واپڈا، شکایات میں نمبر 1
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
وفاقی محتسب ریجنل آفس ملتان نے سال
بھر میں موصول ہونے والی درخواستوں کے جائزہ کے بعد قوم کو آگاہ کیا ہے کہ
نومبر تک سب سے زیادہ شکایات میپکو کے خلاف آئی ہیں۔ آفس کو ملنے والی کُل
3364درخواستوں میں سے 1786صرف میپکو کے خلاف ہیں، باقی دیگر محکموں کے خلاف۔
نادرا دوسرے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام تیسرے نمبر پر ہے۔ تقریباً ہر
روز ہی کوئی نہ کوئی سروے اخبارات کی زینت بن جاتا ہے، کیونکہ سروے کرنے
والے اداروں کی تعداد میں بھی شاید اضافہ ہو تا جارہا ہے۔ بہت سے ملکی
ادارے بھی بہت نام کما چکے ہیں اور ان کے سروے کو قابلِ اعتماد تصور کیا
جاتا ہے۔ رہی غیر ملکی سروے کی بات ، تو وہ سرآنکھوں پر، سروے باہر سے آئے
اور ہم لوگ اس سے متاثر نہ ہوں، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اندرونی سروے میں
پاکستان میں رشوت میں کونسا محکمہ پہلی پوزیشن پر ہے، شکایات سب سے زیادہ
کس محکمے سے ہیں، کس معزز رکن اسمبلی نے سال بھر اسمبلی میں ایک لفظ نہیں
بولا، کس نے کتنی چھٹیاں کیں، کون ذہنی اور جسمانی طور پر حاضر بھی رہا۔
سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کس درجے پر ہے۔ کتنے ادارے ہیں جو عرصہ سے
سربراہ کے بغیر ہی چل رہے ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی سروے میں بتایا جاتا ہے کہ
کونسا ملک شرح خواندگی میں سب سے آگے اور کونسا سب سے پیچھے ہے، کون ترقی
کے زینے چڑھ کر چھت پر پہنچ چکا ہے اور کونسا ابھی پہلی سیڑھی پر ہی پھر
رہا ہے، کونسا ملک خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور کون سا مالی طور
پر سب سے امیر ہے؟ کس ملک کی زیادہ یونیورسٹیاں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر
ہیں، اور وہ کونسے ملک ہیں جہاں کی ایک یونیورسٹی بھی پہلی پانچ سو
یونیورسٹیوں میں شامل نہیں؟ آبادی کی کہانی کیا ہے اور کونسا ملک اس میں سب
سے تیز رفتاری سے منزلیں عبور رکرتا جار ہا ہے؟ یہ چند مثالیں ہیں۔
واپڈا کے دفاتر میں جانے سے علم ہوتا ہے کہ اگر واپڈا اہلکار اپنا کام
ایمانداری اور محنت سے کریں تو واپڈا کے دفاتر میں سائلوں کی تعداد آٹے میں
نمک کے برابر رہ جائے۔ جتنے سائل بھی اِن دفاتر میں آتے ہیں، وہ واپڈا
والوں کی ظلم وزیادتی کی وجہ سے ہی آتے ہیں۔ اگر وفاقی محتسب کے ملتان کے
ریجنل آفس کی شکایات کا جائزہ لیا جائے تو وہ اعتراضات بھی بتائے گئے ہیں،
جن کی وجہ سے صارف دفتر آنے پر مجبور ہوتا ہے، زائد بل، بل درست نہ کرنا،
خراب میٹر کو تبدیل نہ کرنا وغیرہ ان اعتراضات میں شامل ہیں۔ اوور بلنگ میں
ظاہر ہے صارف کا کوئی قصور نہیں، تاہم بل کی درستگی کے لئے اسے دفتر جانا
پڑے گا، مگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، کہا جائے گا کہ یہ بل بھر دیں، آئندہ
اکاموڈیٹ کردیں گے، جس غریب کی کل آمدنی بارہ پندرہ ہزار سے زیادہ نہ ہو وہ
دس ہزار کا بل بھی کیسے بھر سکتا ہے؟ بہت تیر چلا دیا تو اس کو بل کی دو
قسطیں بنا دیں، مگر زیادتی کا ازالہ کوئی نہیں۔ لوگ واپڈا کے دفاتر میں
اہلکاروں سے الجھتے اور سر پٹکتے رہتے ہیں، مگر انہیں مکمل بے حسی کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔ واپڈا کی جانب سے صارف کے سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا، مگر
جوبات اس کی زبان سے ادا ہو گئی، اسے پورا کرنا صارف کا فرضِ عین ہے۔ بعض
اوقات بقایا جات کی مد میں ہزاروں روپے ڈال کر بھیج دیتے ہیں، بس اتنے یونٹ
بجلی زیادہ خرچ ہو گئی تھی، آپ نے بل ادا نہیں کیا، گویا اپنی غلطیاں بھی
صارف کے سر۔
میٹر خراب ہونے کی کہانی بھی عجیب ہے، اگرچہ معاشرے میں بجلی چوری کرنے
والوں کی بھی کمی نہیں، میٹر خراب کرنے والے بھی یہاں موجود ہیں، مگر یہ طے
ہے کہ بجلی چوری کا معاملہ ہو، یا میٹر خراب ہونے کا، یہ کام واپڈاکے
اہلکاروں کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں، اگر واقعی کسی نے خود یہ
کام کیا ہے تو ایسے لوگوں کی تعداد نہایت ہی کم ہوتی ہے۔ ایک ستم یہ بھی ہے
کہ میٹر ریڈہر ماہ میٹر کی تصویر بناتا ہے، اگر میٹر خراب ہے تو محکمے کا
فرض ہے کہ فوری طور پر صارف کو آگاہ کیا جائے، مگر کئی ماہ کے بعد میٹر
خراب کی اطلاع بھاری بل کی صورت میں ہی دی جاتی ہے، جسے دیکھ کر صارف سر
پیٹ کر رہ جاتا ہے، کھمبے پر لگے دسیوں میٹروں میں اسے یہ خبرتک نہیں ہوتی
کہ اس کا میٹر کونسا ہے؟مگر سخت وزیروں کا محکمہ ہے، بل تو بھرنا ہوگا۔
|
|