بیٹا اٹھو ،صبح ہو گئی ہے۔جلدی اٹھو اور
سکول جانے کی تیاری کرو۔دیکھو اگر جلدی نہیں اٹھے تو سکول دیر سے پہنچو
گے۔آپ کی آنٹی کیا سوچے گی ۔دیکھو ان کا بیٹا تو تیاری کرکے سکول چلا بھی
گیا ہے۔آنٹی سوچے گی کہ ایان تو سست بچہ ہے۔سکول جانے کے لیے جلدی نہیں
اٹھتا تو بڑا ہو کر کیا کرے گا۔
جب تھوڑے سے بڑے ہو گئے تو بیٹا کس سے باتیں کر رہے ہوں۔ہم ان سے بہتر ہیں
۔یہ تو گھٹیا لوگ ہوتے ہیں۔دیکھو اس طرح غریبوں سے باتیں کرو گے تو ہماری
فیملی والے کیا کہیں گے ؟
جب نوجوانی میں پہنچے تو اس طرح کی باتیں سننے کو ملے گی کہ بھئی کیا ہر
وقت نماز،روزہ کی بات کرتے رہتے ہو،ہماری فیملی کیا سوچے گی کہ ہمارا فرزند
مولوی بنتا جا رہا ہے۔
یار اتنے بڑے ہو گئے ہو پھر بھی تم کو سمجھ نہیں آتی کہ آج کے دور میں
انصاف کی بات کرنا پاگل پن ہے۔کھاؤ پیو عیش کرو،اس طرح کی بات کرو گے تو
لوگ کیا سوچے گے کہ تم اتنی ہائی کلاس کی فیملی سے تعلق رکھتے ہوئے بھی
کتنی کنزریٹو (conservative)باتیں کرتے ہوں۔
بالکل اسی طرح کی باتیں سنتے سنتے ،لوگوں کا خیال کرتے کرتے ہماری زندگی
گزر جاتی ہے۔بس زندگی میں اسی بات کاڈر ہو تا ہے کہ سادہ لباس پہن لیا تو
لوگ کیا کہیں گے؟اگر کسی بے سہارا کی مدد کر دی تو تب لوگ کیا سوچیں گے؟ہاں
یار وہ آج کل اس کے آگے پیچھے پھرتا ہے۔بات اس کی ہوتی ہے ،بولتا یہ ہے
۔خیر نہیں ہے ضرور یہ کچھ نہ کچھ کرے گا۔ہمارا معاشرہ ہمیشہ اسی طرح کی سوچ
کا حامل ہے۔چاہے کوئی غلط کام کرے تب بھی تنقید ،اگر کوئی صحیح کام کرنا
چاہتا ہے تو اسے اس طرح کے طعنے دیے جاتے ہیں کہ یا ر تم بڑے آئے ملک و قوم
کے خیر خواہ۔باقی ساری دنیا مر گئی ہے جو تم نے دنیا کی اصلاح کا ٹھیکا لے
لیا ہے۔اپنی اوقات دیکھو اور اپنے کام دیکھو ۔
معاشرے میں جب ایک شخص کو اس طرح کی باتیں سننے کو ملیں جبکہ وہ اپنے
بھائیوں کی فلاح کے لیے،کسی غریب کی مدد کے لیے،کسی یتیم کے سر پر ہاتھ
رکھنے کا سوچتا ہے تو معاشرہ کی پھول نچھاور کرتی باتیں اس کی سوچ کو جڑ سے
ہی ختم کر ڈٖالتی ہیں۔وہ بھی سوچتا ہے یار میرے سے اچھے کھاتے پیتے لوگ
نہیں سوچتے تو میں کیوں سوچوں؟بالفرض اگر میں ایسا کرتا ہوں تو لوگ کیا
سوچے گے کہ اپنی تو اس کی پوری ہوتی نہیں بڑا آیا حاتم تائی۔
اس طرح معاشرے میں موجود ایسی شخصیت جو اپنے دل میں انسانیت کا درد رکھتی
ہے اور انسانیت کی فلاح کے لیے سوچتی ہے تو اسی معاشرے کی تنقید کی بدولت
ایسی شخصیت کی سوچ اپنی موت خود مر جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بس ایک فیصلہ کر لو،ازم کرو کہ ہم نے اگر معاشرے کی
فلاح کے لیے کام کرنا ہے تو کہنے دو لوگوں کو، سوچنے دو لوگوں ،جو سوچنا
ہے۔یہ زندگی ہمیں اللہ تعالی نے دی ہے اور قیامت کے دن ہم نے اپنی زندگی کے
حوالے سے اللہ رب العزت کو جواب دینا ہے۔قیامت کے دن اگر اللہ تعالی نے یہ
سوال کر لیا کہ زندگی تو میں نے تجھے عطا کی تھی لیکن تو صرف اسی وجہ سے
نیکی کرنے سے رک گیا کہ لوگ کیا کہے گے؟تو ہم اپنے مالک ِ حقیقی کو کیا
جواب دیں گے؟ |