جب کسی ملک کے اندر کسی تصویر کے دیکھنے
والوں کی تعداد زیادہ اور کسی تحریر کے پڑھنے والوں کی تعداد بمشکل ۱۰ تک
ہو (جس کا اندازہ لایکس سے لگایا جا سکتا ہے) تو وہاں مسا ئل اور اسکے حل
کو زیر بحث لانا دیوار کے سامنے لمبی تقریر کے مترادف ہے لیکن جب دل و دماغ
کو الفا ظ کا رفیق نہ بنایا جائے تو کسی مثبت نتائج و اثرات کو خواب ہی
تصور کیا جاتا ہے۔یہ تحریر تنقید کی تعریف کو ذہن میں رکھتے ہوئے تنقید
برائے اصلاح کی کوشش کو ضروری سمجھ کر الفاظ کو خیالات کا رنگ دینے کی ایک
کوشش ہے۔
کل مجھے میرے موبائل پر کورین زبان میں ایک پیغام موصول ہوا اور اور ترجمہ
کرنے پر معلوم ہوا کہ آج چونکہ گرمی کی شدت ۳۰ ڈگری سینٹی گریڈسے اوپر ہے
لہٰذا حکومت کی طرف سے ہدایات ہیں کہ تمام اداروں میں ائرکنڈیشن کو چالو
حالت میں رکھا جائے اور زیادہ دھوپ میں چلنے پھرنے سے پرہیز کیا جائے۔
کورین ساتھی کے ساتھ بحث لمبی ہونے پر ملک کے نا خداوؤں کی بات چھڑ گئی اور
مجھے بتایا گیا کہ یہاں صدر یا وزیر بننے کے لئے تعلیم کے کسی میدان میں
مہارت رکھنا لازمی ہے اور فوراٌ ہی مجھ سے پاکستان کے اندر صدارت اور وزارت
کی اہلیت کے بارے میں پوچھا گیا جس پر کائنات تخیل کے ایک کونے سے دوسرے
کونے تک چکر کاٹنے کے بعد میں نے موضوع کو بدلنا ہی مناسب سمجھا کیونکہ
پچھلے ایک دو دہائیوں سے چلتے جمہوری نظام کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ نئی
اہلیت کے سانچے کے مطابق کسی تعلیمی ادارے سے تعلیم یافتہ ہونا اتنا ضروری
نہیں جتنا کسی جیل سے حاصل شدہ تجربہ شمار کیا جاتا ہے اور کام آ سکتا
ہے۔اور جس کو جمہوریت کے لئے قربانی کا درجہ دیا جاتا ہے جن کی مثا لیں
ماضی قریب کے جمہوری نظام کے سربراہوں کی صورت میں پیش کی جا سکتی ہیں ۔
یہ تو صرف ایک مثال قلم بند کی ہے لیکن کافی عرصے سے ایک فلاحی ریاست کی
تعریف کو عملی شکل میں دیکھنے کے مختلف خاکے ذہن میں بن رہے تھے لیکن اس
جمہوری ملک کے اندر رہ کر مجھے کسی فلاحی ریاست کی تعریف کے لئے کسی بڑی
لائبریری میں جانے کی ضرورت نہیں اور نا کسی ماہرین کے لمبے لیکچرز لینے کی
ضرورت ہے کیونکہ اس ریاست کے اندر رہ کر میں نہایت آسانی کے ساتھ فلاحی
ریاست کے چیدہ چیدہ نکات بیان کر سکتا ہوں۔
یہ موضوع اکثر زیر بحث رہتا ہے کہ اس موجودہ کردار کے ساتھ کسی غیر مسلم کے
سامنے کون سا ایسا نقشا پیش کیا جائے جو دل کو موہنے والا ہو اور جو ان کو
اسلام کی طرف راغب کرنے میں مددگار ثابت ہو! کیونکہ ہم نے تو اسلام کے نام
پر پارٹیاں بنا کر اور سیاسی مخالفین کی سیاسی برتری کے ڈر سے انکے ذاتیات
تک کو زیر بحث لانے سے دریغ نہیں کیا ۔
بھئی ہمارے پاس تو عوام کے مسائل سننے کے لئے وقت ہی نہیں ہے کیونکہ ۵ سال
کی مدت میں تو صرف ایک دوسرے کی کمزوریوں کو گلی گلی شہر شہر جا کر اچھالا
جا سکتا ہے اور اگلے ۴ سال کے لئے دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے منصوبہ
بندی ہی کی جا سکتی ہے اور اقتدار میں آنے کو غنیمت جان کر بینک بیلنس
بنانے کی اور کاروبار چمکانے کی سر توڑ کوشش کی جا سکتی ہے۔
جب دھوکہ دہی، جھوٹ، فریب، بہتان، کردار کشی، ذاتی مفادات کی بالا تری ،
ھینچ ٹانگ، منافقت، ذلّت، اغواء، چوری اور سماجی برائیاں عام ہو کر اکثریت
طبقے کا شیوہ بن جائے تو پھر آفات اور مصائب اس قوم کی تقدیر بن جاتے
ہیں۔جب تمام حب الوطنی کے نعرے حلق سے اوپر اوپر ہوں اور صرف زبان تک محدود
ہوں تو تقدیر کو برا بھلا کہنے کو بے وقوفی ہی سمجھا جاتا ہے۔
اور تو چھوڑیں جب کسی نا اہل (جعلی سند یافتہ ) وزیر کے پروٹوکول کے لئے
مہنگی گاڑیاں اور محافظ رکھنے کو فرض سمجھا جائے ۔ کسی تعلیمی ادارے میں
فیکلٹی کی قلّت کو فنڈز کی کمی کے ساتھ منسوب کیا جائے ۔ جہاں محلّے کی گلی
پکّی کرنے اور میٹرک پاس بیٹے کو اعلٰی نوکری دلوانے کو ووٹ کے لئے شرط
بنایا جائے ۔جہاں پر کسی تعلیمی ادارے کے اندر کسی فطری استعداد کے مالک کے
آگے آنے کو اپنے لئے خطرہ سمجھا جائے اور جہاں ملکی اساس اور نظریات کے
اوپر کنفیوژن پیدا کی جائیں تو پھر ایسی ہی فلاحی ریاست وجود میں آتی ہے جو
آجکل ہمارے سامنے مملکت خداداد کی صورت میں موجود ہے۔
تو اـدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا!
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں ، تری رہبری کا سوال ہے۔ |