تنقید جوابِ تنقید

ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے،ہماری کردار کشی کی جائے ،ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے اور ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے،لیکن گندگی کے اس گڑھے سےبچنے یہ طریقہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو جائیں بلکہ ہمیں بھی ان بیکار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے۔زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں وہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ ہم پتھروں کے نیچے دب جائیں یا پھر ان کے اوپر چڑھ کر مشکلات سےباہر آنے کی کوشش جاری رکھیں۔خاک والے خاک ڈالتے رہیں مگر پر عزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا۔

معاشرے کی تنقید کرنے والوں ایک جھلک

ایک مصور نے تصویر بنائی اور اس کو بازار میں نصب کر دیا ۔تصویر کے نیچے لکھا کہ غلطی کے گرد دائرہ لگائیں۔جب اس نے اگلے دن اپنی محنت سے تیار کی ہوئی تصویر پر نظر دوڑائی تو اس کو وہاں پہ دائرے ہی دائرے نظر آئے۔اس نے سوچا کہ تصویر میں واقعی کا فی غلطیاں ہو گیں۔چنانچہ اس مصور نے پھر دوبارہ محنت کرکے ایک اور تصویر بنائی اور پھر لکھا کہ غلطیوں کے گرد دائرہ لگائیں۔جب اس نے اگلے دن اپنی انتھک محنت سے بنی تصویر کو دوبارہ دیکھا تو وہی نتیجہ نکلا تھا ہر طرف دائرے ہی دائرے نظر آرہے تھے۔اس صورتحال سے وہ بہت پریشان ہوا۔اس کو کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ جہاں پہ تم لکھتے ہوں کہ غلطی کے گرد دائرہ لگائیں وہاں پہ لکھو کہ غلطیوں کی اصلاح کریں۔تم اس مصور نے ایسا ہی کیا ۔جب اس نے ایک دن بعد دیکھا تو تصویر بالکل صاف تھی۔کسی نے تصویر کو چھوا تک نہیں تھا۔دودن، تین دن، ایک ہفتہ حتی کہ مہینہ گزر گیا مگر تصویر بغیر کسی اصلاح کے بازار میں جلوہ افروز رہی۔ایسا کیا منتر سیانے نے اس کو بتایا تھا جس کی وجہ سے اس کی تصویر غلطیوں سے پاک ہو گئی تھی۔سیانے نے کوئی منتر یا جادو ٹونہ نہیں بتایا تھا ۔بس ایک حقیقت سے آشنا کیا تھا کہ تنقید کرنا بہت آسان ہے لیکن اصلاح کرنا نہایت مشکل ہے۔

ہر انسان کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ۔کچھ لمحات میں انسان لوگوں کی تنقید سے تنگ آکر سیدھے رستے سے بھٹک جاتا ہے اور گمراہی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ایک آدمی داڑھی رکھ لیتا ہے کیونکہ سنت ِ رسول ہے۔اپنی شلوار کو ٹخنوں کے اوپر کر لیتا ہے کیونکہ یہ بھی ہادی ِ کوثر کی سنت ہے۔اوئے مولوی،حافظ ،اور نا جانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے۔حالانکہ درست نام کا علم ہونے کے باوجود یہ روش اپنائی جاتی ہے ۔اس شخص پر تنقید کی جاتی ہے گویا یوں ظاہر کروایا جاتا ہے کہ گویا کہ اس نے داڑھی نہیں رکھی ناجانے کون ساگھٹیا کام کر دیا ہے۔کلمہ تمہیں آتا نہیں بڑے آئے ہو داڑھی رکھنے والے۔اسی طرح کے بے شمار الفاظ تنقید کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں ۔اگر ان سے کہا جائے بھئی ایسا کیوں کہتے ہوں اس کا جو اصل نام ہے اس سے ہی پکاروں تو جواب آتا ہے اب مولویوں کی طرح داڑھی رکھی ہے تو مولوی اور حافظ ہی کہیں گے نا۔بہت معذرت کے ساتھ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ جو حضرات داڑھی نہیں رکھتے تو ویسے وہ مشابہت انگریزوں کی کرتے ہیں اور انگریز تو اکثر و بیشتر عیسائی ہیں تو کیوں نہ ان کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہا جائے۔پھر ان اعلی حضرات کو غصہ آجاتا ہے۔پھر ان کو تہذیب کے سارے دائرے یاد آجاتے ہیں ۔پھر یہ کہا جاتا ہے اس بد اخلاقی میں تمہارا قصور نہیں بلکہ تمہارے ماں باپ نے پرورش ہی ایسے کی ہے۔

اگر آپ سیدھے رستے پر ہو تو راستے میں بہت رکاوٹیں آئے گی ۔بہت لوگ تنقید کریں گے ۔مذہب سے ہٹ کے بھی بات کریں تو دیکھ لیجیے گا ۔آپ کو ہر طرف تنقید کے الفاظ ہونٹوں پہ لیے نظر آئے گے۔ایک شریف آدمی اپنی محنت کی کمائی سے نیا موبائل لے کے آتا ہے۔دوست احباب مبارک باد دینے کی بجائے پہلا یہ سوال کریں گے کہ کتنے کا ملا ہے۔جی دس ہزار کا۔تو جواب آئے اس میں دس ہزار والی بات کون سی ہے۔لو جی میں نے ابھی پرسو ں لیا ہے موبائل سات ہزار میں ۔تمہارے موبائل سے تو کہیں اچھا ہے۔تم تو پا گل ہو جو اتنا مہنگا لے آئے ہو موبائل۔بندہ جانے سے پہلے مشورہ کر لیتا ہے وغیرہ وغیرہ طنزیہ جملے اس شریف آدمی کو سننے کو ملیں گے ۔مشورہ کی جو بات ہے وہ یہاں پہ آ کے ختم ہو تی ہے کہ یار پہلے بتانا تھا میرا فلاں دوست کے پاس فلاں چیز بہت اچھی پڑی تھی بس آپ ایک دن پہلے بتاتے نا۔۔۔۔۔۔۔۔اب ضرورت انسان کو مہینے کے بعد ہے لیکن وہ پہلے ہی ڈھنڈورا پیٹتا پھرے کہ میں نے فلاں چیز لینی ہے۔کب لینی ہے ؟مہینہ بعد۔تو تب بھی تنقید۔درانتی کی دھار ایک طرف لیکن زمانہ کی دھار دونوں طرف ہوتی ہے۔

ان تمام حالات کے پیش نظر اگر آپ کو آگے بڑھنا ہے تو ایک مثال سے ہی بہت کچھ سیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔بھلے وقتوں میں ایک کسان کا گھوڑا کنوے میں گر گیا۔جب وہ کنوے میں گرا تو وہ زور زور سے آواز نکالنے لگا۔کسان نے اس کو باہر نکالنے کی ترا کیب کو سوچنا گوارا نا سمجھا بلکہ اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ گھوڑا بوڑھا بھی ہو گیا ہے ۔کام بھی کم کرتا ہے۔سارا دن کھاتا رہتا ہے ۔کنواں بھی کافی پرانا ہے۔کیوں نا آج اسے اسی کنویں میں دفن کر دیا جائے۔چنانچہ اس نے تمام دوست احباب کو اکٹھا کیا ۔سب نے ملکر اس کے اوپر مٹی ،کچرا اور کوڑا کرکٹ پھینکنا شروع کر دیا۔لیکن گھوڑا سمجھدار تھا۔اس کے اوپر جو بھی کچرا ،کوڑا کرکٹ آتا وہ اپنے جسم کو حرکت دے کے اسے دائیں بائیں پھینک دیتا ۔یہاں تک کہ گھوڑا صحیح سلامت باہر آگیا۔یہ بات کسان اور اس کے دوست احباب کے لیے بہت حیران کن تھی۔

ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے،ہماری کردار کشی کی جائے ،ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے اور ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے،لیکن گندگی کے اس گڑھے سےبچنے یہ طریقہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو جائیں بلکہ ہمیں بھی ان بیکار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے۔زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں وہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ ہم پتھروں کے نیچے دب جائیں یا پھر ان کے اوپر چڑھ کر مشکلات سےباہر آنے کی کوشش جاری رکھیں۔خاک والے خاک ڈالتے رہیں مگر پر عزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا۔
 

Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 40683 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More