بچوں سے پیار کیجئے

 16دسمبر 2014ء کے سانحہ پشاور کے تناظر میں

سب سے پہلے بچوں کے قتل کا گناہ اپنے سر لینے والا فرعون تھا ۔اﷲ تعالیٰ نے اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کردیا اوریہ تا قیامت تک عبرت کا نشان بنا رہے گا ۔۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ء کو پشاور آرمی پبلک سکول پر اسلامی لبادہ اوڑھے چند دہشت گردوں نے معصوم بچوں پر خود کش حملہ کر دیا ،جس سے ۱۳۳ کے تقریبا شہید اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہو گئے ۔بچوں پر ظلم و ستم کے واقعات پہلے بھی کوئی کم نہیں تھے ۔مگر داستان ظلم میں اک اور اضافہ ہو گیا ننھے پھولوں اور کلیوں کو مسل کر نہ جانے یہ کون سی انسانیت کی معراج پار کرنا چاہتے ہیں آج کے خطبہ میں ہم بچوں کے قتل میں اسلامی نقطہ نظر اوربچوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جائے پر بات کریں گے۔

اسلام جنگ میں بھی بچوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتاذرادیکھیں غزوہ حنین میں ایک بچہ قتل ہو گیا ،رسول اﷲ ؐکو خبر ملی تو آپؐنے فرمایا:تم ن بچے کو کیوں قتل کیا ؟تو صحابہ ؓنے کہا کہ وہ تو مشرکین میں سے تھا انہی کا بچہ تھا تو آپؐنے فرمایا:’’کیا یہ حقیقت نہیں کہ تم میں سے جو آج بہتر لوگ بنے ہوئے ہیں وہ مشرکوں ہی کی اولادیں ہیں ؟پھر مزید فرمایا:’’مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،جو بھی جان جنم لیتی ہے وہ فطرت میری پیدا ہوتی ہے او ر وہ اپنی فطرت (اسلام)پر ہی رہتی ہے جب تک کہ اس بچے کی زبان وہ کچھ بیان نہ کرنے لگے جو اس کے دل میں ہے ۔‘‘صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ: ’’ رسول اﷲ ؐنے عورتوں اوبچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے ۔‘‘ابو داود شریف میں حدیث ہے سیدنارباح بن ربیع سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ؐنے فرمایا: ’’ بچوں اور مزدوروں کو قتل نہ کرو۔‘‘بچے خواہ مسلمان کے ہوں یا کافر کے کسی کو بھی تکلیف دینا ،ناحق قتل کرنا درست نہیں بلکہ کافروں کے بچے تو جتنی خادم ہوں گے‘حضرت انسؓ ((یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ))(الدھر:۱۹)کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مشرکین کے بچے جو بچپن میں دنیا سے چلے گے :وہ جنتی لوگوں کے خادم ہوں گے ۔‘‘ اور مسلمانوں کے بچے جو بچپن میں فوت ہو گے یا شہید ہو گئے یا کسی ظلم و ستم کا نشانہ بن کر جان دے بیٹھے سب کے سب اﷲ کی جنت کے مہمان اور ابراھیم انکے کھیل ہونگے ۔ابو ہریرہ ؓکہتے ہیں رسول اﷲؐنے فرمایا:’’جنت میں مسلمانوں کے بچوں کی کفالت ابراھیم ؑ فرماتے ہیں ۔‘‘(مسند احمد)

بچے خودبھی جنتی اور والدین کے لیے بھی جنت کا سبب بنیں گے جیسا کہ ابو داود شریف میں نبی کریم ؐنے فرمایا:نبی بھی جنتی ہے ‘شہید بھی جنتی ہے ،نومولود بھی جنتی ہے اورزندہ درگور ہونے والا بچہ بھی جنتی ہے ۔ ایک آدمی اپنے بچے کے ساتھ رسول اﷲ ؐکے پاس آیا آپ ؐنے فرمایا:کیا اس بچے سے محبت کرتے ہو ؟اس نے کہا جی ہاں ۔کچھ دن گزرے آپؐنے اس آدمی کے متعلق دریافت فرمایا ،کہ وہ کئی دنوں سے غیر حاضر ہے تو صحابہ ؓنے بتایا کہ اس کا بچہ فوت ہو چکا ہے ۔تو رسول اﷲ ؐنے اسے بلا کر فرمایا ـ’’کیا تو اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ جس تو جنت کے دروازے پر کل قیامت کے دن آئے گاتو تو اسے اپنے انتظار میں وہاں پائے گا ۔‘‘ایک صحابی نے اٹھ کر کہا اے اﷲ کے رسول ؐ!کیا یہ صرف اسی کے لیے خاص ہے یا ہم سب کے لیے ہے ۔ـ‘‘تو آپؐنے فرمایا:’’یہ تم سب کے لیے ہے ۔‘‘(مسند احمد )ایک روایت میں ہے کہ آپ ؐنے فرمایا :یہ بچہ جب تو جنت کے دروازے پر آئے گا تو :’’اور دوڑ کر تیرے لیے دروازہ کھولے گا ۔‘‘ (مسند علی بن جعد)سنن نسائی کی حدیث میں ہے کہ جب یہ بچے جو بچپن میں دنیا سے چلے گے اور ان کے والدین نے صبر کادامن تھا م کر رکھا انہیں اﷲ تعالیٰ کی جنت میں جانے کا کیاجاہے گا تو یہ بچے کہیں گے ابھی ہم کیسے جنت میں چلے جائیں ابھی تک ہمارے والدین تو آئے نہیں پھر ان کے والدین کو لا یا جائے گا اور اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے ’’جاؤ تم بھی جنت میں جاؤ اور تمہارے والدین بھی جنت میں جائیں ۔‘‘

اسلام پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعد ہر وقت ہر موڈ پر بچوں کی فکر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔صحیح مسلم میں ہے حضرت جذامہ بنت وہب ؓکہتی ہیں میں نبی کریم ؐکے پاس حاضر ہوئی آپ ؐلوگوں کے درمیان موجود فرما رہے تھے ۔’’میں نے چاہا کہ جس کی بیوی حاملہ (پیٹ سے )ہو یا بچے کو دودھ پلاتی پہو تو اس کے خاوند کو خصوصی تعلق سے روک دوں (تاکہ بچے کو تکلیف نہ ہو )پھر میں رومیوں اور فارسی لوگوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہو ا کہ وہ ایسے حالات میں تعلق قائم رکھتے ہیں اس طرح بچوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا (تو میں نے منع نہیں کیا )صحیح ابن خزیمہ میں ہے‘ بچے دنیا میں آئیں تو سب سے پہلی ذمہ داری ماں پر یہ ہے کہ اس بچے کو اپنا دودھ پلائے اگر ماں بغیر عذر کے اپنا دودھ نہیں پلاتی تو اﷲ ناراض ہوتا ہے بلکہ رحمت دو عالم ؐجو بچوں کے شفیق باپ ہیں فرماتے ہیں ۔میں ایک دن سویا ہو ا تھا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے (جبرائیل و میکائیل )اور وہ مجھے مختلف مناظر دیکھانے کے لیے لے گئے میں نے وہاں چند عورتوں کو دیکھا جن کی چھاتیو ں کو سانپ ڈس رہے ہیں میں نے دریافت کیا یہ کون سی عورتیں ہیں ان کا جرم کیا ہے تو انہوں نے فرمایا :’’یہ وہ عورتیں ہیں جو د(اپنا دودھ بغیر عذر کے )اپنے بچوں کو نہیں پلاتی تھیں۔‘‘ کہتے ہیں بکری کا دودھ ہلکا اور پروٹین سے بھرا ہوتا ہے اگر ماں کا دودھ کسی عذر سے بچے کے موافق نہ آئے تو بکری کا دودھ پلاؤْ۔شاید اسی وجہ سے آپؐہمیشہ جانور ذبح کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنے کا حکم دیتے کہ کہیں دودھ والی بکری ذبخ نہ کرنا ہو سکتا اس طرح میں کوئی بچہ ہو جو ا س کا دودھ پیتا ہو ۔

بلکہ آپ ؐجب بھی کسی کو زکوۃ کی وصولی کے لیے بھیجتے تو فرماتے دودھ والی بکری وصول نہ کرنا ۔حضرت سعدؓہیں کہ ایک دفعہ میرے پاس اﷲ کے رسول ؐکی زکوۃ وصول کرنے والے آئے تو میں نے پوچھا میری زکوۃ کتنی ہے تو انہوں نے بتایا کہ ایک بکری ،میں نے تھنوں سے بھری اور موٹی تازی دودھ والی بکری لا کر پیش کر دی تو انہوں نے فرمایا :’’ہمیں رسول اﷲ ؐنے بچے دینے والی بکری وصول کرنے سے منع فرمایا ہے ۔‘‘(مسند احمد)کیونکہ چند دن بعد یہ بچہ جنم دے گی اور دودھ والی ہو جائے گی ۔

بچہ کسی کا بھی ہو اور کیسا بھی ہو ۔۔! اسلام نے ہر بچے کا احترام کیا ہے اگر چہ وہ ناجائز طریقے سے ہی کیوں نہ دنیا میں آیا ہو۔غامد قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتوں نے زنا کیا اور آکر کہنے لگی’’اے اﷲ کے رسول ؐمجھے پاک کیجئے ‘‘’’جاؤ اور اس بچے کو دودھ پلاؤ جب دودھ پینا چھوڑ دے تو آنا۔‘‘پھر وہ دودھ چھڑا کر بچے کو ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھما کر آئی اور کہنے لگی ۔ ’’یہ بچہ ہے اے اﷲ کے رسول ؐ!میں نے اس کا دودھ چھڑا دیاہے او ر اب یہ کھانا کھاتا ہے ‘‘آپ ؐ نے اس سے وہ بچہ لے کر اسے رجم کر دیا ۔ایک دوسری روایت میں وضاحت اسطرح ہے:پھر غامدیہ عورت آئی اس نے عرض کیا اے اﷲ کے رسولؐ ! میں نے زنا کیا پس آپ ؐ نے مجھے پاک کردیں آپ نے اسیواپس کردیا جب اگلی صبح ہوئی تو اسے نے کہا اے اﷲ کے رسول آپ ؐ مجھے کیوں واپس کرتے ہیں شاید کہ آپ ؐ مجھے اسی طرح واپس کرتے ہیں جیسا کہ آپ نے ماعز کو واپس کیا اﷲ کی قسم میں تو البتہ حاملہ ہوں آپؐنے فرمایا اچھا اگر تو واپس نہیں جانا چاہتی تو جا یہاں تک کہ بچہ جن لے۔ جب اس نے بچہ جن لیا تو وہ بچہ کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر لے آئی اور عرض کیا یہ میں نے بچہ جن دیا ہے آپ نے فرمایا جا اور اسے دودھ پلا یہاں تک کہ یہ کھانے کے قابل ہوجائے یعنی دودھ چھڑا دے پس جب اس نے اس کا دودھ چھڑایا تو وہ بچہ لے کر حاضر ہوئی اس حال میں کہ بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا اور عرض کی اے اﷲ کے نبی میں نے اس کو دودھ چھڑا دیا ہے اور یہ کھانا کھاتا ہے آپ ؐ نے وہ بچہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی انصاری کے سپرد کیا پھر حکم دیا تو اس کے سینے تک گڑھا کھودا گیا اور لوگوں کو حکم دیا تو انہوں نے اسے سنگسار کر دیا۔’’پس خالد بنی ولیدؓ متوجہ ہوئے اور اس کے سر پر ایک پتھر مارا تو خون کی دھار خالدؓکے چہرے پر آپڑی اور انہوں نے اسے برا بھلا کہا اﷲ کے نبی ؐنے ان کی اس بری بات کو سنا تو روکتے ہوئے فرمایا اے خالد اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تحقیق اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز ٹیکس وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اسے معاف کردیا جاتا پھر آپ ؐنے حکم دیا اور اس کا جنازہ ادا کیا گیا اور دفن کیا گیا‘‘ (صحیح مسلم)

ہلال بن امیہؓتبوک سے پیچھے رہنے والے صحابی اﷲ نے انکی تعریف اور توبہ میں قرآن نازل کیا ،ایک رات گھر آئے تو شریک بن سحاء وکو اپنی بیوی کے پاس پایا ،نبی کریم ؐکو خبر دی تو بیوی نے انکار کر دیا ۔ہلال بن امیہ ؓپریشان ہو گئے اﷲ نے قرآن میں لعان کا مسئلہ نازل کر دیا کہ عورت اور مرد دونوں سے پانچ پانچ مرتبہ قسمیں لے کر جدائی کرا دی جائے ،ایسے ہی ہوا ۔پھر آپ ؐنے فرمایا اگر اس عورت نے بچہ جنم دیا اور بچہ اس طرح کا ہو ا تو ہلال بن امیہ کا ہے اور اگر ایسا ہوا تو شریک بن سحاء کا ہے ۔بچے کی پیدائش کے بعد معاملہ کھل گیا بچہ شریک بن سحاء پر گیا تھا ۔آپ ؐنے جدائی کے وقت ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ یہ بچہ ہلال بن امیہ کی طرف منسوب نہیں ہو گا اور نہ ہی عورت کا کوئی اس سے رشتہ باقی ہے معاملہ اسلامی قانون کے متعلق حل کر دیا گیا مگر اس بچے پر کل کوئی آواز نہ اٹھائے ایک اور قانون مرتب کر دیا فرمایا: ’’اور اب جس شخص نے اس عورت پر کوئی تہمت لگائی یا اس کے بچے پر کوئی آواز کسی توا سے حد لگائی جائے گی ۔‘‘یعنی بہتان کی ۸۰ کوڑے حد لگے گی ۔(بخاری)گویا اسلام نے اس بچے کا بھی احترام کیا جو ناجائز طریقے سے آیا کہ اگر کسی نے اس بچے کو تنگ کرنے اور رسوا کرنے کے لیے تہمت لگائی تواسے اسّی کوڑے لگائے جائیں گے ۔مسند احمد میں روایت ہے کہ پھر یہ بچہ: ’’یہ بعد میں بڑا ہو کر مصر کا گورنر بناتھا‘‘ (مسند احمد)بچوں کے ایمان کی فکر بھی کرو‘ابو داود شریف میں ہے کہ حضرت رافع بن سنان ؓکہتے ہیں کہ وہ خود مسلمان ہو گئے اور انکی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تو نبی ؐنے ماں کوایک طرف اور باپ کو دوسری طرف بیٹھایا اور بچے کو دونوں کے درمیان بٹھا دیا تو بچہ ماں کی جانب مائل ہوا یہ دیکھ کر رسول اﷲ ؐنے خود دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اے مالک اسے صحیح چیز کی طرف ہدایت دے ۔اے اﷲ ! اسے ہدایت دے ‘‘تو اس بچہ نے اپنا منہ باپ کی طرف کر لیا اور باپ کے پاس آگیا اور باپ نے اسے پکڑ لیا ۔صحیح بخاری میں ہے سیدناانس بن مالکؓنے بیان کیا کہ:’’ ایک یہودی لڑکا نبی کریم ؐ کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپؐاس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ (کیا مضائقہ ہے) ابوالقاسمؐ جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب آپ ؐ باہر نکلے تو آپ ؐنے فرمایا کہ شکر ہے اﷲ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔‘‘بدر کے قیدی جن کے پاس دینے کے لیے فدیہ نہیں تھا سیدنا عباس ؓکہتے ہیں کہ ان کا فدیہ یہ مقرر کیا گیا کہ وہ انصار مدینہ کے بچوں کو لکھنا پـڑھنا سکھلا دیں اوررہا جائیں ۔ صحیح بخاری میں ہے سیدنا عباس ؓکہتے ہیں کہ رسول اﷲ نے میرے بچے عبداﷲ کو اپنے سینے سے لگا یا او ر اس کے علم میں اضافے کی دعا کی ‘اے اﷲ اسے (بچے )کو کتاب (قرآن )کا علم سکھا ۔

بچوں سے آپ ؐبہت شفقت کرتے تھے‘ ویسے تو آپ ؐکسی کائنات اور ساری مخلوقات کے لیے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں مگر بچوں سے آپکا خاص لگاؤ تھا ،حضرت ابو ہریرہ ؓفرماتے ہیں مدینہ میں جب کھجوروں کا پھل پک جاتا توا ولین پھل رسول اﷲ ؐکے پاس لے کر آتے اور آپؐاسے سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اوریہ پھل دے دیتے ۔بچوں کوآپؐ تحائف دیتے مثلاحضرت عائشہؓابیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ ؐکے پاس موتیوں کاایک ہارتحفے میں آیاآپ نے فرمایا:’’میں یہ ہاراپنے اہل بیت میں سے اسے دوں گاجومجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ توازواج مطہرات کہنے لگیں کہ یہ توابوقحافہ کی بیٹی کوملے گا’’آپؐنے وہ ہارامامہ بنت زینب بن رسول اﷲؐکے گلے میں ڈال دیا‘‘ (مسنداحمد) ابو داود شریف میں ہے حضرت انس ؓکہتے ہیں میں نے دس سال آپ ؐکی خدمت کی آپ ؐنے کھبی مجھے اُف تک نہیں کہا آپ ؐپیار سے مجھے کبھی کہتے: ((یَا ذَالْاُذُنَیْنِ))’’او !دو کانوں والے (ادھر آ!) اور کبھی آپ انسؓ کوکہتے :((یَا بُنَیَّ ))’’اے میرے پیارے بیٹے !‘‘اور کبھی کہتے :’’اے اُنیس ! جہاں بھیجا تھا وہاں جاؤ نا ۔

مسند احمد میں ہے حضرت ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک بار ہم نماز عشاء پڑھ رہے تھے سیدنا حسن و حسین ؓآکر آپ کے ساتھ لپٹنے لگے ساری نماز ایسے ہی گزر گئی کہ وہ آپ کے اور اوپر کمر پر سجدے میں آجاتے آپ ؐاٹھتے تو ہاتھ سے پکڑ کر نیچے کر دیتے نماز کے بعد میں اٹھا اور کہا اے اﷲ کے رسول ؐ! اگر آپ کہیں تو میں انہیں گھر چھوڑ آؤں ،اتنے میں بجلی چمکی اور ساتھ ہی آپ ؐنے فرمایا :’’انہیں ان کی ماں کے پاس چھوڑ آؤ‘‘’’جب تک وہ دونوں گھر نہیں داخل ہو گے بجلی کی روشنی مسلسل ٹھہر رہی ‘‘حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم ؐگھر سے باہر تشریف لائیں تو آپ کے ساتھ حضرات حسنین tبھی تھے ایک کندھے پر ایک اور دوسرے کندھے پر دوسرے تھے۔ ’’نبی کریم ؐکبھی ایک کو بوسہ دیتے اور کبھی دوسرے کو اسی طرح چلتے ہوئے نبی کریم t ہمارے قریب آ گئے ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اﷲؐ آپ ان دونوں سے بڑی محبت کرتے ہیں نبی کریم ؐنے فرمایا جو ان دونوں سے محبت کرتا ہے گویا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے۔ ‘‘ ابن ماجہ میں ہے ایک دفعہ ام فضل لبابہ اآپکی چچی ،عباس ؓکی بیوی حسین ؓکو لے کر رسو ل اﷲ ؐکے پاس آئی اسے رسول اﷲ ؐکے گھر میں بیٹھا دیا تو حسین ؓنے آپ کی گود میں پیشاب کر دیا ،ام فضل نے اس پر بچے کے کندگے پر ہلکی سی چیت لگائی ،رسول اﷲؐفرمانے لگے :’’اﷲ تجھ پر رحم فرمائے تو نے میرے بیٹے کو تکلیف دی ۔‘‘آپ ؐصرف اپنے ہی بچوں سے نہیں بلکہ ہر ایک بچے سے محبت اور شفقت کرتے جیسا کہ خود اسامہ بن زید ؓکہتے ہیں کہ رسول اﷲؐمجھے اور حسن کو پکڑ لیتے بوسہ دیتے اپنی رانوں پر بٹھاتے اور پیار کرتے اور دعا کرتے :’’اے اﷲ ! ان دونوں سے محبت فرما میں بھی ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ۔اے اﷲ ! ان دونوں پر نرمی فرما میں بھی ان پر بڑا شفیق ہوں ۔دیکھو تو سہی جناب محمد ؐکا پیار ایک ران پر جنت کا سردار نواسہ قریشی خاندان کا شہزادہ بٹھا ہے تو دوسری ران پر ایک غلام زید کا بیٹا اسامہ بیٹھا ہے ۔ حضرت عبداﷲ، جعفر طیار شہید ؓکا بیٹا وہ کہتے ہیں میں چھوٹا بچہ تھا ایک دفعہ میں اور مجھے صحیح یا د نہیں میرے ساتھ حسن تھا یا حسین ہم مدینہ سے باہر نکلے رسول اﷲ ؐکسی سفر سے واپسی آرہے تھے آپ ؐنے ہمیں اٹھایا اور ایک کو آگے اور دوسرے کو سواری کے پیچھے بیٹھا لیا ۔ مسنداحمد میں ہیحضرت عبداﷲ ؓجو آپ کے چچا عباس کے بیٹے ہیں ۔مفسر قرآن ہیں آپ ان سے بڑا پیار کرتے ان کے لیے کئی بار دعا فرمائی ۔سیدنا عبداﷲ بن حارث ؓبتلاتے ہیں کہ رسول اﷲؐعباس ؓکے بچوں عبداﷲ ،عبیداﷲ اور کثیر ؓکو ایک لائن میں کھڑے کر لیتے اور دوڑ کا مقابلہ کرواتے اور فرماتے جو میرے پاس پہلے آئے گا میں اسے انعام دوں گا ۔چنانچہ سب دوڑے اور پھر آکر آپؐپر گرتے کوئی آپ ؐکی کمر پر تو کوئی آپ ؐکے سینے پر ،آپ ؐانہیں چومتے اور ساتھ چمٹا لیتے ۔

بچے بیمار ہوتے تو آپ ؐانہیں دم کرتے ‘ مسنداحمد میں ہیحضرت یعلی بن مرّہؓکہتے ہیں ایک بار میں نبی کریم ؐکے ساتھ سفر پہ تھا راستے میں ایک عورت بیٹھی ملی وہ اپنا بچہ اٹھائے ہوئے تھی کہنے لگی اے اﷲ کے رسول ؐ!اس بچہ کو کوئی بلا ہے جو اسے پریشان کرتی ہے آپ ؐنے بچہ پکڑا اور سامنے بٹھا لیا اور پھر تین مرتبہ اپنا لعاب اس کے منہ میں ڈالا اور فرمایا :’’اﷲ کے نام کے ساتھ میں اﷲ کا بندہ ہوں اے اﷲ کے ذلیل دشمن نکل جا ‘‘پھر آپ ؐنے وہ بچہ اس عورت کے حوالے کر دیا اور فرمایا :جب ہم واپسی ادھر سے گزریں تو پھر اسے لانا ،واپسی پر پھر اسی جگہ وہ عورت ملی آپ ؐنے اس سے دریافت کیا ’’کیا بنا تیرے بچے کا ‘‘تو اس عورت نے کہا :’’قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ؐکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا :ہم نے ابھی تک اس بچے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کی ۔‘‘اس عورت نے آپ ؐکے لیے تین بکریاں پیش کیں ۔آپ ؐنے ایک ساتھی کو حکم دیا کہ سواری سے نیچے اترو اور صرف ایک بکری رکھ لو ،دو واپس کر دو ۔
مسنداحمد میں ہی ہیسیدہ ام جمیل ؓاپنے بیٹے محمدبن حاطب کو کہتی ہیں کہ بیٹا میں تمہیں جفہ سے لے کر واپس آرہی تھی مدینہ کے قریب ایک دو راتوں کا سفر باقی تھا کہ قافلے نے پڑاؤ کیا میں نے تمہارے لیے وہاں کھانا پکانا شروع کیا آگ جلائی ،تمیں پاس بٹھا کر لکڑیاں لینے چلی گئی تم نے ہانڈیا سے چھیڑ چھاڑ کی تو وہ تمہارے ہی بازو پر آگری ۔جس سے تیرا بازو جل گیا ،میں مدینے پہنچی تو آپ ؐکے پاس لے کر گئی اور عرض کیا یہ محمد بن حاطب ہے تب رسول اﷲؐنے اپنا لعاب مبارک تیرے منہ میں ڈالا اور تیرے سر پر ہاتھ پھیرا اوردعا کی ۔آپ ؐلعاب بھری پھونک تیرے بازو پر ماررہے تھے اور یہ دعا کر رہے تھے ۔’’اے لوگو ں کے پروردگا ر ! تکلیف دور فرما اور شفا عطا فرما ،توہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں ،ایسی صحت عطا فرما جو بیماری کا نام و نشان مٹا دے ‘‘ام جمیل کہتی ہیں کہ :’’میں رسول اﷲ ؐکے پاس سے تجھے لے کر ابھی اٹھی ہی تھی کہ تیرا ہاتھ بالکل تندرست ہو گیا ۔‘‘ بچوں سے محبت اور انکی تربیت ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں سے محبت کریں انکی تربیت کریں ، مسنداحمد میں ہیحضرت عمر بن سعید ؓکہتے ہیں ۔رسول اﷲ ؐنے فرمایا :’’کسی باپ نے اپنے بچوں کو خوبصورت ادب سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں دیا ۔‘‘ایک روایت ہے آپ ؐنے فرمایا :’’کچھ لوگوں سے اﷲ سخت ناراض ہے اتنا ناراض کہ:ان سے کلام تک نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کو روز قیامت گناہوں سے پاک کرے گا اور نہ ہی انکی طرف دیکھے گا ۔صحابہ کرام ؓنے دریافت کیا وہ کون بد نصیب ہیں تو آپ ؐنے فرمایا :’’وہ والدین ہیں جو اپنی اولاد سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔‘‘
Azeem Hasalpuri
About the Author: Azeem Hasalpuri Read More Articles by Azeem Hasalpuri: 29 Articles with 41497 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.