مسلمانوں کاویلنٹائن ڈے، فرینڈ شپ ڈے،یوتھ ڈے،کرسمس ڈے ،برتھ ڈیزاور نیوایئروغیرہ منانا:ایک لمحۂ فکریہ
(Ata Ur Rehman Noori, India)
تھرٹی فرسٹ :احتساب کادن یعنی گزشتہ سال ہم نے کیاکھویااورآئندہ سال کے لیے کیامنصوبہ بنایا؟
مذہب اسلام اظہارِ خوشی اورجشن کے لیے نماز،روزہ،امرالٰہی کی تعظیم اور خلق خداپر شفقت کی تعلیم دیتاہے۔
|
|
جارج کی عمر پچاس سال سے کچھ زیادہ
ہے،وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ واشنگٹن میں رہتاہے۔عیدالاضحی قریب
آرہی تھی۔جارج اور اس کے گھر والے ٹی وی اور انٹرنیٹ پر دیکھ رہے تھے کہ
عید کس تاریخ کو ہوگی؟بچے اسلامی ویب سائٹس سے روزاَپڈیٹس لے رہے تھے۔سب کو
عید کا بے صبری سے انتظار تھا،جیسے ہی ذی الحجہ کاچاندنظرآیاجارج کے گھر
والوں نے عید کی تیاریاں شروع کر دیں، گھر کے قریب ہی ایک فارم ہاؤس
تھا،وہاں سے ایک بھیڑ خریدی جس کے چناؤمیں انہوں نے تمام اسلامی اصولوں کو
مدنظر رکھااورگھر کی راہ لی۔بچوں کا خوشی کے مارے کوئی ٹھکانہ نہیں
تھا،جارج کی بیوی نے گھر پہنچ کر بتایاکہ وہ بھیڑ کے گوشت کے تین حصے کریں
گے ،ایک حصہ غریبوں میں تقسیم کردیں گے،ایک حصہ اپنے ہمسایوں
ڈیوِڈ،مارک،لیزااور ابراہم کو بھیج دیں گے اور ایک حصہ اپنے استعمال کے لیے
رکھیں گے ۔یہ تمام معلومات اسے ویب سائٹس سے ملی تھی،کچھ دنوں کے بعد
عیدالاضحی کا دن آہی گیا،بچے خوشی خوشی صبح سویرے جاگے اور تیار ہوگئے۔اب
بھیڑ کو ذبح کرنے کا مرحلہ آیا،انھیں سمتِ قبلہ کا پتہ نہیں تھالیکن
نادانستہ مکۃ المکرمہ کی جانب رُخ کرکے جارج نے بھیڑ ذبح کرلی۔جارج کی بیوی
گوشت تین حصوں میں تقسیم ہی کررہی تھی کہ اچانک جارج کی نظر گھڑی پر پڑی،وہ
بیوی کی طرف منہ کرکے چلایا:’’ہم چرچ کے لیے لیٹ ہوگئے،آج سنڈے ہے اور چرچ
جانا تھا‘‘۔جارج ہر سنڈے کو بیوی بچوں کے ساتھ چرچ جاتا تھا لیکن آج عید کے
کاموں کی وجہ سے چرچ کا ٹائم نکل گیا۔یہ اس ایس ایم ایس کے الفاظ ہیں جو آل
رسول حضرت مولاناالحاج سید محمد امین القادری صاحب (نگراں سنّی دعوت
اسلامی،مالیگاؤں)نے ۲۴؍دسمبربروز سنیچر۲۰۱۶ء کو صبح ساڑھے گیارہ بجے راقم
کو واٹس ایپ کیااور حکم فرمایاتھاکہ اس ایس ایم ایس میں ایک اہم پیغام کی
جانب اشارہ ہے ،اسے مضمون کی شکل میں عام کروتاکہ لوگوں کی اصلاح ہو،حضرت
کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اور میسیج سے استفادہ کرتے ہوئے یہ مضمون لکھاگیا
ہے۔
اب تک کی حکایت پڑھ کر قارئین کرام یقیناتذبذب اور کشمکش کا شکار ہوں گے کہ
جارج مسلمان ہے یا کرسچن؟شایدوہ مسلمان ہی ہوگا؟اگر کرسچن ہوتاتو مسلمانوں
کا تہواراتنے جوش وعقیدت سے کیوں مناتا؟عید کی تاریخ کا خیال کیوں
رکھتا؟انٹرنیٹ سے معلومات کیوں حاصل کرتا؟کیوں روپیہ خرچ کرتااوراسلامی
طریقے پربھیڑذبح کرتا؟ممکن ہے آپ کو کہانی ناقابل یقین لگ رہی ہوگی ؟ایسی
اسلام پسند کرسچن فیملی پر آپ کو یقین کیوں نہیں ہورہاہے ؟کیاہم مسلمانوں
میں سے کوئی عبداﷲ،کوئی شہزاد،کوئی رئیس،کوئی عمران،کوئی نداآفرین اور کوئی
نازیہ کرسچن کے تہوار نہیں مناتے ؟کیاآپ نے مسلمان بھائی اوربہنوں
کوویلنٹائن ڈے، فرینڈ شپ ڈے،یوتھ ڈے،کرسمس ڈے ،برتھ ڈیزاور نیوایئروغیرہ
مناتے ہوئے نہیں دیکھا؟اگر ہمارے یہ اعمال غیروں کے لیے حیران کن نہیں ہیں
تو یہ حکایت آپ کے لیے کیوں تعجب کا باعث بنی بیٹھی ہے؟جارج کا کرسچن ہوکر
بقرعید منانا عجیب لگ رہاہے مگر ہمارا غیر اسلامی تہواروں میں شریک ہونا
عجیب نہیں لگتا؟کسی یہودی کا یوم ولادت محمد عربی منانا حیرت کا باعث مگر
متعدد جینتی میں شرکت، کیوں تعجب نہیں؟کسی ہندوکا شب قدر یعنی نزول قرآن کی
رات کا اہتمام کرنا ناقابل یقین اور ہمارا دیوالی میں فضول خرچی
کرناجائز؟آخر کتنی کشتیوں میں ہم سنوار ہیں؟ہمیں اپنابھولاہواسبق یادکرنے
کی ضرورت ہے اور یہ بھی ذہن نشین کرنے کی کہ کسی کی کشتی میں سوار ہوکر
اپنی نیّا نہیں تیرائی جاسکتی،ہمیں خوداپنی کشتی کی نگہبانی کرنی ہوگی،اب
ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔
راقم چھ سالوں سے غیرمسلموں کے درمیان فارماسسٹ کے فرائض انجام دے رہاہے
مگر کبھی اس عرصے میں عید کے موقع پر غیروں کے محلے میں عطر، ٹوپیاں،
تسبیح، مسواک وغیرہ بکتے ہوئے نہیں دیکھااور نہ ہی کسی غیرمسلم نے ایسی
اشیاء پر مبنی دکان کا انتظام کیا ۔مگر ہاں مسلم محلوں میں دیوالی کے ایام
میں پٹاخے،فرکی،راکٹ،سُرسُری ،رنگ وآرائش کا سامان فروخت ہوتے ضرور دیکھاہے
اور ہمارے بھائی بہت چاؤ سے اپنی اولاد کے لیے سامان کی خریدی کرتے ہیں،آخر
کہاں ہے ہم ؟؟غیروں کے تہواروں میں نوجوانوں کا شریک ہونا،دھوم مستی کرنا،
پکڑے جانے پر اسلام کا نام بدنام ہونا،نوجوانوں کا محض دیکھنے کے لیے آس
پاس کے چرچ میں جانا،گنپتی بتانے کے لیے عورتوں کابچوں کو لے کرجانا،دیوالی
میلہ میں نوجوانوں کا بیوی کو گھمانے اور خریدی کے لیے ساتھ لے
کرجانا،عیسائی نئے سال کی آمدپر کالج کے بوائز اور گرلس کا بار،ہوٹل یا روم
میں پارٹی کرنا،ایک دوسرے کو مبارکباد دینا،سیروتفریح کے لیے جانا،نئے
موبائل اور نئی گاڑیاں خریدنا،شہرومضافات کی ہوٹلوں پر محض تھرٹی فرسٹ کے
جشن کے لیے مع دوست واحباب دعوت پر جانا،گانے سننا،رات رات بھر یاران مجلس
کے ساتھ فلمیں دیکھنا،کلبوں میں دھینگا مستی کرنا،ویڈیوز،ایم ایم ایس اور
ایس ایم ایس شیئر کرنا،نت نئی خرافات کا جنم دیناوغیرہ۔
ہر نیا سال اپنے دامن میں خوشیوں کی سوغات لیے جلوہ نما ہوتا ہے یا پھر غم
و اندوہ اور حزن و ملال کے بد نما نقوش۔ہمیں اپنے ماضی، حال اور مستقبل کو
سالِ نو کے بدلتے حالات کے لحاظ سے دیکھنا ہے اور اسے خوش نما بنانے کی جدو
جہد کرنا ہے۔گزشتہ سال ہم نے کیاکھویااورآئندہ سال کے لیے ہم نے کیامنصوبہ
بنایا۔ہماری قوم بس جی رہی ہے نہ اس کے پاس کوئی مقصدہے اورنہ کوئی منصوبہ
۔آخریہ کب تک چلتارہے گا۔جس قوم کاکوئی نصب العین نہ ہو،مقصدزیست نہ ہووہ
قوم کامیابی وکامرانی کیوں کرحاصل کرسکتی ہے؟ اگر ایک لمحے کے لیے مان بھی
لیاجائے کہ تمام مذاہب کے ایّام کا مناناضروری ہے تو اس سلسلے میں اسلام کا
خوشی منانے کا نظام اورضابطہ دیکھا جائے گا،اسلام میں جتنے مقامات پر خوشی
کااظہارکرناضروری ہے وہاں وہاں روزہ ونماز،عبادت وریاضت،تسبیح وتہلیل،معافی
وتلافی، عفوو د رگزر ، یتیموں کے ساتھ بھلائی،بیواؤں کی مدد،حاجت مندوں کی
حاجتوں کی تکمیل ،ناداروں کی کفالت، مفلسوں کی ضروریات زندگی کا خیال
رکھناوغیرہ شامل ہے۔اگر ہمیں تھرٹی فرسٹ کا جشن مناناہی ہے تو مذکورہ اعمال
پر عمل کرو،رات بھر اﷲ کی بارگاہ میں پیشانی خم کرو،دن بھر کاروزہ
رکھو،والدین کے حقوق اداکرو،امرالٰہی کی تعظیم کرواور خلق خداپر شفقت
کرو۔اﷲ پاک عقل سلیم عطافرمائے۔ |
|