توقع سے ذیادہ

ہماری زندگی میں جس چیز سے سکون ،خوبصورتی اور اطمینان پیدا ہو سکتا ہے وہ توقع سے ذیادہ دینے کا اصول ہے ،اس سے نہ صرف ہماری اہلی ومعاشرتی زندگی سنورتی ہے بلکہ معاشی زندگی کی بہتری کے ساتھ ساتھ روحانی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ کوئی بھی انسان جب اس اصول کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے تو وہ ہر دل عزیز ہو جاتاہے۔کوئی انسان ایسے انسان کو کھونا نہیں چاہتا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توقع سے دینے کا اصول ہے کیا ،وہ کیا چیز ہے جو ایک انسان کوبیٹھے بٹھائے مقبول اور ہر دل عزیزبنا دیتی ہے۔وہ دراصل دینے کا اصول ہے،لوگ جتنا آپ سے امید کرتے ہوں اس سے ذیادہ دینا، مثلاٗ ایک طالب علم استاد کا دیا ہو سبق لکھتا ہے ،جبکہ دوسرا طالب علم استاد کا دیا ہو سبق لکھنے کے ساتھ ساتھ حاشیے لگاتا ہے ،تاریخ لکھتااور خوبصورت بنا کر ہیڈینگ دیتا ہے ،آپ خود سوچیں کہ استاد کو کون سا طالب علم زیادہ متاثر کرئے گا۔ استاد کے دل دماغ میں بہترین طلبا کی جو فہرست ہے اس میں کس طالب علم کو جگہ ملے گی۔

اسی طرح والدین ،بہین بھائی دیگر رشتی دار ،دوست بھی جب امید سے ذیادہ پاتے ہیں تو ایسا انسان جو امید سے ذیادہ کوئی بھی مثبت شے عطا کرتا ہے وہ ہر کسی کا منظور نظر بن جاتا ہے۔یہ خدائی صفت ہے ،رب ہمشہ اپنے بندوں کو ان کی طلب پر امید سے ذیادہ ہی دیتا ہے۔

ہم اپنی زندگی میں موجودہ دور میں جو بے چینی دیکھتے ہیں اس کی بڑی وجہ سب کچھ سمیٹ کر رکھ لینے کی خواہش ہے۔ جہاں دے کر منافع نہ ہو وہاں دینے کو نقصان سمجھتے ہیں۔ سمیٹ سمیٹ کر رکھنے کی لالچ دوسرے لوگوں کو کس قدر تکلیف دے رہی ہوتی ہے اس کا اندازہ بھی نہیں کرتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ زخیرہ اندوزی سے ممانت کی گئی ،دوسروں کو اپنے جیسا سمجھنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ دنیا کا ہر مزہب محبت کا درس دیتا ہے اور محبت نام ہی توقع سے ذیادہ دینا ہے۔

محبت وجود کے لیے چراغ ہے جس کی روشنی میں لوگ آپ کی طرف ایسے کھچے چلے آتے ہیں جیسے مقناطیس کی طرف لوہےکے ٹکڑے۔ جب انسان کسی کے لیے بناؑ کسی لالچ کے تحت فقط انسانیت کی محبت میں کچھ کرتا ہے تو قدرت راستہ ڈھونڈتی ہے کہ کیسے اس انسان کو اس کی محنت کا صلہ دے جو اس نے انسانیت کی محبت میں کی اس کی مثال ایسی ہی ہےکہ ایک نوجوان لڑکی نے ایک تین سال کے بچے کو دیکھا جواپنے گھر کا راستہ بھول گیا تھا اور سیڑھی پر کھڑا رو رہا تھا اس لڑکی نے سوچا یہ بچہ مزید گم ہو جائے گا لہذا وہ اسے لے کر گراونڈ فلور پر لفٹ کے پاس کھڑی ہو گئ۔کچھ دیر میں اس کی ماں ڈھونڈتی ہوئی وہاں پہنچی، اس لڑکی کا روتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔وہ مسکراتی ہوئی وہاں سے رخصت ہو گئی۔جب بھی وہ عورت اس لڑکی کو کہیں بھی ملتی تو سلام کرتی۔یوں اس لڑکی نےایک نہ ختم ہونے والی دولت اطمینان قلب کے ساتھ ایک انسان کی محبت وخلوق کو پایا۔رب جو اپنے بندوں سے ایک ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے،انسان اس کے بندوں کوبغیر کسی لالچ کے دیتا ہےیا کسی بھی طرح سے ان کے کام آجاتا ہے تو وہ رب کا کس قدر منظور نظر بن جاتا ہے اس کا اندازہ آپ اس اصول کو اپنا کر ہی لگا سکتے ہیں۔انسان کے عمل اسی دنیا میں ہی اس کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ بعض اوقات جس شخص سے بھلائی کی جاتی ہے وہ بے پروائی کرتا ہے لیکن قدرت انسان سے بے پروائی نہیں برتتی وہ اپنے بندوں کو ہر وقت دیکھتی ہے ۔

میری ایک دوست جو بہت پرخلوص تھی اور اس اصول کو اپنائے ہوئے تھی کہ سب لوگوں کے ساتھ ان کی توقع سے ذیادہ مثبت سلوک کرنا چاہئے،اس کے پاس ایک پڑوس سے عورت آئی جو یہ شکائت لے کر آئی تھی کہ اس کے گھر اوپرسے گنداپانی آتا ہے ،وہ بہت غصہ میں تھی۔میری دوست نے پہلے تو تحمل سے اس کی بات سنی پر آرام سے اس کی بات کی تردید کرتے ہوئے دلائل دیے کہ ہو سکتا ہے اوپر مزید فلور ہیں تو پانی وہاں سے کسی نے گرایا ہو ،جب شکائت کرنے والی عورت کا غصہ کم ہو گیا تو اس نے اسے بیٹھنے اور چائے پینے کی آفر کی ۔ وہ عورت جو کچھ دیر پہلے چیخ رہی تھی یک دم سوچ میں پڑھ گئی اور کچھ دیر کے لیے بیٹھ گئی ،چائے کے دوران اس نے بہت افسردہ انداز میں کہا کہ لوگ آج کل ایسے ملنسارنہیں رہے ،کیا آپ ہر ایک کو اسی طرح چائے کے لیے پوچھتی اوربٹھاتی ہیں تو میری دوست نے مسکرا کر تائیدکی ۔ اس عورت نے پوچھا آپ اگر کسی کے گھر اس طرح کام سے جائیں تو کیا کوئی چاہے کا یا بیٹھنے کا کہتا ہے۔میری دوست نے جواب میں تردید کرتے ہوئے کہایہ تو دوسرے کا مسلہ ہے کہ وہ کیا کرتا ہے ،میں تو وہ کرتی ہوں جو مجھے پسند ہے تو اس نے کہا میں تو آپ کو مشورہ دوں گی کہ آپ ایسا نہ کیا کریں ،یہاں کے لوگ بہت خود غرض ہیں ،بھلائی کرنے والے کو بے وقوف سمجھتے ہیں ،دوسری دفعہ سامنے آجائیں تو بات بھی نہیں کرتے ۔ وہ عورت ایسے سمجھارہی تھی جیسے کوئی بڑا کسی اپنے کو سمجھاتا ہے۔میری دوست مسکرائی اور بولی ،عادت بدلنا بہت مشکل ہے۔کچھ دیر کی بات چیت کے بعد وہ چلی گئی ،لیکن پھر جب بھی میری دوست سے اس کا سامنا ہوا نہ صرف رُک کر وہ اس کا حال پوچھتی ہے۔بلکہ اس کی نظروں میں اظہار تشکر بھی ہوتا ہے ۔میری اُسی دوست نے بتایا کہ اس کے پڑوس میں نئے لوگ آئے تو اس نے اچھا پڑوسی ہونے کے ناتے ان سے کہا کہ آپ کو کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو ضرور یاد کریں۔ انہوں نے شکریہ کہا اور بتایا کہ وہ دوسرے شہر سے یہاں آکر آباد ہو رہے ہیں لہذا وہ اپنے لباس اور چند ضروت کی اشیا لائے ہیں باقی سب یہاں ہی سے خریدیں گئے۔میری دوست نے واپس آکر ان کے لیے اچھی سی چائے اور پکوڑے بنائے اور اُنہں دے کر آئی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ لوگ کیسے ہیں ،اس کی بھلائی کا کوئی صلہ بھی دیں گئے یا نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے یہ سوچا کہ یہ لوگ کھانا کیسے گھر میں بنائیں گئے جبکہ ان کے پاس تو کچن کا سامان نہیں لہذا اس نے رات کا کھانا ان کے لیے جو بھی گھر میں بنا تھا ساتھ میں روٹی بنا کر دے آئی ۔نئی بڑوسن اس کے رویے سے متاثر ہوئی اور جیسے کوئی اپنوں سے حق کے ساتھ مانگتا ہے صبح کا ناشتہ مانگ لیا۔

میری دوست نے انہیں صبح کا ناشتہ دے دیا۔بعد میں پتہ چلا کہ وہ بہت امیر فیملی ہے ،وہ لوگ اُسےبہت اپنا سمجھنے لگے ۔اس فیملی کا سربراہ دوسرے ممالک میں چیزوں کی فروخت کی کرتا تھے ،وہ لوگ جب بھی کسی نئے ملک یا نئے شہر سے ہو کر آتے تو جس طرح اپنے بہن بھائیوں کے لیے تحفے لاتے ،میری اس دوست کےلیے بھی لاتےاور اس کی گئی بھلائی پر اس کی ستائش بھی کرتے۔انسان کبھی کسی کے ساتھ جو بھلائی کرتا ہے خاص کر ایسی بھلائی جس کی امید اگلے انسان کو نہیں ہوتی اس کا صلہ قدرت خاص طریقے سے عطا کرتی ہے ۔ بعض اوقات تو صلہ فوراً مل جاتا ہے اور بعض دفعہ کچھ عرصہ بعد کسی دوسرے وسیلے سے ملتا ہے لیکن اس اصول میں شرط یہ ہے کہ جب آپ توقع سے ذیادہ دیں تو آپ کا عمل کسی قسم کی لالچ پر مبنی نہیں ہونا چاہئے۔اگر آپ کی نیت کچھ حاصل کرنے کی ہو گی تو نہ ملنے پر آپ اپنی اس خوبی کو زندہ نہیں رکھ پائیں گئےجو آپ کی دنیا و آخرت سنوار سکتی ہے۔

معاشرتی معملات کے علاوہ معاشی لحاظ سے بھی اگر آپ دوسرے انسان کو خریدے گئے مال سے کچھ ذیادہ دیتے ہیں تو لازم ہے کے وہ دوبارہ آپ ہی کے پاس خریداری کے لیے آئے گا۔جو لوگ ذیادہ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ،قدرت ان کو ہی ذیادہ عطا کرتی ہے۔آدھے دن کا کام کر کے آپ پورے دن کی مزدوری ذیادہ دن حاصل نہیں کر سکتے جبکہ وہی مزدور مالک کے منظور نظر بنتے ہیں جو پورے دن کی مزدوری کے عوض پورے دن کے کام کے ساتھ کچھ ذیادہ کام بھی کرنے والے ہوں۔قدرت انہی کو ذیادہ عطا کرتی ہے جو ذیادہ عطا کرنے کا فن جانتے ہیں۔آپ بھی اپنی ذات پر سوچنا شروع کریں کہ وہ کون کون سے موقع تھے جہاں آپ نے توقع سے ذیادہ دوسروں کو دیا ،آپ اس اصول کو کیسے اپنی عادت بنا سکتے ہیں۔
 
kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281232 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More