فری ناز خان، کراچی
بے روزگاری پاکستان کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے۔ حکومتی آتی ہیں اور جاتی ہیں
مگر جوں ایک نئی حکومت آتی ہے وہ مہنگائی کرتی ہے اور بے روزگاری بڑھتی چلی
جاتی ہے۔ جس طرح معاشرے میں مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں اور حکومتی دعوے بھی
اسی طرح بڑھتے جارہے ہیں۔ بھی ہیں اور اچھائیاں بھی۔ اگر صرف یہ کہا جائے
گا اس معاشرہ بہت برا ہوچکا ہے تو یہ ناانصافی ہوگی۔ کچھ برائیاں ایسی بھی
ہیں جو کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جارہی ہیں یہ وہوہ برائیاں کینسر کی
ماند جڑیں مظبوط کر چکی ہیں، جس میں شاید ہم سب کا کردار ہے۔
اخلاقیات کا فقدان ہوتا جارہا ہے، خلوص اور لحاظ گویا نام کی حد تک رہے چکے
ہیں ۔ احساس اور شرم و حیا بھی با قی نہیں رہے۔ حرص، ہوس اور آگے بڑھنے کی
لگن کسی جنون کی طرح لوگوں کے دل و دماغ پر سوار ہے اور اسی جنون میں وہ
اپنی خواہشات اور آرزوں کی تکمیل کے لیے نہ جانے کون کون سے غلط راستے
اختیار کرتے ہیں۔
معاشرے کے بگاڑ میں بے روزگاری نے بھی اہم کردار ادا کر رکھا ہے۔ بیروزگاری
کے باعث نوجوان یا تو گھر والوں پربوجھ ہیں یا پھر معاشرے کے لیے ناسور
ثابت ہورہے ہیں۔ کہتے ہیں ایک فارغ دماغ شیطان کا گھروندہ ہوتا ہے۔ اس فارغ
سوچ کے باعث بہت سی اخلاقی برائیاں اور بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ یہیں
وہ نوجوان ہیں جنہوں نے کچھ معاشرے کے لیے تعمیری کردار ادا کرنا تھا مگر
جب فارغ ہوتے ہیں تو چوریاں کرنا، رہزنی جیسے واقعات میں ملوث ہوجانا، غیر
ضروری سرگرمیوں میں پڑ جانا فطری سی بات ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو ان
مسائل سے پریشانی کے باعث نشے کے عادی بن جاتے ہیں جو کہ سماج کے لیے زہر
قاتل ہے۔
نت نئے ایجادات نے بھی نوجوان نسل کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
نوجوان اپنی خواہشات اور ضروریات کو ہر ممکن پورا کرنا چاہتے ہیں مگر معاشی
لحاظ سے وہ انہیں پورا کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے تو وہ اس کے لیے بھی
جذباتی ہوکر غلط راہوں پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ اب اگر ان کے پاس کوئی باقاعدہ
روزگار ہوتا تو وہ اپنی ان خواہشات کو جائز طریقے سے پورا کرتے۔ اب ایسا تو
ممکن نہیں کہ آنے والی جدید ٹیکنالوجی کو بند کردیا جائے۔
ہمارے ملک کی بڑھتی ہوئی مہنگائی نے تو جیسے مسائل میں چار چاند لگا دیے
ہیں۔ ایک متوسط طبقہ کا فرد اپنے خاندان کے لیے ہر ممکن محنت کے باوجود بھی
مہنگائی کے باعث ٹھیک سے دو وقت کی روٹی نہیں پوری کر پارہا۔ ملک کی بڑھتی
ہوئی مہنگائی اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتی اور بلا آخر لوگ بیروزگاری اور
مہنگائی سے تنگ آکر دیگر سنگین جرائم کے ساتھ ساتھ کرائے کے قاتل بھی بننے
سے گریز نہیں کرتے۔ گویا اس کو یوں سمجھا جائے کہ حکومت مہنگائی کر کے اپنے
ہی بچوں کو قاتل اور جرائم کی دلدل میں دھنسا رہی ہے۔
اسی بے روزگاری کی بدولت ہمارے معاشرے میں تعلیم کا فقدان نظر آتا ہے۔ ایک
بیروزگار شخص چاہے کھانے کے لیے سرگرداں ہوکر تعلیم کو بھول جاتا ہے اور بے
شمار ایسے خاندان ہیں جن کے بچے تعلیم جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوکر کم سنی
میں ہی مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔ یہیں وہ بچے ہوتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو
پڑھے لکھے نہ ہونے کے باعث بچپن سے ہی چوریاں اور غلط راہیں اختیار کرلیتے
ہیں اور یوں بڑے ہوتے جاتے ہیں اور وہ برائیاں بھی بڑی ہوتی جاتی ہیں۔
بے روزگاری کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔ یہ کام تو یقینا بڑے پیمانے پر حکومتوں
کا ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
تاہم نچلی سطح پر خصوصا افرادی طور پر بھی ہر شخص کچھ ممکن حد تک بے
روزگاری کے خاتمے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر ہمارے پاس کوئی کام ہے تو
اس پر مستحق افراد کو لگائیں۔ ’’رائٹ جاب کے لیے رائٹ مین ‘‘ کا انتخاب بہت
ضروری ہے۔ اس سے بے روزگاری میں بھی کمی ہوگی اور میرٹ کی بنیاد پر کام میں
معیار بھی ملے گا۔
اس طرح اپنے اردگرد نظر رکھیں کہ کسی بچے کو یا کسی کو آپ کی تھوڑی سی مدد
کی ضرورت ہوگی اگر آج موقع پر آپ ان کی مدد کردیں گے تو اپنے پیروں پر کھڑا
ہوسکے گا اور یہ بھی ایک بہترین کوشش ہے بیروزگاری کے خاتمے میں۔ یاد رکھیں
یہ آپ کی کوشش نہ صرف ایک بے روزگاری کو ختم کررہی ہے بلکہ ایک ضرورت مند
کی ضرورت کو پورا کررہی ہے اور ناجانے اس سے کتنے افراد سیراب ہونگے اور
کتنی دعائیں اور نیکیاں آپ کو ملیں گی۔ مفید مشورے بھی کسی کے لیے بہت
قیمتی ہوسکتے ہیں جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے مگر وہ ان سے ناواقف ہوتے ہیں۔
مثلاً ایک بچہ پڑھ تو رہا مگر اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ کرے گا کیا۔ آپ نے
اگر اسے توجہ دلائی تو یقینا وہ سوچے گا اور پھر اپنے مقصد کا تعین کر کے
اس پر گامزن ہوگا اور یہ چیز اس کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی ورنہ وہ بہت آگے
چل کر یہ بات سوچتا تب تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ۔
اسی طرح ایک بچے فارغ گھوم رہا ہے آپ نے اسے سمجھا کر کسی اچھے سے لینگویج
کورس، کمپیوٹر سے متعلق مختلف قسم کے ہونے والے کورسز سے متعلق توجہ دلائی
اور اس کی ضرورت کو ممکن حد تک پورا کردیا تو یقینا وہ فارغ رہنے سے اچھا
کچھ حاصل کرلے گا۔
ان میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ خود ہم بے روزگار افراد کو بھی کچھ بیٹھ
کر سوچنا ہوگا۔ جذباتیات نکل کر سنجیدہ کچھ کرنا ہوگا۔ آپ کے پاس پیسے ہیں
تو انہیں ضائع کرنے یا ادھر خرچ کرنے کے بجائے نچلی سطح پر کچھ بھی کاروبار
شروع کردیں۔ اگر کچھ بھی نہیں ہے تو یہ مت سوچیں کہ آپ کے پاس کچھ نہیں
بلکہ اﷲ تعالیٰ نے مکمل جسم کا مالک بنایا ہے کچھ بھی کریں جو ہوسکتا ہے۔
اگر اسٹیٹس کے چکر میں بیٹھے رہیں گے تو آپ کی صلاحیتیں بھی ماند پڑتی
جائیں گی اور بے روزگاری تو ہے ہی ۔
کچھ بھی کرنا ہے آپ کو خود کو کرنا ہے۔ جب تک ہم دوسروں پر منحصر رہیں گے
اور دوسروں سے امید وابستہ رکھیں گے ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔ اگر کوئی
روزگار ڈھونڈنا ہے تو خالی کھوکھلی فون کالوں، یا سی وی بنا بنا کر ای میل
کرنے کے بجائے خود بھاگ دوڑ کریں۔ کوئی آپ کے لیے وقت نہیں نکالے گا اپنے
لیے وقت اور بھاگ دوڑ آپ کو خود کرنی ہوگی ۔ آپ کو یقین رکھنا چاہیے خود پر
کہ آپ جو بھی کر سکتے ہیں وہ بہت اچھے سے کرسکتے ہیں اس لیے کریں۔ |