عزم

گزشتہ دنوں بہاول پور انتظامیہ نے اپنی نوعیت کی پہلی تقریب منعقد کی، جس میں ان لوگوں کو ایوارڈ دیئے گئے، اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا، جو اس وقت ملک کے اندر اور باہر بہاول پور اور پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اس پروگرام کا انعقاد اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے خوبصورت آڈیٹوریم میں کیا گیا تھا۔ ایوارڈ لینے والوں میں عدلیہ میں خدمات سرانجام دینے والے، ماہر ڈاکٹرز، ادیب، اساتذہ، کھلاڑی اور دیگر طبقات کے افراد شامل تھے۔ پاکستان کی پہلی لڑاکا خاتون پائلٹ عائشہ فاروق کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ ان لوگوں کو ایوارڈ دینے کے موقع پر چند سوالات بھی پوچھے جاتے تھے، تاکہ سامنے بیٹھے ہوئے ہزاروں شہری اور طلبا وطالبات اپنے ہیروز کے جذبات سے آگاہ ہو سکیں کہ آخر اس قدر قربانیاں ان لوگوں نے کیسے سمیٹیں، اور کیسے اتنا نام کمایا؟ ہر فرد کی الگ کہانی ہے، ہر شخص نوجوانوں کے لئے مشعلِ راہ تھا۔ یقینا اس تقریب سے نوجوان نسل کے جذبات جواں ہوئے ہوں گے، ان کے اندر بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوا ہوگا، انہوں نے بھی اس تقریب کے بعد اپنے آپ سے کوئی عزم کیا ہوگا، جس پر عمل کرنے کے لئے نئے سال کا آغاز ہو رہا ہے۔ نئے سال کی آمد کے موقع پر فطری طور پر انسان بہت سی منصوبہ بندی کرتا ہے، بہت سے فضول کاموں کو چھوڑنے اور بہت سے اچھے کاموں کو اپنانے کا ارادہ باندھتا ہے۔ بات صرف عمل کی ہے۔

ہم بحیثیت قوم اکثر لوگ اپنے وقت کی قدر نہیں کرتے، دن کے چوبیس گھنٹوں میں چند گھنٹے اپنے فرائض منصبی میں گزارتے ہیں، کچھ وقت دیگر لوازمات کو دیتے ہیں، کچھ وقت سوتے اور آرام کرتے ہیں، اور مجموعی طور پر گھنٹوں وقت ضائع کرتے ہیں۔ اگرچہ کچھ کاروبار اور دیگر امور ایسے ہوتے ہیں، جن میں بہت سے لوگ مصروف ہی رہتے ہیں، مگر ان مصروف لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ وقت ضائع کرنے کا اہتمام صرف بزرگ یا ریٹائرڈ لوگ ہی نہیں کرتے کہ بظاہر ان کے کرنے کے کوئی کام نہیں، بلکہ اس بیماری میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں، خاص طور پر نوجوان نسل میں یہ مسئلہ بہت گھر کر چکا ہے۔ گھنٹوں باہمی گپ شپ وغیرہ کا معاملہ تو تھا ہی، اب رہی سہی کسر موبائل اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے نکال دی ہے۔ جس کو جس وقت دیکھو موبائل پر فیس بک کھول کے بیٹھے ہیں، یا پھر وٹس ایپ پر ایک دوسرے کو پیغامات بھیجے جارہے ہیں، سیلفیاں بن رہی ہیں، اور انٹر نیٹ کے ذریعے تصاویر وغیرہ کا تبادہ کیا جا رہا ہے۔ نوجوانوں نے غیر نصابی کتب کا مطالعہ تو کیا کرنا ہے، وہ اپنے نصاب کی کتابوں کو بھی کم ہی موقع دیتے ہیں، یوں نوٹس وغیرہ کے ذریعے امتحانات کی تیاری کر لی جاتی ہے۔
 
نئے سال کے آغاز کے طور پر ہمیں بہت سے نئے عزم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ جو عزم ہم لوگ نئے سال کے موقع پر کرتے ہیں ، اصل ضرورت ان پر عمل کرنے کی ہے۔ ہم لوگ اپنی اپنی مصروفیات کے بعد کے وقت کی منصوبہ بندی نہیں کرتے، سب سے اہم کام یہی ہے کہ ہم اپنے فارغ وقت کو تقسیم کریں اور مثبت انداز میں ایسے کام اپنے لئے طے کرلیں، جس کا ہماری ذات کو بھی فائدہ ہو، مگر دوسروں کے کام آنے کے رجحان کو فروغ دینے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ جن لوگوں کو اﷲ تعالیٰ نے کھلے رزق سے نوازا ہے، وہ دوسروں پر خرچ کریں، جو توانائی اور صلاحیتیں رکھتے ہیں وہ دوسروں کی مدد اور رہنمائی کو اپنا شعار بنائیں۔ ہماری گلی محلے میں صفائی کا معقول انتظام نہیں ہوتا، ہم سب لوگوں کا فرض ہے کہ کوڑا کرکٹ ایسے ہی دروازوں کے سامنے نہ پھینکیں۔ چونکہ اپنے شہروں میں ٹریفک بہت زیادہ ہو چکی ہے، اس لئے جگہ جگہ بلاکنگ ہو جاتی ہے، جس کی وجہ صر ف یہی ہوتی ہے کہ ہم لوگ دوسروں کو راستہ نہیں دیتے، بلکہ خود آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر نئے سال کے موقع پر گلی محلہ کے لوگ بھی یہ سوچ لیں کہ کسی غریب گھرانے کے بچوں کے سکول کے اخراجات برداشت کرنے ہیں تو یہ بوجھ تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مخیر حضرات تو ایک سے زیادہ بچوں کی کفالت کرسکتے ہیں، ان کی تھوڑی سی توجہ سے تاریکیوں میں کچھ علم اور ترقی کی چند کرنیں تو روشن ہو سکتی ہیں، آئیے ہر ہم سب نئے سال کے موقع پر کوئی بہتری کا ایک ہی عزم کر لیں، تاکہ اپنے حصے کا چراغ جلا کر روشنی میں اضافہ کر سکیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429785 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.