آج مسلمان ہی ظلم کا شکار آخر کیوں؟
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
ہر طرف مسلمان کو ہی مظلوم ہونے کے
باوجود ظالم قرار دیا جارہا ہے ،مقتول بھی یہی ہے مگر قاتل بھی اسے ہی قرار
دیا جارہا ہے ،دہشت گردی کا شکار بھی مسلمان ہی ہے مگر دنیا اسے دنیا کا سب
سے بڑا دہشت گرد قرار دے رہی ہے ،کشمیر ،فلسطین ،عراق،سعودی عرب کے مسلمان
بدترین دہشت گردی کا شکار ہیں ،شام کی تازہ صورت حال پر ہر مسلمان رنجیدہ
دکھائی دے رہا ہے،احتجاج،جلسے ،جلوس منعقد کئے جا رہے ہیں ،سوشل میڈیا پر
بشار الاسد کے ظلم وبربریت،فسطائیت کو دکھا یا جارہا ہے جسنے اپنے باپ کے
ظلم کو بھی مات دے دی ہے،مقتول کٹے جسموں کے ساتھ بچوں ،بوڑھوں،عورتوں کی
تصاویر نے ہلچل مچا رکھی ہے مسلمان بکھرے ہوئے مسلم ممالک کے سربراہوں کو
شام کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کرر ہے ہیں ،مگر دنیا میں ایک پر اسرار ،مجرمانہ
خاموشی ہے، ایسے لگ رہا ہے جیسے انسانیت ختم ہو گئی ،مسلمان بھی اﷲ کے رسول
ﷺ کا فرمان عالی شان "مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے ایک حصے کو
تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے"کوپس پشت ڈال چکے ہیں ۔
دور حاضر کے اے مسلمانو! آپ نے کبھی یہ سوچنا گوارا کیا کہ ایسا کیوں ہو
رہا ہے ؟ہم اس ظلم وستم،بربریت کی چکی میں کیوں پس رہے ہیں ؟ہم پر یہ
امتحان ہے یا عذاب ؟ آئیے حقائق وواقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کرتے
ہیں ، یہ ظلم وستم،بربریت کی اصل وجہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے مرکز کو توڑ کر
منتشر ہو چکے ہیں اﷲ کا قرآن مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ ہر قسم کی فرقہ
پرستی،تقسیم کو چھوڑ کر ایک ہو جاؤ ،مگر مسلمان ہیں کہ فرقہ پرستی کابری
طرح شکار ہیں ،فرقوں کو گننا مشکل ہو گیا ہے فروعی اختلافات کو بنیادی
اختلافات قرار دے کر ایک دوسرے کو کافر تک کہا جا رہاہے ،اس کے ساتھ ہی
عالم کفر نے مسلمانوں کی مرکزیت کو ختم کرنے کیلئے ایک منظم سازش کے تحت
انھیں زمینی اعتبار سے بھی تقسیم کر دیا ہے یہ تقسیم اس قدر گہری ہے کہ
سرحدات کومقدس قرار دے کر مسلمانوں کو محدود اورنہتا کردیا گیا ۔جبکہ خود
کفر پوپ کی سربراہی میں ایک ہے ۔ سرحدات کے اس تقدس کو جب چاہتا ہے عالم
کفر پاؤں کی نوک سے ہواؤں میں اڑاتے ہوئے نیٹو بہادر کی سربراہی میں کسی
بھی مسلم ملک پرلشکر کشی کر دیتا ہے خون کی ندیاں بہا دی جاتی ہیں اگر ان
کا جھوٹ ثابت ہو جائے تو انھیں ایک دفعہ معافی مانگنے پر پاک باز قرار دے
دیا جاتا ہے ،کسی بھی جرم پرکوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہوتا ،ہم یہ سمجھتے
ہیں کہ مسلمانوں میں اس وقت صرف ایک ہی مہلک بیماری یا کمزوری ہے جو اسے
دیمک کی طرح کھائے جارہی ہے وہ ہے انتشار ، یاد رکھیئے موجودہ صورت حال
مسلمانوں پر اﷲ کی طرف سے بہت بڑا عذاب ہے امتحان ہر گز نہیں ۔ جب تک
انتشار ہے مسلمان اس عذاب کا شکار رہیں گے اور وحدت کی شکل میں نہیں آسکتے
،قرآن وسنت کو اگر ایمانداری سے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو مسلمانوں میں
وحدت کی شکل صرف اور صرف ایک ہے اسے خلافت کا نام دیا گیا ہے جسے آج عام
الفاظ میں اسلامی نظام کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔شرعی طور پر مسلمانوں کے ایک
ہونے کا طریقہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں مگر مسلمان نام نہاد U.N.O کے
چنگل سے نکلنا ہی نہیں چاہ رہے جب تک مسلمان U.N.O کی غلامی ترک کرکے شرعی
طریقۂ وحدت نہیں اپنائیں گے تو تب تک ان کو دہشت گرد،فسادی،ظالم کہا جاتا
رہے گا ۔
ارے عقل مندمسلمانو!غور تو کرو اگر کسی خاندان کا سربراہ دنیا سے چلا جائے
تو اس خاندان کے افراد خود کو لاوارث اور بے سہارا سمجھتے ہیں ،اگر کسی
مکان کی چھت گر جائے تو تمام گردوغبار ،بارش کا پانی اسمیں پڑتا ہے تو وہ
تھوڑے ہی عرصہ میں کھنڈر کا نقشہ پیش کرنا شروع کر دیتا ہے ،یہ خاندان اور
مکان اس لئے لاوارث ہو جاتے ہیں کہ ان کا کوئی سربراہ،مالی،خیال رکھنے والا
رکھوالا نہیں ہوتا ،بالکل یہی حالت اس وقت امت مسلمہ مرحومہ کی ہے ،اﷲ کے
حکم اور رسول عربی ﷺ کی سنت کی مطابق اس کا سربراہ ،امیر،خلیفہ ہی کوئی
نہیں جو ان کے دکھوں،غموں،مصیبتوں کا مداوا کرے اور ان کے زخموں پر مرہم
پٹی رکھے۔ ان پر ظلم وجبر کرنے والوں کو ان ہی کے انداز میں جواب دے کہ تم
کرہ ٔ ارض کے مسلمانوں پر ظلم کیوں ڈھا رہے ہو ؟اب تمہارے اس جرم کا جواب
مسلم دنیا کی واحد طاقتور آرمی دے گی ۔تب کسی کفریہ طاقت کو کسی مسلمان پر
ظلم کرنے کی جرات ٔ نہ رہے گی ۔ہم مسلمان ہیں کہ اپنی عزت وناموس ،خطوں کو
بچانے،ظلم سے نجات حاصل کرنے کی خاطر بھی ایسا نہیں کر رہے ،اس کی وجہ یہ
ہے کہ امیر مسلم خطے اسے اپنی ضرورت نہیں سمجھ رہے جبکہ غریب مسلم خطے مدد
کو پکار رہے ہیں ان کی مدد کوئی نہیں کر رہا ۔عدم وحدت کے باعث ایک وقت آنے
والا ہے امیر مسلم خطے بھی اسی حالت سے دوچار ہوجائیں گے اس لئے تما م مسلم
خطوں کے سربراہوں کو چاہیے کہ وہ اﷲ کا حکم پورا کرتے ہوئے شرعی وحدت قائم
کریں تاکہ مسلمان کفر کے ظلم و ستم،بربریت سے نجات حاصل کرکے امن وسکون کی
زندگی گزار سکیں ۔ |
|