مظہربرلاس کا''چہرہ ''
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
مردہ ضمیرلوگ مردہ پرست ہوتے ہیں جبکہ زندہ
ضمیراورزندہ دل انسان زندہ انسانوں کی قدرکرتا ہے۔انسان کاانسان سے تعلق
زندگی تک محدود نہیں ہوتابلکہ موت کے بعدبھی برقراررہتا ہے ،بدقسمتی سے کچھ
افراد اپنے معتمد اورمخلص دوست کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوتے ،ان
کاکہناہے''دوست مرگیا تودوستی بھی مرگئی''،یہ خیال ہرگز درست نہیں کیونکہ
عزیز واقارب اور احباب کے درمیان روحانی تعلق تومرنے کے بعدشروع ہوتا
ہے۔اِنسان مرتے ہیں مگر انسانیت کو موت کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑاجاسکتا ۔
لیکن اگرہم کسی کی زندگی میں اس سے اظہارمحبت نہیں کرسکتے تواس کی موت کے
بعد اس کی یاد میں رونایامجلس سجاناکوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
جیتا ہے توجینے کی سزادیتی ہے دنیا
مرجائے توبڑھ جاتی ہے انسان کی قیمت
وہ معاشرے جہاں ایک دوسرے کوسراہاجائے،وہاں سے نفرت اورنفاق کاجنازہ اٹھ
جاتا ہے ۔اگرہم ایک دوسرے سے حسد کرنے کی بجائے دوسروں کی کامیابی پر رشک
اورایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیدا کریں تو قدرت کی غیبی مددسے ہماراراستہ
بھی ہموارہوجاتا ہے۔موت برحق ہے مگربعدازمرگ کسی کی یادوں کوزندہ رکھنابھی
عزیز واقارب اوردوست احباب پرقرض ہے تاہم زندگی میں اس کازیادہ اہتمام کرنے
سے کئی دکھ سکھ میں بدل سکتے ہیں ۔ بدقسمتی سے مادہ پرستی کے اس دورمیں ہم
نے اپنے اندرحسداورنفرت کے قبرستان میں کئی زندہ انسانوں کو دفنادیاہے جبکہ
مُردوں کیلئے آنسوبہاتے ہیں۔اس سلسلہ میں برادرم ضیاء الحق نقشبندی دادو
تحسین کے مستحق ہیں جوقلم قبیلے سے وابستہ قلم کاروں اوردانشوروں کیلئے
باربار ایک ساتھ بیٹھنے کااہتمام کرتے ہیں،ان کایہ اقدام قابل تقلید ہے۔ان
کی تقریبات میں مقصدیت اورانفرادیت ہوتی ہے۔ برادرم ضیاء الحق نقشبندی کی
علم وقلم دوست کاوشوں میں برادرم محمد نوازکھرل بھی ان کے شانہ بشانہ قابل
قدرکرداراداکرتے ہیں ۔پچھلے دنوں برادرم ضیاء الحق نقشبندی نے لاہورپریس
کلب کے نزدیک ایک مقامی ہوٹل میں قلم قبیلے کے ہردلعزیز اورمحبوب قلم کار
مظہربرلاس کے اعزازمیں ایک پروقارتقریب سعید کااہتمام کیا ۔راقم بھی
مدعوتھا ،میزبان کے ساتھ ساتھ مہمان کی طرف سے بھی خاص تاکید تھی لہٰذاء
شریک ہونا فرض اورقرض تھا۔برادرم مظہربرلاس اورمیرے درمیان روحانی ،قلبی
اورقلمی رشتہ ہے ،دوافراد کے درمیان گہری دوستی اورمحبت وعقیدت کیلئے''
لنگوٹیا''ہوناضروری نہیں لیکن سودوزیاں سے بے نیاز باہمی احترام ناگزیر
ہے۔جوایک دوسرے کی عزت نفس کاخیال کرتے ہیں انہیں باعزت ،باوقاراوربامرادہونے
سے کوئی نہیں روک سکتا۔
مظہربرلاس کی برتری وسرفرازی کارازان کی عجزوانکساری میں پوشیدہ ہے،وہ
انتہائی خلوص اورخندہ پیشانی سے ملتے ہیں ،انہیں دوسروں کواپناگرویدہ بنانے
کاہنرآتا ہے۔ برادرم ضیاء الحق کی پرخلوص دعوت پربرادرم ذبیح اﷲ
بلگن،برادرم ناصر چوہان ایڈووکیٹ اورراقم ایک ساتھ تقریب میں شریک ہوئے
تووہاں قلم کاروں کی کہکشاں اتری ہوئی تھی اورا س ہال میں تشریف
فرمامہمانان کے چہرے نکھرے جبکہ ہرسورنگ بکھرے ہوئے تھے،یہ سب مظہربرلاس
اورضیاء الحق نقشبندی کی محبت میں کھنچے چلے آئے تھے ۔قلم قبیلے کے سرخیل
اوردبنگ کالم نگارجناب رحمت علی رازی ،بزرگ کالم نگارسیّدانورقدوائی ،سینئر
صحافی پرویزبشیر ،سجادمیر ، جمیل اطہر قاضی،تاثیر مصطفی،اعجازحفیظ خان ،قاضی
سعداخترقریشی،ندیم نظر،رانا خالد قادری، ماجدنظامی ،ارشدجیلانی اورلقمان
شریف سمیت سیاست اورصحافت میں سرگرم متعدد خواتین بھی تقریب میں شریک
تھیں۔ورلڈکالمسٹ کلب کے مرکزی چیئرمین اورممتازکالم نگارایثاررانابھی تقریب
میں مدعوتھے مگر وہ کسی سبب نہ آسکے ۔مقررین نے باری باری اپنے خیالات
کااظہارکرتے ہوئے مظہربرلاس کی بیباک کالم نگاری اورقلوب کوچھونے والی
شاعری پرروشنی ڈالی اورمظہربرلاس کی دبنگ شخصیت پرمحبت وعقیدت کے پھول
نچھاورکئے ۔ سیّد انورقدوائی ،جمیل اطہرقاضی اوراعجازحفیظ خان سمیت تقریب
میں شریک قدآورکالم نگاروں نے مظہربرلاس کی شخصیت اورقلمی شجاعت کے بارے
میں بہت کچھ کہاجس کوشرکاء کی طرف سے خوب سراہاگیا۔ برادرم ذبیح اﷲ بلگن کو
صرف مظہربرلاس کی تحریریں نہیں بلکہ ان کی مونچھیں بھی بہت پسند ہیں۔
مظہربرلاس کی طرح قلم قبیلے کے ایک اورنڈرقلم کار برادرم فاروق حارث
العباسی کی مختلف موضوعات پر تحریریں پڑھنے جبکہ ان کی مونچھیں دیکھنے سے
تعلق رکھتی ہیں ۔ ذبیح اﷲ بلگن نے تقریب میں بتایا وہ پاکستان کے مستقبل سے
مایوس اوورسیزپاکستانیوں کومظہربرلاس کے کالم پڑھنے کا''نسخہ ''تجویزکرتے
ہیں جس سے ان کی ''نیت اور طبیعت'' بحال ہوجاتی ہے ۔
برادرم مظہر برلاس زمانہ طالبعلمی میں مادروطن کی بینظیرمادرعلمی لاہورکالج
سے وابستہ رہے اوروہ آج بھی شہر لاہور سمیت لاہورکالج سے محبت کادم بھرتے
ہیں۔برادرم ڈاکٹراجمل نیازی ،برادرم طاہر منورسندھو،برادرم اقبال سندھو
اوربرادرم ناصرچوہان ایڈووکیٹ بھی اولڈراوین ہیں اوران کے قلوب میں زمانہ
طالبعلمی کی یادوں کاراوی بہتا ہے۔برادرم طاہرسندھولاہورجبکہ ان کے
ہونہاروملنسار بھائی اقبال سندھو لندن کی سیاست میں بہت سرگرم ہیں مگرافسوس
حکمران جماعت نے ان دونوں قابل بھائیوں کی خداداد تنظیمی وسیاسی صلاحیتوں
سے اس طرح استفادہ نہیں کیا جس طرح کیاجاناچاہئے تھا ۔برطانیہ میں مسلم لیگ
(ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات برادرم اقبال سندھو تو سات سمندرپاربھی
اولڈراوینز کومتحرک اورمنظم کررہے ہیں۔برادرم مظہربرلاس اولڈراوین ہونے کی
حیثیت سے اولڈراوینز کے حالیہ انتخابات میں اپنے دھڑے کی کامیابی کیلئے
دھڑلے سے ووٹرز پراپنے خلوص کا'' اثرورسوخ ''استعمال کرتے رہے۔ مجھے انہیں
اس کردارمیں دیکھنا بھی اچھا لگا،وہ دوستی اوردشمنی کے مفہوم سمیت ان کے
آداب سے بخوبی آشنا جبکہ دونوں جذبوں میں انتہاپسند ہیں۔برادرم مظہربرلاس
کادشت صحافت میں سفر زیادہ طویل نہیں مگرانہوں نے اپنے صادق جذبوں اوراخلاص
کی بدولت مختصر مدت میں شہرت اورعزت کاساتواں آسمان چھولیا ہے۔وہ قلم قبیلے
کا قیمتی اثاثہ اورسرمایہ افتخار ہیں۔وہ سراپاپاکستانیت ہیں اوراپنے قلم سے
مسلسل پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ اداروں کی وکالت کررہے
ہیں۔مادروطن سے یہ والہانہ محبت انہیں اپنے باپ دادا سے ورثہ میں ملی
ہے۔اپنے قلم سے اسلامیت اور پاکستانیت کی آبیاری ان کامشن ہے ۔وہ بحیثیت
کالم نگار دنیا بھرمیں اردوپڑھنے والے افراد میں صرف مقبول نہیں بلکہ ان کے
محبوب بھی ہیں۔وہ اپنے قلم سے دشمنانان وطن کے ہاتھ اورسرقلم کرتے ہیں ،انہوں
نے اپنے علم اورقلم کو نظریہ پاکستان کا''عَلم'' بنالیا ہے۔ان کی ہرایک
تحریر میں ملک وقوم کے روشن مستقبل کی تصویراوردرپیش چیلنجز سے
نبردآزماہونے کی موثر تدبیرہوتی ہے۔ان کے کالم میں الجھاؤنہیں بلکہ حق کی
طرف واضح جھکاؤہوتا ہے ،میں بحیثیت کالم نگار توازن کیخلاف ہوں کیونکہ
اسلام نے ہم انسانوں کو حق وباطل کے درمیان توازن نہیں تفریق کاحکم دیا
ہے۔حسینیت ؑ اوریذیدیت میں توازن نہیں ہوسکتا،آج کاانسان حسینیت ؑ
کاعلمبردار ہے یاپھریذیدیت کاپیروکار،ان دونوں کے درمیان اورکوئی راستہ
نہیں۔سچائی اوردروغ گوئی کاوزن برابرنہیں ہوسکتا۔ہمارے آس پا س جسم فروش،
قلم فروش اورضمیر فروش بھی ہیں مگرجس نے اپنے ہاتھوں میں حسینیت ؑ
اورپاکستانیت کاعلم اٹھایا ہووہ قلم فروش یاضمیرفروش نہیں نہیں ہوسکتا ۔مظہربرلاس
لفاظی اورلفافے کے پیچھے چھپ کرنہیں لکھتے بلکہ ان کاقلم براہ راست جھوٹ
اورلوٹ کھسوٹ کے کلچرپر کاری ضرب لگاتا ہے۔وہ ریاست میں نظریاتی، اصولی
اوتعمیری سیاست کے حامی مگرریاست کے ساتھ سیاست کیخلاف ہیں۔برادرم
مظہربرلاس کاقلم کوڑابن کران عناصر پربرستا ہے جو سیاست کی آڑ میں تجارت
چمکاتے ہیں۔ان کاقلم آبرومندی اورجرأتمندی کاغماز ہے ،ان کے کالم میں پڑھنے
والے کو امید کی سوغات ملتی ہے ۔وہ اپنا''چہرہ ''کسی مصنوعی میک اپ یا نقاب
میں نہیں چھپاتے۔وہ اپنے کالم میں مادر وطن کے اندرونی وبیرونی دشمنان
کوللکارتے اورپچھاڑتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کومایوسی اورناامیدی کی بندگلی سے
باہرلے آتے ہیں ۔برادرم مظہربرلاس کا''چہرہ'' ان کے اندرونی جذبات وتاثرات
کامظہر ہوتا ہے۔وہ اپنے قلم کے ساتھ جس وقت میدان''جنگ''میں آتے ہیں توان
کے دوست اوردشمن فوری طورپران کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔مظہربرلاس روشن،طاقتور
اور توانا پاکستان کے خواب دیکھتے ہیں جبکہ ان کی تحریر ان کے خواب کی
تعبیر ہوتی ہے۔وہ اشعار سے بھی اپنے خوبصورت جذبات کا اظہارکرتے ہیں،اس
تقریب میں انہوں نے اپنی غزل سنانے پراکتفا کیااورشرکاء سے بھرپوردادوصول
کرکے ہماری دعاؤں اوروفاؤں کی سوغات سمیٹ کروہاں سے رخصت ہوئے،یارزندہ صحبت
باقی ۔اگرانسانوں کے سینوں میں روحانیت اور انسانیت دھڑکتی ہوتودوست احباب
سے ملنے کے کئی اسباب پیداہوجاتے ہیں ۔ اس قلم فروشی اورمصلحت پسندی کے
دورمیں مظہربرلا س سے باضمیر قلم کاروں کادم غنیمت ہے جو روشنائی سے روشنی
عام کرنے اورسچائی تک رسائی کیلئے کوشاں ہیں ۔کسی شاعرکایہ خوبصورت شعر
برادرم مظہربرلاس کی نذرکرتاہوں ۔
ہمیں کوہے جرأت اظہارکاسلیقہ
صداؤں کاقحط پڑے گاتوہم ہی بولیں گے |
|