حق و باطل کے دوسرے معرکے کا میدان گرم
ہے۔تقریباً فتح مسلمانوں کے قدم چوم چکی تھی ۔مسلمانوں کے قائد ( )نے انہیں
اس بات کی تلقین کی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے (چاہے فتح ہو یا شکست)درہ کو
نہیں چھوڑنا۔لیکن جب مسلمانوں نے دیکھا کہ فتح ہو چکی ہے تو انہوں نے سوچا
کہ ہم بھی دوسرے بھائیوں کے ساتھ مالِ غنیمت اکٹھا کرتے ہیں۔جب انہوں نے
مال غنیمت اکٹھا کرنے کے لیے درہ چھوڑ دیا تو کفار کے لشکر میں موجودخالد
بن ولید (جوابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے)اس نے اپنے ساتھیوں کو لیکر مسلمانوں
پر حملہ کر دیا ۔مسلمان اچانک افتاد سے گھبرا گئے ۔مسلمانوں کو سنبھلتے
سنبھلتے ستر صحابہ کرام( ) جام شہادت نوش فرما گئے۔حضرت ابو بکر صدیق نے
دیکھا کہ حضور اکرم کا دفاع صرف ایک انصاری صحابی حضرت طلحہ کر رہے ہیں۔ان
کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ وہ اکیلے تیر چلا رہے تھے اور خود ہی حضور
اکرم کا دشمنوں کے تیروں سے بچاؤکر رہے تھے۔آپ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ
حضور اکرم کا دفاع کرتے کرتے ان کے ہاتھوں کی انگلیاں کٹ گئی اور جسم پر
39زخم آئے۔حضرت طلحہ کی والہانہ محبت دیکھ کر حضور اکرم نے اپنے صحابی کو
دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی تھی۔تاریخ ِ اسلام میں بہت مثالیں ملے گی جس
میں آپ کے صحابہ کرام نےاپنا تن،من،دھن حضور اکرم کی محبت میں پیش کر دیا۔
آج ہم بھی آقا سے محبت کا دعوہ کرتے ہیں۔اپنے آپ کو عاشق رسول مانتے ہیں۔
اسی جذبے سے سرشار ہم ان کی پیدائش کا دن بڑے جوش و جذبے کے ساتھ مناتے
ہیں۔جس کو عید میلاد النبی کے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ہمارے پاس ایک نہایت
عمدہ قسم کی دلیل ہے اگر کسی کے گھر بیٹا پیدا ہو تو خوشی مناتا ہے یا
نہیں؟جواب آئے گا بالکل خوشی مناتا ہے ۔تو ہم کیوں نہ اپنے آقائے دو جہاں
کی پیدائش کا دن کا جشن کیوں نہ منائیں۔جی بالکل منائیں ۔لیکن کیسے؟دعوہ تو
ہم آپ سے محبت کا کرتے ہیں اور اسی محبت کا والہانہ اظہار کے لیے ہم گھروں
کو سجاتے ہیں۔اپنی توفیق کے مطابق ہم بازار سے لائٹنگ خرید کے لاتے ہیں جو
محتاط اندازے کے مطابق 5000روپےتک کی آتی ہے۔اس سے زیادہ مہنگی بھی ہو گیں
،خیر 5000روپے بھی کم رقم نہیں ہوتی۔اگر کسی سے سوال کریں جی آپ نے لائٹنگ
میں 5000روپے خرچ کر دیا ؟جواب آئے گا محبت ِ رسول میں جان بھی قربان
ہے۔لیکن یہ بات صرف دعوے کی حد تک۔کیوں؟کیونکہ جس نبی سے ہم محبت کا دعوہ
کرتے ہیں انہوں فرمایا تھا کہ اپنے رشتہ داروں کو دیکھ لیا کرو ۔کچھ غریب
بھی ہوتے ہیں ،لیکن غیرت مند ہوتے ہیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا مناسب نہیں
سمجھتے۔ان کی مدد کیا کرو۔لیکن ہم حضوراکرم کی تمام فرامین کو بھول کے نہ
جانے کون سی محبت کا دعوہ کرتے ہیں۔کاروبار کرنے کےلیے سود بھی لیتے ہیں ۔عید
میلاد النبی والے دن نہایت قیمتی بینر زچھپواتے ہیں۔پڑوسی کو کبھی یہ تک
نہیں پوچھا کہ بھئی کیا حالات ہیں۔شائد ہم عشق نبی میں یہ بات بھول جاتے
ہیں کہ جس رسول کی ولادت کا ہم جشن منا رہے ہیں انہوں نے پڑوسی کے اتنے
حقوق بیان کئے تھے اور فرمایا تھا کہ مجھے ڈر تھا اللہ رب العزت پڑوسی کو
وراثت کا حصہ دار نہ بنا دے۔ جشن عید میلاد النبی کے دن ہم گلیاں سجاتے
ہیں۔اگر وہی پیسے اکٹھے کرکے ہم اپنے کسی غریب بھائی کو دے دیں تو ہمارا
آقا سے محبت کے دعوے کا حق بھی پورا ہو جاتا اور رب رحمان بھی راضی ہو
جاتا۔بہت ہی معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے دل میں کوئی عشق نبی نہیں
بلکہ ہمارے درمیان ایک دوڑ ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی۔اگر حاجی صاحب
نے ایک دیگ پکائی ہے تو میرا بھائی بھی کینیڈا گیا ہے ہم دو دیگیں بنائے
گے۔اس نے پہاڑیاں لگانے کے لیے 10ہزار خرچہ ہے تو ہم کسی سے کم نہیں 20ہزار
خرچ کریں گے۔لیکن کسی غریب کو 10 روپے دینے پڑیں تو ہماری ’’میں ‘‘کہا مر
جاتی ہے؟خیر ہم نے جشن منانا شروع کیا ۔سارا شہر بند کیا ۔قیامت کے دن آپ
غریبوں کو کیا جواب دیں گے جن کی روزی روٹی کا دارومدار دیہاڑی پر ہے۔اگر
دیہاڑی مر گئی تو ان کو فاقہ کرنے پڑے گا۔کبھی کسی نے سوچا۔علمائے کرام نے
آپ کی سیرت پر نہایت اعلی اور پایہ دار درس دیا ۔لیکن ان کو یہ یاد نہ رہا
کہ شہر بند ہونے کی وجہ سے ایمبولنس وقت پر ہسپتال نہ پہنچی اور مریض رستے
میں ہی دم توڑ گیا۔خلقتِ خدا کو بازاروں میں لا کر ان کے سروں جوسز کے ڈبے
مار کر ہم ساقی ِ کوثر سے کون سی محبت کا دعوہ کرتے ہیں؟نعرہ تو ہم لگاتے
ہیں کہ غلامی ِ رسول میں جان بھی قربان ہے۔لیکن اگر کسی کو کہا جائے بھئی
پڑوسی گھر میں بیمار ہے ۔ذرا اپنا ڈیک آہستہ کر لیں۔مجال ہے کہ کان میں جو
تک رینگ جائیں۔ہم عشق ِ رسول کی دھن میں مگن رہتے ہیں۔عید میلاد النبی کی
رات کا منظر نامہ تو عقیدت ِ رسول سے بھر پور ہوتا ہے ۔عورت کے بارے میں
قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلیں تو اپنا چہرہ ڈھانپ
لیں ۔ایک حدیث میں آپ نے فرمایا کہ عورتیں ہمیشہ دیوار کے کناروں کے ساتھ
چلا کریں۔عشقِ رسول کے دعوے دار عید میلاد النبی کی رات کو اپنی گھروں کی
زینت کو گھروں سے نکال لیتے ہیں اور جا کے نا محرموں کی صف میں کھڑا کر
دیتے ہیں۔جہاں ایک منٹ کا پتہ نہیں ہوتا کہ کب کوئی دھکا دےدے۔
عید میلاد النبی کے دن ہم تقریباً10سے 20 ہزار روپے فضول خرچی میں صرف کر
دیتے ہیں ۔اگر ہم کسی غریب رشتہ دار کی مدد کر دیں ،یا کسی پڑوسی کی مدد کر
دیں، یا کسی یتیم کے سر دست ِ شفقت رکھ دیں تو شائد ہم بھی کچھ نہ کچھ عشق
ِرسول کے دعوہ میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
صحابہ کرام نے آپ سے محبت کا دعوہ کس طرح نبھایا شائد ہم لوگ اس کو دیرینہ
قصہ سمجھنے لگے ہیں اور خود نیا اسلام ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس
کار خیر میں چھوٹے سے لیکر بوڑھوں تک حصہ ڈال رہے ہیں۔
اللہ پاک ہمیں اس طرح کے کار خیر میں حصہ لینے سے بچائے۔آمین۔
|