قرآن مجید میں انسانوں سے حسن سلوک کی بڑی
فضیلت آئی ہے۔نبی رحمت ﷺ نے بھی ساری مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی
ہے اسلام کے ماننے والے تمام لوگ ایک امت ہیں ۔ ان کے درمیان دینی اخوت (بھائی
چارہ)پائی جاتی ہے۔ خونی رشتہ کے بغیر بھی وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔ رنگ
و نسل،زبان وعلاقہ کے اختلاف کے باوجود ان میں ہر فرد کے حقوق ہیں ۔
انسانوں کے حقوق سے ان کو محروم نہیں کیاجا سکتا خواہ وہ غریب ہوں، مسکین
ہوں ، محتاج ہوں ، معذور ہوں۔یتیموں اور وسائل سے محروم انسانوں کی خدمت
اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا عام حکم ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو امت کا
ہمدرد بنانے کے ساتھ تمام انسانوں کا بھی ہمدرد بناتا ہے تاکہ معاشرہ میں
امن برقرار رہے۔ جو شخص تعصب میں مبتلا ہو وہ آدمی اپنے علاوہ اپنی قوم اور
دوسری قوم کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا روادار نہیں ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری
تعالیٰ ہے:(ترجمہ) اور اﷲ کی محبت میں وہ مسکین، یتیم اور قیدی کو
کھاناکھلاتے ہیں(اور کہتے ہیں کہ) ہم صرف اﷲ کی خوشنودی کے لئے کھلاتے ہیں۔
ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا ڈر
ہے جو سخت اور طویل ہوگا۔ (القرآن سورہ دہر، آیت ۸تا ۱۰، کنز الایمان) اﷲ
کی محبت میں بھوکے، مسکین ، یتیم ، قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔یہ ہے انسانی
خدمت اور یہ باقی اور ٹھہرنے والی نیکی ہے۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ہیـ :
کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ط فَاَالزَّبَّدُ
فَیَذْھَبْ جُفَاءً ط وَاَمَّامَایَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمکُثُ فِی الْاَرْضِ
ط کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ ط (القرآن ،سورہ رعد، آیت ۱۷)
ترجمہ: اسی طرح اﷲ تعالیٰ حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے۔ اب جھاگ تو
ناکارہ ہوکر چلا جاتا ہے لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین
میں ٹھہری رہتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے۔غیر منافع بخش
چیزیں جھاگ کی طرح اڑ جائیں گی ۔ لیکن جو کام لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے
لئے کئے جائیں گے وہ ٹھہرنے والی باقی رہنے والی نیکی ہوگی۔ اس کی بہت سی
صورتیں ہیں۔ بنی نوع انسان کی خدمت کوئی بھی نفع بخش طریقے سے ہو ۔ تحریر
اچھی ہے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا باقی رہنے والی نیکی و ثواب ہے۔ تقریر اگر
عوام کے لئے فائدہ ہے تو تقریر بھی زندہ رہے گی اور باقی اور ٹھہرنے والی
نیکی کا ثواب بھی ملے گا۔ یتیموں ، مسکینوں کو نقصان پہنچانے والا ان کو
کھانا نہ کھلانے والا اورلوگوں کو ترغیب نہ دینے والا ان لوگوں کے لئے
افسوس (ویل نامی جہنم کی جگہ )ہے۔
عقیدہ توحید اور انسانی خدمت:قرآن کریم میں دو باتوں پر بہت زور دیا گیا
ہے۔ خاص طور سے عقیدہ توحید پرکہ انسان کا خدا سے تعلق مضبوط ہو۔ وہ صرف
اور صرف خدا کی عبادت کرے اور اس کے سوا کسی کے سامنے اپنا سر نہ جھکائے۔
اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرے۔ دوسرے یہ کہ انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرے۔
رشتہ داروں ، پڑوسیوں (خواہ دوسرے مذہب کا ہی ہو) ، یتیموں ، مسکینوں اور
حاجت مندوں کی جو ضرورتیں پوری کر سکتاہو،پوری کرے۔ جو بھی شخص اس کی خدمت،
مدد کا مستحق ہو اور جس کی خدمت کرنا اس کے بس میں ہو وہ اس کی خدمت
کرے،قطعی اس کی خدمت سے اپنے کومحروم نہ رکھے۔ انسانوں کی خدمت اور ان کی
فلاح کے کام میں غیرمسلموں اور ان کے اداروں کے ساتھ تعاون میں بھی کوئی
حرج نہیں ہے۔ بشرطیکہ ایمان و عقیدہ پر ضرب نہ پڑے۔ اس سلسلے میں قرآن نے
ہمیں تعلیم دی ہے۔ وَتَعَاوَنُوْعَلَی الْبِرِّ وَاتَّقْویٰ وَلَا
تَعَاوَنُوْ عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان وَتَّقُواللّٰہَ ط اِنَّ
اللّٰہَ شَدِ یْدُالْعِقَاب ط(القرآن ،سورہ مائدہ، آیت۲) ترجمہ: نیکی اور
تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاو ن کرو اور گناہ و ظلم و زیادتی کے
کاموں میں کسی کا تعاون نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اﷲ کی سزا بہت
سخت ہے۔
ظلم وزیادتی کے خلاف معاہدہ:آقائے دو عالم ﷺ کی ظاہری بعثت سے پہلے عرب میں
کوئی مضبوط سیاسی نظام نہیں تھا۔ جس کی وجہ کر سیاسی و سماجی انتشار پایا
جاتاتھا۔ لوگوں کی جان و مال محفوظ نہ تھے۔ ظالموں کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا
نہ تھا۔ ذرا سی بات پر جنگ وجدال، خون ریزی اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم
ہوجاتا تھااسے روکنے والا ٹھنڈا کرنے والا کوئی نہ تھا۔ حرم شریف مکہ جیسے
شہر کی حالت بھی اچھی نہ تھی۔ اس صورت حال کو اﷲ کے رسول رحمت عالم ﷺ نے
بدلنا چاہا ۔ آپ نے بعض دردمندلوگوں کو مشورہ کے لئے عبداﷲ بن جدعان کے گھر
جمع کیا اور یہ فیصلہ کیاکہ ظلم و زیادتی کو ہر قیمت پر روکا جائے گا۔ کسی
بھی شخص پر چاہے وہ مکہ کا رہنے والا ہو یا باہر سے آیا ہو، ظلم نہیں ہونے
دیا جائے گا اور ضرورتمندوں اور محتاجوں کی مدد کی جائے گی۔ آپ ﷺ اس معاہدہ
(Agreement)میں شریک تھے ۔ یہ معاہدہ آپ کی ظاہری بعثت سے پہلے ہوا تھا۔
لیکن بعثت کے بعد بھی آپ نے اس کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: میں عبد اﷲ بن
جدعان کے گھر میں اس معاہدہ میں شریک ہوا کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ (عرب
کی سب سے قیمتی اور بڑی دولت) مل جائیں تو بھی پسندنہیں۔ اگر اسلام کے آنے
کے بعد بھی مجھے اس کی دعوت دی جائے تو میں اس قبول کروں گا۔ (ابن سعد،
طبقات، جلد اول صفحہ۱۲۹۔ابن ہشام، سیرۃ النبی جلد اول، صفحہ ۱۴۴،۱۴۵)
انسانوں کی فلاح و بہبود ، امن وشانتی اور ان کی خدمت کے لئے جو NGOغیر
سرکاری تنظیمیں کام کرتی ہیں وہ معاشرہ کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ اسلام اس کا
محافظ اور ہمارے حضور رحمتہ للعالمین ﷺ اس کے بانی ہیں۔ چند حدیثیں ملاحظہ
فرمائیں۔ (۱) حضرت جریر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا: یرحم اﷲ من لایرحم الناس۔اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو
انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔(بخاری، کتاب التوحید، مسلم کتاب الفضائل) (۲)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما یہ حدیث روایت کرتے ہیں:رحم کرنے والوں پر
رحمٰن رحم فرماتا ہے (لہٰذا) زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم
کرے گا۔(۳) حضرت عبد اﷲ بن مسعور رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: لن تؤ منو ا حتی ۔ترجمہ: تم ہرگز ایمان والے نہیں ہوگے جب تک
کہ تم رحم نہ کرو۔فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا ۔ اے اﷲ کے رسول ﷺ !ہم میں
سے ہر شخص رحم کرتاہے۔ آپ ﷺ نے فرمایاانہ لیس بر حمتہ احد کم صاحبہ و لکن
رحمت الناس العامتہ۔ اس سے وہ رحم اور ہم دردی مراد نہیں ہے جو تم میں سے
کوئی اپنے قریب کے آدمی کے ساتھ کرتا ہے۔ یہاں اس رحمت عامہ کا ذکر ہے جو
تمام انسانوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ (طبرانی ،فتح الباری، ۳۳۷/۱۰) (۴) حضرت ابو
ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضور ﷺ نے
ان کے پاس پہنچ کر فرمایاکہ میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں بھلا کون ہے اور برا
کون؟آپ ﷺ کے اس سوال پر سب لوگ خاموش رہے ۔لیکن آپ نے تین مرتبہ یہی سوال
دہرایا تو ایک شخص نے عرض کیا۔ اے اﷲ کے رسول ﷺ ارشاد ہو ہم میں بھلا کون
ہے اور کون برا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: خیرکم من یرجی خیرہ ویومن شرہ وشرکم من لا
یرجی خیرہ ولا یون شرہ ۔ تم میں بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی
جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور تم میں بدترین وہ ہے جس سے خیر کی
توقع نہ کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ رہیں۔(مسند احمد جلد۲، صفحہ
۳۶۸،ترمذی،ابواب لفتن)(۵) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ رسول
اﷲ ﷺ نے فرمایا: لاتسزع الرحمۃ الا شقی ۔رحم اور ہمدردی تو اسی شخص کے سینہ
سے نکال دی جاتی ہے جو بدبخت ہو۔(مسند احمد جلد ۲، صفحہ ۳۰۱، ترمذی،
ابوابروالصلہ، باب ماجاء فی رحمت الناس) اور بھی احادیث کریمہ ، احادیث کے
ذخائر میں ہیں۔ ان مذکورہ احادیث میں کسی بھی فرق اور امتیاز کے بغیر خدا
کی ساری مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے ۔ یہ اسی بات کا ثبوت
ہے کہ جو شخص بھی ہماری ہمدردی اور مدد کا محتاج ہے اس کی مدد کرنی چاہئے۔
اس معاملے میں انسانوں کو گروہوں اور جماعتوں میں بانٹنا اپنے پرائے ،
جاننے والے اور اجنبی اور ہم مذہب اور دوسرے مذہب والے کے درمیان فرق کرنا
اور کسی کی خدمت کرنا اور کسی کے حق کو نہ ماننا دبا دینا آقا ﷺ کی تعلیمات
،مذہب اسلام کے مزاج اور اس کی ہدایت کے سراسر خلاف ہے ۔ اسلامی تعلیمات
میں ا س کی گنجائش نہیں ہے۔ ان احادیث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بلا مذہب و
ملت کے فرق کے مولائے رحیم و کریم کی مخلوق کی خدمت کرنا چاہئے تاکہ معاشرے
میں بھائی چارگی امن و شانتی کا ماحول بنارہے۔ اﷲ اپنے بندوں پر بہت مہربان
ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ قیدی
لائے گئے۔ قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا اور
وہ دوڑ رہی تھی ۔ اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا ۔ اس نے جھٹ اپنے
پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی۔ ہم سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
کیا تم خیال کرسکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ہم نے
عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک
سکتی ۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اﷲ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ
رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے (بخاری شریف ، حدیث
۵۹۹۹) نبی رحمت ﷺ نے بھی ساری مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے ۔ ہم
کو چاہئے کہ انسانوں کی خدمت کرکے اﷲ اور رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل کریں۔ اﷲ
ہم سب کو توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔ آمین |