آہ کس قدر مشکل ہوتا ہے ، آنسوؤں سے دکھ کی داستان لکھنا

ذرا سوچنا تم بھی ۔
سولہ دسمبر کی صبح ،ہر صبح کے جیسی ہی تو تھی ،نہیں مگر کون جانتا تھا کہ وہ صبح معمول کے دنوں جیسی تو نہ تھی کہ جو پھر کبھی نہیں آنی تھی ،کہ جب ماؤں نے اپنے ہاتھوں سے انہیں تیار کیا تھا جو ان کی آنکھوں کا نور تھے ،اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروا کر ڈھیروں دعاؤں میں رخصت کیا ،اور ہمیشہ کی طرح انھیں دور تک اپنی نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھتی رہیں ۔روشن آنکھوں اور پر عزم چہرے لئے مٹھی میں جذبوں ،امنگوں اور خواہشوں کے جگنوں تھامے یہ بچے جو ماں باپ کے دل کا سکون اور آنکھوں کا نور تھے ،انھیں کیا معلوم تھا کہ آج وہ اپنے لخت جگر کے جیتے جاگتے وجودکا آخری دیدار کر رہی ہیں کہ پھر نہ یہ وجو د رہے گا نہ یہ روز کا معمول ،کہ اگر ان بد نصیب ماؤ ں کو یہ معلوم ہو جاتا اور اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ ان جاتے اک اک پل ،اک اک لمحے اور گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئیوں کو ہمیشہ کے لئے ساکن کر دیتی کہ وہ گھڑی جو کہ کچھ ساعتوں کے بعد کسی قیامت صغریٰ کی طرح نازل ہونے والی تھی ،اور وہ خبر جو ان کے خوشیوں بھرے آنگن کو ہمیشہ کے لئے سونا کر دینے والی تھی ،آہ کے ماؤ ں کے بس میں ہوتا کہ وہ آنے والے وہ اذیت ناک لمحوں کو روک لیتی کہ کس دل سے انہوں نے اس روح فرسا خبر کو اپنے کانوں سے سنا ہوگا اور اپنی بے بس سی آنکھوں سے اپنے چمن کے پھولوں کو لہو لہو دیکھا ہوگا اور وہ سفاک قاتل جنہوں نے ان کے گلشن کے پھولوں کو بے دردی سے توڑ ڈالا صرف اپنے انتقام کی آگ کا نشانہ بنانے کے لئے ،وہ معصوم بچے جنہوں نے ابھی زندگی کی کچھ بہاریں دیکھی تھی اور جن کی آنکھوں میں مستقبل کے کئی سہانے خواب تھے ۔افسوس ان سفاک بھیڑیوں کی سوچ پر ،اور ان کی چھوٹی ذہنیت پر ہے جو خود کو دین اسلام کا پیروکار کہلواتے ہیں مگر وہ تو مسلمان کہلائے جانے کے بھی لائق نہیں،بلکہ دشمن کہلانے کے بھی لائق نہیں کیونکہ دشمن بھی اتنے بزدل یا چھوٹی سوچ نہیں رکھتے کے معصوم بچوں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنائیں ۔ایسے سفاک قاتل تو انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ،کیونکہ انسانیت کے قاتل یہ لوگ بھیڑیے تو کہلائے جا سکتے ہیں مگر انسان نہیں کہ جنہوں نے ۱۳۲ معصوم بچوں سمیت ،اور کچھ عملے کے افراد کو ملا کر ۱۴۶ بے گناہ انسانوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا یا اور اس بے دردی سے شہید کیا کے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔کیا انہیں دین یہی سکھاتا ہے ،کہ معصوم اور بے گناہ شہریوں کی جانیں لی جائیں ؟کیا وہ اسی نبیﷺکے امتی ہیں کے جنہوں نے کسی بے گناہ انسان کی جان لینے کو گناہ کبیرہ فرمایا ۔کیا ہمارا دین اور قرآن یہی سکھاتا ہے ؟ نجانے وہ کس دین کے پیروکار تھے ؟اور کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے ؟ بحر حال وقت کو تو گزرنا تھا اور وقت پر لگا کر اڑتا گیا ،دو سال بیت گئے مگر یوں لگتا ہے کہ جیسے ابھی کل ہی کی تو بات ہو۔مگر کوئی پوچھے ان ظالموں سے کہ تم نے کیا پایا ماؤں سے ان کا سب سے قیمتی اثاثہ چھین کر ؟ اس بہیمانہ قتل وغارت گری سے تمہیں دنیا اور آخرت کی کونسی بھلائی مل گئی اور رب کی کس جنت کے مستخق بن گئے ؟ دنیا تو اسی طرح چلتی رہے گی اور وقت کا پہیہ یوں ہی رواں رہے گا ،فقط ماؤ ں کے آنسو ان کی آنکھوں کو بے نور کرتے رہیں گے اور ان کی آہیں قیامت تک تمہارا پیچھا کرتی رہیں گی ۔ذرا سوچنا تم بھی ۔
Elina Malik
About the Author: Elina Malik Read More Articles by Elina Malik: 7 Articles with 11616 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.