جناح کی برتھ ڈے ،کرسمس اور جمعیت

جناح کی برتھ ڈے ،کرسمس اور جمعیت
یار لوگ تمہید سے نالاں ہیں۔بلا واسطہ مدعا پر آتا ہوں۔
محمد علی جناح نامی شخص کی سالگرہ گُزری ہے۔شُنید ہے کہ وہ پاکستان نامی کسی ملک کے بانی تھے۔قسم لیجئے ! علٰی ہٰذالقیاس محمد علی نے جو پاکستان بنایا تھا وہ چند دن بعد رحلت فرما گیا تھا،جناب کی رحلت کے ساتھ ہی۔جو پاکستان ہم حیاتِ رفتہ سے دیکھے چلے آتے ہیں ،اُسکا تو بحر حال جناح کے پاکستان سے کوئی تعلق نہ ہے۔ہاں مگر رحلت کے ہر چند برسوں کے بعد اُسکا جنازہ ہوتا رہا ہے۔مثلاََ لیاقت محترم کے قتل پہ پہلا جنازہ۔اسکندر مرزا کی سربراہی ،دوسرا جنازہ۔غلام محمد کا مارشل لاء،تیسرا جنازہ۔ایوب خاں کا مارشل لاء،چوتھا جنازہ۔فاطمہ جناح کے ساتھ سلوک،پانچواں جنازہ۔سقوطِ بنگال(بحوالہ حمود الرحمٰن کمیشن)،چھٹا جنازہ۔ضیاء کا مارشل لاء اور منافقانہ اسلام،ساتواں جنازہ۔بھٹو کی پھانسی،آٹھواں جنازہ۔مشرف کا مارشل لاء،نواں جنازہ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ،دسواں جنازہ۔ سقوطِ معائدہِ سندھ طاس ،گیارہواں جنازہ۔ایان علی،بارہواں جنازہ۔ڈاکٹر عاصم حسین،تیرہواں جنازہ۔راحیل شریف کی غداری مقدمہ میں مشرف کی(مبینہ) مدد،چودہواں جنازہ۔عائشہ صدیقہ کی "ملٹری انکارپوریٹ"پندرہواں جنازہ۔کالا باغ ڈیم کے خلاف مہم،سولہواں جنازہ۔قومی مالیاتی کمیشن،سترہواں جنازہ۔پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی حکومت،اٹھارہواں جنازہ۔جعلی نیب،انیسواں جنازہ۔مردہ پی آئی اے،بیسواں جنازہ۔مذہب کا بیوپار،اکیسواں جنازہ۔مریم نواز،حمزہ شہباز،بلاول زرداری وغیرہ وغیرہ کی قیادت "آخری جنازہ"۔(اگر کوئی جنازہ بھول گیا ہوں تو یاد کروا دیجئے پلیز)۔تنسیخِ ارواح کے فلسفہ کو اگر درست مان لیا جائے تو حالیہ پاکستان نامی ملک میں ،محمد علی کے پاکستان کی روح صرف اُس صورت میں پھونکی جا سکتی ہے ۔اگردرج بالا جنازوں کے زندہ ذمہ داروں کو باقاعدہ،جبکہ گُزرے ہوؤں کو علامتی طور پر قانون کے پھندے پر لٹکایا جائے۔ہاں اُسکے بعد محمد علی جناح کو (تب کے) موجودہ پاکستان کا بانی قرار دے کر اُنکی سالگرہ کو سرکاری طور پر منایاجانا،قرینِ انصاف ہوگا۔
مِل کر اِس ارضِ پاک کو مثلِ اِرم کریں
کُچھ کام آپ کیجئے ،کُچھ کام ہم کریں
کرسمس

کنفیوژن کا عالم دیکھئے کہ محمد ﷺ رحمت اللعالمین بن کر مبعوث ہوئے جبکہ اُنکے "گاڑھے" پیروکار یہ ثابت کرنے پہ لگے ہیں کہ جِن افراد نے مسیح موعود کی سالگرہ کے علامتی روز،عیسائیوں کو خیر سگالی کا پیغامِ خاطر دیا،وہ گویا راندہِ درگاہ ہوئے چاہتے ہیں۔جتنا نقصان آسمانی ادیان کو اُنکے اپنے ماننے والوں نے دیا ہے،اُس سے بڑھ کر تو مخالفت کرنے والوں نے نہیں دیا،اور ہاں بر سبیلِ تذکرہ کہتا چلوں کہ یار لوگ اس کارِ شر میں پیش پیش رہے ہیں۔میں تو عرض کئے دیتا ہوں کہ مسلمانوں (بالخصوص ٹھیکیدار حضرات) کی انتہائی ناقص سوچ بلکہ مجرمانہ غفلت پر مبنی اس رویہ نے عالم تناظر میں تمام اہلِ دنیا جبکہ مقامی تناظر میں بذاتِ خود اہلِ اسلام کے اُس گروہ کو،کہ جسکا غلطی سے کتاب اور دلیل سے تعلق ہے،ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ذرا کوئی" مفت۔ی"حضرت وضاحت فرمانا پسند فرمائیں گے؟
گلا تو گھونٹ دیا،اہلِ مدرسہ مے تِرا
کہاں سے آئے صدا،لا الاٰ الااللہ

جمعیت
صاحبانِ عقل! جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی پہلی محبت جس سے ہوجائے اُس کی چھایا،مدتوں لیئے بیٹھتی ہے۔تا آنکہ ؛عقل آن لے۔براہِ راست عرض کروں کہ (اسلامی) جمعیت (طلبہ )کے وجود پر حرف اُٹھانے والے ناقص ہیں اور جذباتی۔جمعیت متنوع ہے۔فلاسفہ کے مطابق دنیا میں صرف ایک شے کو دوام ہے اور وہ شے محض" تغیر "ہے۔جمود (جیسا کہ جماعتِ اسلامی پر طاری ہے)کو فنا ہے،جسکو یار لوگ بخوبی دیکھ سکتے ہیں
دیکھے اسے جو دیدہِ عبرت نگاہ ہو

ہاں مگر ! جان رکھیئے کہ میں جمعیت کے وجود کا بحر صورت حامی نہیں ہوں۔ایک خلا ہے ،جسے پُر کرنے کیلئے جمعیت ایک Phenomenonہے۔جب ریاسی تعلیمی ادارے چرسیوں ،شرابیوں،(ہم) جنس پرستوں،ہالووین کے پیروکاروں کے سپرد کر کہ سرکار یہ سمجھ بیٹھے گی کہ ہم نے انقلاب برپا کر دیا،تو جان رکھیئے کے ایک "فلسفہِ مزاحمت"جنم لے گا۔اور ایک بار جنم لیا،تو پھر چاہے سو کرے۔۔۔۔دوسری جانب : حضورجمعیت میں کُچھ" ساتھی بھائی "ہمیشہ ایسے میٹھے دشمن کا کردار ادا کرتے ہیں کہ اُنکے ہوتے کسی دشمن کی جمعیت کو ضرورت نہ ہے۔ گویا کہ
ہوئے تُم دوست جسکے

دشمن اُسکا آسماں کیوں ہو؟
جمعیت کے محاسن تو گنوائے نہ گنیں جا سکیں۔مگر ناقدین کیلئے یہ کہنا بحر حال قدرے آسان ہوا چاہتا ہے کہ جمعیت(اور جماعت) ایک نہج پر اپنے ارکان میں ایسا زعمِ تقویٰ جاگزیں کئے دیتی ہے کہ جو بآسانی تنگ نظری اور رویہ کی بیماری میں بدل کر معاشرے میں ایک ایسے تعفن پر منتج ہوتا ہے کہ ۔الپناہ
حال ہی میں دیکھا کہ چند میٹرک پاس فلاسفہ نے گویا اس بات کی قسم کھا رکھی ہے کہ جمعیت اور جماعت کی وکالت اتنے بھونڈے اور بد تمیز انداز میں کرنی ہے کہ اگر ناقد،کسی حلمِ طبع کے باعث کوئی گالی آن لائن نہیں بھی دے سکتا تو کم از کم دِل میں ضرور دے۔لگتا ہے کہ موصوفین،ناقدین کے اُس انباکس میسیج تک اپنی بے تُکی کج بحثی جاری رکھتے ہیں تا آنکہ کوئی صاحب منہ پر تعفن سے بچنے کیلئے ماسک پہن کر گندگی میں ہاتھ ڈال کر (طبیعت)صاف نہ کر دے۔
الغرض:زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن
Muhammad Bilal Azfar Abbasi
About the Author: Muhammad Bilal Azfar Abbasi Read More Articles by Muhammad Bilal Azfar Abbasi: 2 Articles with 1273 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.