نہ جانے کتنے پاکستانی وفاق کے زیرِ انتظام چلنے
والے اداروں کے ناروا سلوک سے تنگ آچکے ہونگے، خصوصا واپڈا کے بِلوں نے تو
ہر دوسرے گھرانے کے سر براہ کی نیند حرام کرنے اور ہوش اڑانے کاٹھیکہ لے
رکھا ہے۔جب بیس ہزار ماہانہ کمانے والے کو پینتالیس ہزار کا بجلی کا بِل
تھما دیا جاتا ہے تو جس ذہنی کرب سے وہ گزرتا ہے وہ وہی جانتا ہے جو اپنا
بجلی کابِل ہاتھ میں لے کر واپڈا کے دفاتر کا طواف کرتا ہے مگر اس کی کہیں
شنوائی نہیں ہو تی۔مگر اﷲ تعالیٰ مرحوم سابق صدر جنرل ضیاالحق کو اس کارِ
خیر کا جزائے خیر دے کہ انہوں نے وفاقی محتسب کا ادارہ کی داغ بیل ڈالی ،اس
وقت یہ ادارہ ممتاز بیوروکریٹ سلمان فاروقی کی زیرِ نگرانی چل رہا ہے ۔اور
اس کی شاخیں پاکستان کے تقریبا ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔ اس ادارے کا مقصد
یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے کسی بھی ادارے سے اگر کسی بھی شخص کو کوئی شکایت
ہو تو وہ اس ادارے کے خلاف سادہ کاغذ پر درخواست لکھ کر انصاف طلب کر سکتا
ہے۔
شاید وطنِ عزیز میں بہت کم قارئین یہ بات جانتے ہونگے کہ وفاقی محتسب
پاکستان میں وہ واحد ادارہ ہے ،جہاں سے نہ صرف یہ کہ فوری انصاف ملتا ہے
بلکہ ایک روپیہ خرچ کئے بغیر انصاف مِل جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں کی بات ہے، جب مجھے بجلی کا بِل مِلا تو میرے پاوٗں کے نیچے سے
زمین نکل گئی، ناکردہ گناہ کی سزا سننے پر انسان کا پریشان ہونا لازمی بات
ہے۔شکایت کرنے بھاگم بھاگ واپڈا کے دفتر پہنچا تو میرے جیسے کئی فریادی
ہاتھوں میں بجلی کے بِل لئے حیران و پریشان کھڑے تھے اور سامنے بیٹھے بابو
صاحب سے انصاف کی بھیک مانگنے کی التجا کر رہے تھے، راقم الحروف کی باری
آئی تو اپنی گزارش بصد ادب و احترام کرسی نشیں کے سامنے پیش کی ، انہوں نے
ایک دو بڑے بڑے رجسٹر کنگھال لینے کے بعد فر مایاَ’’ ایک آڈیٹ ابجیکشن کی
وجہ سے یہ رقم آپ کے بِل میں ڈال دی گئی ہے ‘‘ میں نے پوچھا کہ کچھ تفصیل
یا علاج ؟ فرمایا ’’ کچھ نہیں، بس یہ بِل داخل کرا دو ‘‘ پریشانی اور بڑھ
گئی ، مگر بھلا ہو میرے ایک دوست کا، جنہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے
دل پشاور میں وفاقی محتسب ایک ایسا ادارہ ہے جہاں سے آپ کو بغیر کسی وکیل
کے سستا اور فوری انصاف مِل سکتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ پہلے تو اپنے دوست
کی اس بات پر مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ وطنِ عزیز میں ایسا ادارہ بھی ہو
سکتا ہے جہاں سے ایک روپیہ خرچ کئے بغیر انصاف مِل جائے مگر ڈوبتے کو تنکے
کا سہارا ‘‘ بھاگم بھاگ وہاں پہنچا، وہاں کے سٹاف نے بڑے عزت و احترام کے
ساتھ میری راہنمائی فرمائی اور سادہ کاغذ پر درخواست لکھنے کو کہا، میں نے
درخواست لکھی ، متنازعہ بِل اور شناختی کارڈ کی کاپی منسلک کی، کیس رجسٹرڈ
ہوا، ایک ہفتہ کے اندر وہاں سے متعلقہ جج کیسامنے پیش ہونے کی اطلاع مِلی،
قصہ مختصر ! ایک ماہ کے اندر اندر مجھے انصاف مِل گیا۔
لیکن جس بات نے نے مجھے زیادہ متاثر کیا وہ وفاقی محتسب کے پشاور میں موجود
ذیلی ادارہ کا انصاف مہیا کرنے کا طریقہ کار اور حسنِ سلوک تھا ۔پاکستان
میں اس قسم کے ادارے کا موجود ہونا کسی نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں، پشاور میں
قائم وفاقی محتسب کا ادرہ نہ صرف یہ کہ فوری اور سستا انصاف دِلاتا ہے بلکہ
شکایت کنندگان کو جو سہولت و احترام دیتا ہے وہ بھی قابلِ تعریف ہے، عزتِ
مآب جناب بادشاہ گل وزیر، شاہ جی رحمان ، جہانزیب لطیف اور حجاب گل جیسے
تجربہ کار ، زیرک منصف اپنے فرائض کی بجا آوری اور انصاف کا ترازو سیدھا
رکھنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کالم ہذا کا مقصد اپنے قارئین کو یہ بتلانا
مقصود ہے کہ اگر آپ کو وفاق کے کے زیرِ انتظام کسی ادارے سے کو ئی جائز
شکایت ہے تو آپ اس ادارے کے خلاف درخواست دے کر انصاف طلب کر سکتے ہیں ۔اس
ادارے سے انصاف حاصل کرنے کے لئے کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہو تی، سادہ کاغذ
پر درخواست لکھ کر بنولٹ فنڈ بلڈنگ میں قائم وفاقی محتسب کے دفتر میں جمع
کراوائی جا سکتی ہے ۔دس دنوں کے انداندر آپ کو بلا کر ادارے کے افسر کے
سامنے دونوں کا موقف سنا جائے گا ،دو یا تین سماعت میں عموما فیصلہ ہوجاتا
ہے ۔فیصلے کے بعد اس پر وفاقی محتسب کے دستخط اور اور مہر ثبت ہونے کے بعد
قانونا یہ فیصلہ نافذ ہو جاتا ہے اور وہ وفاقی ادارہ جس کے خلاف شکایت کی
گئی ہو اس فیصلے پر عمل در آمد کرنے کا اس طرح پابند ہوتا ہے ، جیسے ہائی
کورٹ یا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کا پابند ہو تا ہے۔
یہ انصاف فراہم کرنے کا ایک بہترین فورم ہے مگرضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی
محتسب کے ان ذیلی اداروں کے اختیارات میں مزیداضافہ کیا جائے اور وفاق کے
مختلف ادارے جواس ادارے کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں ،ان کا سدِباب کیا
جائے۔ |