چیت بیساکھ اور انتالیس، ستاون

جدیت کے دور میں ہم اقدار کے ساتھ اپنی زبان بھی کھوتے جا رہے ہیں۔ جو لفظ اور محاورے کبھی ہماری نانی دادی کی زبان پر ہوتے تھے نئی نسل ان سے تقریبا نہ آشنا ہو چکی ہے۔
نئی پیڑھی کے کسی بھی بچے سے مہینوں کے نام پوچھ لیں وہ جنوری فروری سے شروع ہوکر نان اسٹاپ دسمبر تک چلا جائے گا۔ اس بچے سے مہینوں کے دیسی نام پوچھ کر دیکھیں وہ حیرت سے آپ کا منہ تکنے لگے گا۔ مہینوں کے دیسی نام تو کیا معلوم ہوں گے اس کو تو اس بات پر بھی حیرت ہوگی کہ مہینوں کے دیگر نام بھی ہو سکتے ہیں۔ ویسے ممکن ہے کچھ دینی رجحان رکھنے والے والدین نے اپنے بچوں کو مہینوں کے اسلامی نام یاد کرا رکھے ہوں۔ خیر اس میں نئی پود کا کیا قصور، ان کا کوئی قصور نہیں ہے اُن کو تو وہی کچھ معلوم ہوگا نا جو اُن کو بتایا جائے گایا جو وہ اسکول میں سیکھیں گے، اب اگر اسکول میں جنوری فروری اور ففٹی ٹوئنٹی سکھایا جا رہاہے تو والدین کو اس سے کوئی غرض نہیں انہوں نے تو بچے کو اسکول بھیج کر اپنا فرض پورا کردیا۔
بات سے بات نکلتی جاتی ہے خیر بات ہورہی تھی مہینوں کے دیسی ناموں کی، آج یونہی ایک دوسست کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے مہینوں کے دیسی ناموں کو ذکر چل پڑا۔ وہ نام جو کبھی ہماری نانی دادی کی زبان اور انگلیوں پر ہوتے تھے لیکن ہم جن سے نا آشنا ہو گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے میری والدہ اور دادی شادی بیاہ اور غم خوشی کے واقعات کو تیرہ تیزی، بارہ وفات، کونڈے، شب رات جیسے مہینوں کی تاریخوں سے یاد رکھتی تھیں، یا پھر مہینوں کو ان کے دیسی ناموں چیت، بیساکھ، ساون، بھادوں کے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔مسئلہ صرف مہینوں کے دیسی ناموں تک محدود نہیں میں نے سوچا تو اندازہ ہوا کتنے ایسے نام او ر الفاظ تھے جو ہم اپنے بچپن میں سنا اور بولا کرتے تھے آج وہ لوگوں کے ذہنوں سے تقریبا مٹ گئے ہیں۔ سب سے بُرا حال گنتی کا ہے۔ دریائے سندھ کی وادی سے گنتی کی ابتدا ہوئی یہیں سے صفر کا آغاز ہوا لیکن آج صورت حال یہ ہے بچے اپنی زبان میں گنتی بھی بھول چکے ہیں۔ سرکاری یا پرائیویٹ کسی بھی اسکول کے بچے سے پوچھ لیں انتالیس، ستاون یا اڑسٹھ کتنے ہوتے ہیں وہ حیرت سے آپ کی شکل دیکھنے لگے گاجیسے آپ جاپانی بول رہے ہوں۔ آپ کہہ سکتے ہیں وقت بہت آگے نکل گیا ہے اور وقت کے ساتھ بہت سی چیزوں کا استعمال ختم یا کم ہوگیاہے تو اب ا ن کے نام کا کیا کرناہے، یہ بات چیزوں کے نام کے لئے تو ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن مہینے تو ہمیشہ سے ہیں اور بارہ ہیں اور بارہ ہی رہیں گے۔ تو ان کے وہ نام یاد کرنے میں کیا حرج ہے جو صدیوں سے ہماری زبان میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اور ہماری گنتی میں کئی ایسی آسانیاں ہیں جو انگریزی کی گنتی میں نہیں ملتیں، ہم بڑے آرام سے ساڑھے سات لاکھ کہہ سکتے ہیں انگریزی میں اس کے لئے سیون ہنڈریڈاینڈ ففٹی تھاوزنڈ کہنا پڑے گا۔ پونے او ر سوا کا بھی انگریزی میں کوئی تصور نہیں ہے۔ اس لئے بے شک آپ دور جدید کی نسبت سے انگریزی ناموں کو یاد رکھیں، چاہے وہ مہینوں کے نام ہی کیوں نہ ہوں لیکن دیسی نام جاننا او ر یاد رکھنا بھی کوئی مشکل تو نہیں اور اس میں کچھ لگتا بھی نہیں ہے۔ اب یہ کام والدین، اساتذہ اور ایسے لوگوں کا ہے جن کے ذمے لوگوں کی تربیت ہے وہ ہم اور آپ بھی ہو سکتے ہیں مسجد کے ملا جی بھی اور کوئی کالم نگار بھی۔ ٹی وی اینکر بھی اگر چاہیں تو لوگوں کو بہت کچھ سکھا سکتے ہیں۔ اب جس کو سیکھنا ہے وہ سیکھ لے جس کو استعمال کرنا ہے وہ چاہے تو استعمال بھی کر لے یہ سطریں لکھتے ہوئے بھی میرا ذہن مہینوں کے دیسی نام تلاش کر رہا ہے کچھ کچھ نام یاد بھی آرہے ہیں، محرم، چہلم، بارہ وفات، تیرہ تیجی، کونڈے، شب رات، رمضان، عید، خالی اور بقرعید۔ یہ تو ہو گئے دس دو مجھے یاد نہیں آرہے۔۔ ویسے مہینوں کے اصلی دیسی نام کچھ اس طرح ہیں۔ چیت، بیساکھ، جیٹھ، ہاڑ، ساون، بھادوں، اسو، کیتو، مگھر، پوہ، ماگھاور بھاگن۔۔ ویسے کسی نے کہا ہے نام میں کیا رکھا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔۔
شاہد احمد خان
About the Author: شاہد احمد خان Read More Articles by شاہد احمد خان: 2 Articles with 2684 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.