ایک شام میں نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد
اپنے گھر آنے کے لیے جیسے ہی گلی میں داخل ہوا تو پولیس کاایک جوان ہاتھ
میں بندوق پکڑے ، بیریئر لگاکر گلی کو بند کرکے چاک و چوبندکھڑا تھا ۔میں
نے حیرت سے پوچھا کہ خیریت تو ہے یہ اچانک کیا ہوگیا ہے ۔پولیس والے جواب
دیا کہ اس گلی میں آج رات کو اہل تشیع افرادکی مجلس ہونے والی ہے وہ سامنے
دیکھیں بینر اورٹینٹ لگ رہے ہیں ۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے اڑھائی سال ہوچکے
ہیں کبھی اس گلی کو بند نہیں کیاگیا اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ قادری کالونی
کی مین گلی ہے جہاں سے روزانہ ہزاروں لوگ پر گزرتے ہیں۔ رات ہو یا دن ہر
وقت ٹریفک جاری رہتی ہے۔اگر کہیں فوتگی بھی ہوجائے تو گلی بند نہیں کی جاتی
کیونکہ اس طرح ہزاروں لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔پولیس کے
پہرے میں گلی کے درمیان میں شامیانے لگاکر ٹیپ ریکارڈ کو سپیکر کے ساتھ
منسلک کرکے پورے محلے میں ماتم کی آواز اور ذاکروں کی تقاریر پہنچانے کا
عمل رات گئے تک جاری رہا ۔ شامیانے میں صرف دس پندرہ افراد ہی بمشکل جمع
ہوں گے جن کی تفریح طبع کے لیے پورے محلے کو رات گئے تک پریشان کیے رکھا ۔
چونکہ یہ سب کچھ پولیس کی نگرانی میں ہورہا تھا اس لیے ہر شخص خاموش رہا ۔کہنے
کا مقصد یہ ہے اگر یہ مجلس کرنا بہت ضروری تھا تو یہ امام بارگاہ میں نہیں
ہوسکتی تھی ۔ راستے کو بند کرکے پورے محلے میں ماتم کی آواز پہنچانا بہت
ضروری تھا ۔ اگر امام بارگاہیں موجود ہیں تو سڑکوں اور گلی کو بند کرنا
کہاں کی عقل مندی ہے ۔اگر ٹیپ ریکارڈ پر سب کچھ سنانا تھا تو یہ کام اپنے
گھر میں بیٹھ کر آسانی سے کیاجاسکتا تھا ۔اس مقصد کے لیے پولیس گارڈ متعین
کرنے اور بجلی کی بلا تعطل سپلائی جاری رکھنے کی درخواست کرنے کی کیا ضرورت
تھی۔کچھ لوگ مسلک کی آڑ میں انسانی حقوق چھیننے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے
اذیت کا سامان بھی کرتے ہیں ۔ جو کسی بھی طرح درست عمل نہیں ہے۔ محرم کی
یکم سے چود ہ پندرہ تاریخ تک خالد مسجد کیولری گراؤنڈ لاہور کے قریب ایک
کوٹھی میں مجالس کا اہتمام کچھ اس طرح کیاجاتاہے کہ آدھا میل سڑک دونوں
اطراف سے نہ صر ف شامیانے لگاکر بند کر دی جاتی ہے بلکہ دونوں طرف پولیس کے
پہرے بھی بٹھا دیئے جاتے ہیں ۔یہ کام صرف ایل تشیع ہی نہیں کرتے بلکہ ہمارے
اہل سنت (بریلوی بھائی ) بھی نہ صرف ربیع الاول میں بلکہ سارا سال میلاد
مصطفے ﷺ کی محفلوں کے انعقاد کے لیے اہم ترین سڑکوں پر شامیانے لگا کر
سپیکر پر ریکارڈ شدہ نعتیں یا کسی عالم کا بیان نشر کرنا شروع کردیتے ہیں۔
شامیانے لگانے سے سڑک کو پہنچنے والے نقصان کا تو ذکر ہی کیا لیکن وہاں سے
گزرنے والوں کو جس قدر اذیت کاسامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا
جاسکتا ۔ ایک نیک سیرت شخص نے چالیس سال تک عبادت کی اور جہاد میں حصہ بھی
لیا۔ وہ اچانک فوت ہوگئے کچھ عرصے بعد وہ شخص کسی بزرگ کو خواب میں جنت میں
ٹہلتے ہوئے نظر آئے ، بزرگ نے پوچھا اﷲ تعالی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ
فرمایا ۔ اس شخص نے بتایاکہ اﷲ تعالی نے میری چالیس سالہ عبادت کو قبول
نہیں کیا لیکن ایک چھوٹی سی نیکی کے بدلے مجھے جنت میں داخل کردیا۔ بزرگ نے
پوچھا وہ نیکی کون سی تھی ۔اس نے بتایاکہ راستے میں پتھر پڑا تھا ، میں نے
اس خیال سے اٹھا کر دور پھینک دیاکہ یہ پتھر کسی کو تکلیف پہنچا سکتا ہے ۔
اﷲ تعالی نے مجھے اس نیکی کے بدلے جنت میں داخل کردیا۔اس سے ثابت ہوتا ہے
کہ اﷲ تعالی اپنے حقوق معاف کردیتا ہے لیکن اپنے بندوں کے حقوق معاف نہیں
کرتا ۔لیکن یہاں عالم یہ ہے کہ کوئی حضرت امام حسین ؓ کے نام سے سڑکیں بند
کررہا ہے تو کوئی نبی کریم ﷺ کی ولادت کی خوشی منانے کے بہانے راستے روک کر
مخلوق خدا کے لیے پریشانیاں پیدا کررہا ہے ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ
سارا کام پولیس اور انتظامیہ کی سرپرستی میں ہورہا ہے اور اہتمام کے ساتھ
بندوق بردار پولیس کے جوان وہاں تعینات کردیئے جاتے ہیں ۔اس سے یہ فائدہ
ہوگا کہ گلی گلی محلے محلے ایسی تقریبات کاانعقاد نہ ہونے سے محلے داروں
اورسڑکوں پر گزرنے والوں کو کم ازکم پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔
ان کی دیکھا دیکھی شادی بیاہ اور فوتگی کے مواقعوں پر بھی اہم ترین راستے
اور گلیاں بند کرناایک معمول بن چکا ہے ۔اگر کسی کو روکا جائے تو وہ مرنے
مارنے پر تل جاتاہے ۔ کیا مجالس ،امام بارگاہوں اور میلاد مصطفے کی محفلیں
مسجدوں اور شادی گھروں میں منعقد نہیں ہوسکتی ۔ جہاں سپیکرکے ساتھ ساتھ
سامعین اور مقررین کے بیٹھنے کے لیے بھی کشادہ اور معقول انتظامات بھی ہوتے
ہیں۔ تمام مسالک کااحترام اپنی جگہ درست ہے لیکن حکومت ہر مسلک اور ہر فرقے
کے سامنے بکری بن کر اسے قانون کی کھلم کھلا اجازت کیوں دیتی ہے ۔ مسجدوں
میں سوائے اذان کے سپیکر کا استعمال ممنوع ہے لیکن یہ مذہبی ٹھیکیدار پولیس
اور انتظامیہ کے سامنے ساری رات سپیکروں پر اپنے اپنے مسالک کے بیانات ،
ماتم اور تقریریں سنا کر لوگوں کو ذہنی مفلوج کررہے ہیں ۔ کیا ہمارا دین یہ
کہتا ہے کہ تم شور مچاکر سب کا سکون برباد کردواور سڑکوں چوراھوں اور محلوں
میں اتنے سپیکر لگا دو کہ کوئی اپنی نیند نہ سو سکے اور سب کے کانوں میں
زبردستی اپنے مسلک کی تقریریں انڈیل دو ۔گویا سڑکیں بند کرنا اس ملک میں
کوئی جرم نہیں ہے۔لاہور میں پریس کلب شملہ پہاڑی کا مقام ہو یا چیئرنگ کراس
کاچوک ۔ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتاہے جب یہاں لوگ سڑک کو بند کرکے احتجاج
نہ کرتے ہو ۔ رہی سہی کسرپولیس تھانوں اورسرکاری دفاتر پوری کردی ہے جنہوں
نے آدھی سڑک پر ہی سیمنٹ کے بلاک کھڑے کرکے راستے تنگ اور بند کررکھے
ہیں۔ینگ ڈاکٹر نے تو شاید احتجاج تحریک میں ماسٹر ڈگری حاصل کررکھی ہے وہ
سال میں تین مہینے سڑکوں پر ہی احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں حکومت ان کے
سامنے بھی بے بس ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ سڑکیں صرف مجلسوں جلسوں اور
جلوس کے لیے ہی رہ گئی ہیں ۔ چیرنگ کراس چوک ہو یا پریس کلب شملہ پہاڑی کا
علاقہ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتاہے جب وہاں سڑکیں بند نہ ہوں ۔سڑکیں ہوں یا
راستے کوبند کرنا سخت گناہ ہے ۔اﷲ تعالی اپنے حقوق تو معاف کردیتاہے لیکن
اپنی مخلوق کی تکلیف اور دل آزاری برداشت نہیں کرتا ۔ |