25دسمبر کو عیسائیوں نے کرسمس ڈے منایا جس میں بہت سے
مسلمانوں نے بھی کیک کاٹ کر ان سے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور اس خوشی
میں ان کے حامی قرار پائے آج سال نو کے جشن کا سماہے لوگ اپنی پسند کے
مطابق سال نو کا جشن منانے میں مصروف ہیں۔
دیکھا جائے تو تمام مذاہب اور قومیتوں کے مختلف تیوہار اور خوشی کے ایام
ہوتے ہیں ہر دن کے پیچھے کوئی نہ کوئی پیغام ضرور پوشیدہ ہوتاہے،مغرب نے
مادر ڈے، فادر ڈے، ویلنٹائنز ڈے وغیرہ متعارف کرایا جس کا مقصد رشتوں کی
پاسداری کرنا کیوں کہ مغرب میں ان رشتوں کو جس طرح سے باپامال کیاجاتاہے وہ
ہمارے سامنے ہیں بوڑھے والدین اولڈ ہوم کی نظر ہوجاتے ہیں،اپنی زوجہ کی
محبت کے بجائے وہ ہر دن ایک نئی لڑکی کے عشق میں مبتلا دیکھائی دیتے ہیں۔
مسلمانوں کیلئے عید کی خوشیاں ہیں جن کا مقصد مسلمانوں کو دکھ سکھ میں ایک
دوسرے کے ساتھ دینا ہے اوریہ عہد کرنا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہیں کریں گے۔
کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اس کے دکھ بانٹیں گے اور اس پیار ومحبت کو پورے
سال تک برقرار رکھیں گے، نئے سال کے جشن کی بات سمجھ سے بالا تر اور عقل
کیخلاف ہے کیونکہ دن تو شمار کیلئے بنائے گئے ہیں پھر گھٹتے وقت کے خسارے
پر غم کے بجائے خوشی کیسے منائی جاسکتی ہے ، آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ
آخر نئے سال کے جشن کی ابتدا کس نے، کیوں اور کب کی ؟بس اس کو ایک قدیم
روایات کے طورپر عیسائی مناتے ہیں جن کے نقش قدم پر اب مسلمان بھی چل پڑے
ہیں۔
آج سال نو کی سب سے بڑی تقریبات مسلم ممالک میں ہورہی ہیں بڑے بڑے ٹاورز
میں آتش بازی ،مبارکباد کے مسجز چلائے جاتے ہیں، سوشل میڈیا میں ڈھیر ساری
ویڈیوز سال کی خوش آمدید میں بنائی جاتی ہیں،افسوس ہم مسلمان غیر وں کی
نقالی میں اس حدتک گر چکے ہیں کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی اقدار وروایات جنازہ
نکال کر مغربی کلچر کیلئے میدان سجارہے ہیں جوشخص اسلامی سال کے پہلے مہینے
کی خبر نہیں رکھتا وہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظامِ تاریخ کے پہلے دن کا
جشن مناتا دیکھائی دے رہاہے۔
ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ،مسلمانوں کا اپنا قمری نظامِ تاریخ ہے جو نبی
کریمﷺ کی ہجرت سے شروع ہوتاہے ، جس پہلا مہینہ محرم الحرام ہے ، اکثر دوست
احباب اس کی آمد سے بے خبر ہوتے ہیں۔
میرا سوال اپنے مسلمان دوستوں سے آخر ہم سال نو کا جشن منائیں کیوں؟ صحابہ
نے نہیں منایا خلفائے راشدین کے زمانے کی کوئی ایسی روایت موجود نہیں اور
نہ ہی احادیث میں اس قسم کاکوئی تذکرہ موجود ہے ، پھر ہم غیروں کی پیروی
کرکے اپنی آخرت کیوں برباد کررہے ہیں ؟،یاد رکھیں عیسائی اگر سال نوکا جشن
مناتے ہیں وہ اپنا محاسبہ بھی کرتے ہیں ہر شخص اپنے اپنے دائرے میں رہ کر
اپنی کارکردگی کاجائزہ بھی لتیاہے مگر ہم ہیں دیکھا دیکھی غیروں کی تقلید
میں خود کو فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا جس نے بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے
ہے(ابوداد)
آج مسلمانوں کو اپنی روایات کی ناقدری نے احساس کمتری کا شکار بنادیاہے،ایک
مسلمان کی نظر میں نیا سال مسلمانوں کو متوجہ کرتاہے کہ وہ خوشی منانے کے
بجائے اپنا محاسبہ کریں، پورے سال کے اعمال کا جائزہ لیں ،کیا کھویا اور
کیا پایا ہے ، عبادات، معاملات،اعمال،حلال و حرام، حقوق اللہ اورحقوق
العباد کی ادائیگی کتنی کی ہے اور کتنا اس میں غافل رہے ہیں چہ جائے کہ ہم
خوشی منانے میں مگن ناچ گانوں کی محافل کا انعقاد، آتش بازی اور فضول خرچ
کرکے اللہ کے عذاب کو دعوت دیں۔ حضور کا فرمان ہے:
تم خود اپنا محاسبہ کرو،قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے
حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن مسلمان سے پانچ سوالات ہوں گے ،اپنی عمر کس کام
میں بسر کی؟اپنی جوانی کس کام میں صرف کی؟مال کس ذریعہ سے کمایا؟مال کو کس
راہ میں خرچ کیا؟اور جو کچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا؟(ترمذی)
تو آئیں ہم عہد کریں آج کے بعد مغرب سے آنے والے کسی بھی تہوار کو نہیں
منائیں گے اور نہ ہی ان کی نقالی کریں گے ۔ |