ببانگ دہل
خاتم النبین ﷺکی مدح سرائی کرنا بلاشبہ بہت بہادری اور بڑے ظرف کی بات ہے ۔
مسلمان اس حوالے سے بلاشبہ خوش قسمت ہیں کہ وہ جس نبی ﷺ کے پیروکار ہیں ان
کی زندگی میں بھی ان کے بدترین دشمن کسی ایک حوالے سے بھی ان پر انگلی نہیں
اٹھا سکے۔نہ صرف یہ بلکہ سپاہ گری اورعلم و دانش کی جدید دنیا میں بھی
نپولین بوناپارٹ سے لے کر دلورام کوثری تک ہر صاحب علم ان کے
کردار،علم،بصیرت ،انسان دوستی ،غریب پروری ،سراپا رحمت ہونے کا معترف ہے ۔لیکن
کیا بد قسمتی ہے کہ آج اسی نبی رحمت ﷺکے نام لیوا دہشت گردی، انتہا پسندی
اور انسان دشمنی جیسے کریہہ الزامات کی زد میں ہیں ۔غیروں نے ان کے علم و
بصیرت کو بنیاد بنا کر دنیائے جدید میں ایسے شاہکار معاشرے پروان چڑھائے کہ
دنیا انگشت بدنداں ہے۔لیکن ایک ہم ہیں کہ ہر نئی ایجاد اور نئی دریافت کا
کھرا قرآن اور صاحب قرآن کی تعلیمات تک لے جاتے ہیں ۔کیوں ہم نے ان تعلیمات
کو بنیاد بنا کر خود یہ ایجادات نہیں کیں؟سو ملین ڈالر کا نہیں یہ کروڑوں
ملین ڈالر کا سوال ہے جس کا جواب ہم میں سے ہر ایک کو معلوم ہے لیکن ہمارے
جیسا بے پروا شتر مرغ بھی تاریخ نے کوئی کم ہی ٰدیکھا ہوگا کہ اپنے منہ سے
اس بات کا اعتراف کرنے کا یارا ہم میں نہیں ہے ۔ صاف بات تو یہ ہے کہ ہم نے
رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کا نہ تو ادراک کیا نہ ان پرتحقیق گوارا کی ۔ دنیائے
جدید و قدیم میں کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں رہنمائی کے لئے رسول اﷲ ﷺ کی
تعلیمات سے رہنمائی میسر نہ ہو، یہ بات ہمارے ایمان میں تو شامل ہے لیکن اس
کی کھوج لگانے کی جسارت ہم نے کبھی نہیں کی ۔علم!جس کی طرف خالق کائنات نے
نبی آخرالزماں ﷺ کی طرف پہلی وحی میں ہی توجہ دلائی اس سے ہم نے ناطہ توڑ
لیا اورپھرہم اسی گناہ کی پاداش میں قعر مذلت میں دھکیل دیئے گئے ۔انسان
دوستی اور مخلوق خدا سے رحم کو برتاؤ کرنے والے نبی اکرم ﷺ کی باتیں تو ہم
جھوم جھوم کر کرتے ہیں ،ان کے معجزات بیان کرتے ہیں اور پھر سبحان اﷲ کی
آوازوں سے شہروں کے شہر گونج جاتے ہیں لیکن ان معجزات کے پیچھے کون سی
بصیرت،کون سا علم ،کون سی تکنیک ،کون سی مہارت ،کون سے فارمولے کارفرما تھے،
اس پہلو پر سوچنے کہ زحمت ہم نے آج تک بہت ہی کم کی ہے ۔سیرت کی کتابوں میں
عاشقوں نے اپنے عشق سے وہ موتی پروئے ہیں جو تاریخ عالم میں کسی اور کا
اعزاز نہیں ہو سکے ۔چودہ سو برس بیت گئے لیکن یہ سفر تھما نہیں ،ہر صاحب
دانش اپنی سعادت سمجھتا ہے کہ وہ محمد رسول اﷲ ﷺکی شان میں قصیدہ گو ئی
کرے۔ہر ایک کا اپنا مقام ہے اور ہر ایک نے خون جگر سے مدحت رسول ﷺ کے باغ
کو سینچا ہے ۔ خدا سلامت رکھے ،خاکسار کو حضرت لعل شاہباز قلندرؒ اور شاہ
عبدالطیف بھٹائیؒ کی دھرتی سندھ کے عروس البلاد میں مقیم درویش کی یاد آتی
ہے جنہوں نے دن رات کی عرق ریز ی سے تین جلدوں میں ایک کتاب ’’ محمد رسول
اﷲ ﷺ‘‘ مرتب کی ۔خواجہ شمس الدین عظیمی !رسول اﷲ ﷺکی تعلیمات کو جنہوں نے
اس رنگ سے پیش کیا کہ اہل اسلام تو کیا ہندو،سکھ اور عیسائی بھی رسول اﷲ کی
تعلیمات کی حقیقی روح سے آشنا ہوئے اور ان کے عقیدت مند بن گئے ۔ کتاب محمد
رسول اﷲ کی جلد اول میں خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سیرت کے مختلف
پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے جبکہ جلد دوم میں عظیمی صاحب نے تاریخ میں پہلی بار
سرکار دوعالم ﷺ کے معجزات کی سائنسی توجیح بیان کی ہے ۔ جلد سوم قرآن کریم
میں مذکور انبیا ء کے ذکر پر مشتمل ہے ۔ پیغمبران کرام کی تعلیمات پر
غوروفکر سے ہی ہماری رہنمائی ہوتی ہے کہ تمام تر پیغمبران کرام نے مشترکہ
طور پر نہ صرف اچھائی اور برائی کے تصور سے آگاہ کیا بلکہ خود اس پر عمل کر
کے یہ تصدیق بہم پہنچائی کہ اچھائی اور برائی میں تفریق کر کے ہی انسان ایک
اچھی زندگی گزار سکتا ہے ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ خالق کائنات کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنی کتاب میں ہمیں
کہانیاں سنائے؟اﷲ تعالی حکیم وخبیر ہیں ،اس کی ہر بات میں حکمت ہے، ہر کام
میں قدرت ہے ،ہرکام میں دانش ہے ، تعلیم ہے ، ہدایت پانے کے لئے جدوجہد ہے
اصول ہیں ۔اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ ’’کتاب ‘‘ کا
علم ان کائناتی قوانین اور فارمولوں پر مشتمل ہے جن پر کائنات چل رہی ہے ۔
زمین کی گردش، آسمان سے پانی کا برسنا ،نباتات کا اگنا ، زمین پر موجود
حیوانات اور جمادات کی پیدائش اور موت،ان کی زندگی کی تحریکا ت ،سیاروں کی
گردش اور ان میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں غرض کہ ہر حرکت قانون کی پابند ہے
۔ یہی علم ’’آدم ‘‘ کو خالق کائنات کی طرف سے بطورخاص ودیعت ہوا ہے ۔ اسی
علم کو قرآن پاک میں ’’علم الاسماء ‘‘ کہا گیا ہے اور اسی علم نے آدم کو
فرشتوں پر فضیلت بخشی ہے ۔ یہ علم ہے جسے مومن کی میراث کہا گیا ہے اور یہی
علم جس انسان کو چاہے اﷲ عطا کردیتا ہے اورپھر وہ انسان تسخیر کائنات کے
فارمولوں سے آگاہ ہوجاتا ہے ۔ یاد رہے یہاں انسان کا ذکر ہے مسلمان کا نہیں
یعنی صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں ۔ |