پھر سے ہندسہ بدلا ہے

نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی دھڑا دھڑ مبارکبادوں کے پیغامات کا آغاز ہو گیا، جہاں کچھ من چلوں نے بازاروں میں پٹاخے پھوڑے شور مچایا، میوزک کی لے پر ناچ نچایا خوب ہنگامے برپا ہوئے وہیں کچھ لوگ معافیاں مانگ کر نئے سال کا آغاز کرتے نظر آئے میں بھی زرا ابہام میں تھی کہ کسی کو مبارکباد دینی چاہئے کہ نہیں کیونکہ پچھلے سال بھی بڑے شکوہ شکایات موصول ہوئے وہ تو اﷲ بھلا کرے ہمارا میسج پیکج ختم تھا وہی بہانا لگا کر کام چلایا تھا اس سال بھی سوچ رہی تھی کہ کیا کرنا چاہئے کیونکہ بقول فیض احمد فیض

اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن ہے کیا
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے

خیر ہم نے بھی فیض کے شعر کی عملی تفسیر بنتے ہوئے نئے سال کے آغاز کی مبارکباد نا بھیجنے کی صریح غلطی کر لی جس کا احساس ہمیں تب ہوا جب دھڑا دھڑ ناراضگی بھرے پیغامات موصول ہوئے ناراضگی کا سبب تھا نئے سال کی مبارکباد نہیں دی خیر معزرت کر کے کچھ لوگوں کے منہ سیدھے ہوئے اور کچھ کے ابھی تک ٹیڑھے ہی ہیں بقول ان کے میری ناک اونچی ہو گئی ہے اب کیسے ہوئی یہ تو انہیں ہی علم ہو گا، لیکن میں شدت سے اس بات کو سوچا کہ نیا سال تو آ گیا لیکن حالات وہی پرانے ہیں وہی بگاڑ،وہی بحران، وہی پرانے مسائل، وہی دہشت گردی، وہی سیاسی پروپیگنڈے،وہی کرپشن، وہی سودی نظام سب کچھ وہی تو ہے پھر نیا پن کدھر ہے سب کس بات پہ اتنا شور مچا رہے ہیں ایک ہندسے کے 6 سے سات ہونے پر؟ یہ ہندسہ ہر سال تبدیل ہوتا ہے اس میں نئی بات کون سی ہے ہماری تاریخ میں سالوں سے یہی تبدیل ہو رہا ہے ہم اور ہمارا معاشرہ تو وہی ہے پھر مبارکباد کس بات کی؟ اتنا شور شرابہ ہلا گلا اور جوش وخروش کس بات کا؟ بات تو تب ہے جب حالات کا رخ بدلے ہندسے کی تبدیلی حالات کی تبدیلی کا سندیسہ بنے، ورنہ یہ کوئی نئی بات نہیں وہی عوام ہے وہی عوام کے مسائل ہیں وہی ہمارے سیاستدان ہیں اور وہی پرانی ان کی تقریریں ہیں رٹے رٹائے جملے، ان سب میں کوئی نیا پن نہیں․․ ملک میں توانائی کا وہی بحران بالکل ویسا ہی ہے کچھ دن پہلے سنا تھا حکومت نے بجلی کے بحران پر قابو پا لیا ہے اب 24 گھنٹے عوام کو بجلی فراہم کی جائے گی پندہ بیس دن بڑے سکون سے گزرے کہ پھر سے وہی حالات دوبارہ آگئے عوام پھر سے نالاں ہے بھئی اگر بحران پر قابو پا لیا تھا کیا یہ پندرہ بیس دن کے لئے تھا؟ یہ سیاستدانوں کا شیوہ ہے وہ عوام کو بیووقوف بناتے ہیں اور عوام بنتی چلی جاتی ہے اور حکمران اس بحران پر قابو پانے کا جھانسا دے دے کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سمیت کئی اداروں سے قرضے لے لے کر اپنی جیبیں بھر رہے ہہں جیبیں بھرنا کہنا بھی غلط ہے کیونکہ جیب تو پھر بھی بھر جاتی ہے مگر ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی ایسا ہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے حکمران عیش کر رہے ہیں اور عوام بے روزگار ہے اور دو وقت کی روٹی کے لئے ترستی پھرتی ہے بہت سے لوگ ہیں ہاتھوں میں ڈگریاں لئے پھرتے ہیں مگر انہیں نوکریاں نہیں ملتی کچھ دھکے کھا کھا کر بیرون ملک کوچ کر جاتے اور کچھ خود کشی کر لیتے ہیں اور یوں ہمارا ملک آہستہ آہستہ قابل لوگوں سے خالی ہوتا جا رہا ہے اور یہیں سے دہشت گروں کو موقع ملتا ہے وہ معصوم ذہنوں کو ٹریپ کرتے ہیں باقاعدہ پلاننگ سے جال بچھا کر بم دھماکے کروائے جاتے ہیں جس سے ملکی حالات مزید ابتر ہوتے جا رہے ہیں مگر ہم لوگ اپنی مستیوں میں مگن ہیں اور حکومت اپنی مستیوں میں مگن ہے کسے پروا ہے کہ یہ ملک لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کا صلہ ہے کون جانے کس نے کتنا خون بہایا ہے؟ کون جانے کس نے شیر خوار بچوں کی قربانیاں دی ہیں؟ کون جانے کس نے عزتوں کی دھجیاں اڑاوائیں ہیں؟ صرف ایک ملک کی خاطر جہاں وہ آزاد ہوں ان کے بنیادی حقوق انہیں حاصل ہوں مگر ہم سب بے حسی کے لبادے اوڑھے بیٹھے ہیں تاریخ بھی پریشان ہے کہ اس میں آئندہ بے حسی کی تاریخ رقم ہونے والی ہے میرا دل پھٹتا ہے اپنے پیارے ملک کے ان حالات پر اپنی سوئی ہوئی قوم کے ایسے حالات پر، ہم کیا تھے ہمیں کیا ہونا چاہئے اور ہم کیا بن گئے ہیں خدارا اپنے آپ کو پہچانو میری قوم کے نوجوانو! اپنا اصل پہچانو اس ملک کا مستقبل تم سے ہے تمہاری پہچان اس ملک سے ہے اٹھ جاو غفلتوں کی وادی سے، اٹھ جاو ان عیش و عشرت کدوں سے؟ اٹھ جاو نیند سے؟ اٹھ جاو خدارا اٹھ جاو وطن کو تمہاری ضرورت ہے کہیں ایسا نا ہو کہ دیر ہو جائے اور ان تم پھر سے اندھیروں کے غار میں پھنس جاو جہاں سے نکلنا مشکل ہو جائے ابھی بھی وقت باقی ہے ابھی بھی امید باقی ہے ابھی ہندسہ بدلا ہے اب باری ملکی حالات کے بدلنے کی ہے آو آواز اٹھائیں آو قدم بڑھائیں آو مل کر ملک کا مستقبل بنائیں آو لوگوں اپنے ملک کو چودہ سو سال پہلے جیسی ریاست کا سایہ بنانے کی کوشش کریں کہ اگلی بار جب ہندسہ بدلے ہمارے تاریخ بھی بدلے تاریخ بھی ہمارے ساتھ جشن منائے آو تاریخ بدلنے کو اٹھیں بقول
فیض احمد فیض
آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت نہیں
Fatima Abdul Khaliq
About the Author: Fatima Abdul Khaliq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.