نیا سال نئی رُتوں کے ساتھ

میں نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ سال کے آخری دن کیا محسوس کر رہے ہیں تو انہوں نے بہت دلچسپ انداز میں جواب دیا جیسے ہی ہر سال 31دسمبر کا دن آتا ہے تو میرا دل پریشان سا ہو جاتا ہے اور مڑ کر دیکھتا ہوں کہ کیا کچھ کھویا ہے ؟ اس سال میں ،مزید اداس ہو جاتا ہوں جب سال بھر کو دیکھتا ہوں اور اپنے آپ میں بہت سی ناکامیاں پاتا ہوں ، کئی کمزوریا ں دیکھتا ہوں ، کہیں غلطیاں ملتی ہیں تو کہیں مایوسیاں ملتی ہیں جب خود احتسابی کرتا ہوں تو بہت تکلیف محسوس کرتا ہوں کہ یہ سال بھی گزر گیا ہے پچھلے سالوں کی طرح بغیر کوئی بہتری کے جب سوچتا ہوں کہ میرے رب نے تو اس لئے تخلیق کیا تھا کہ اسکی عبادت کروں کیو نکہ ساری تعریفیں میرے پیارے پروردگار کے لئے ہیں اور انسان کا فرض کلی بھی یہی ہے کہ اپنے رب کی رضا جانے اسکی عبادت کرے اور شکر ادا کرے مگر میری طرح اور بھی کئی انسان ہوں گے جو سال کے آخر دن میں جب خوداحتسابی کرتے ہیں تو اپنے پلے کچھ نہیں پاتے ہیں کیوں ؟ آخر کیاوجہ ہے کہ انسان صراط مستقیم سے ہٹ گیا ہے ؟وہ اپنے پیداکرنے والے کو کم وقت دیتا ہے اور کیا وجہ ہے کہ جب خود احتسابی کرتا ہے تو خود کو نقصان میں پاتا ہے؟ اس طرح کے اور کئی سوال ہیں مگر ان سوالوں کا جواب یہی ملتا ہے کہ انسان وقت کو غنیمت نہیں جان رہا آج کا دور جدید دور کہلاتا ہے آج کی دنیا بناوٹی ہے آج ہر انسان خود کو دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کی دوڑ میں ہے آپ چند لمحوں کے لیے پرسکون ہو کر اپنے ذہن پر زور ڈالیں اورا پنے ارد گرد کے ماحول پر نظر دوڑائیں اور ایک لسٹ تیار کرنا شروع کریں تو حیران ہو تے چلے جائیں گے ہر کوئی پیسے کی دوڑ میں نظر آئے گا ہر ایک اس دوڑ میں دوسرے کو پیچھے چھوڑ نے کے چکر میں پڑا ہوا نظر آئے گااور دوڑ میں رویہ یہ ہے کہ اخلاقیات کی بھی کو ئی پرواہ نہیں جائز اور ناجائز سب طریقے استعمال کئے جاتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ پیسہ برُی چیز ہے ۔ ہماری روزمرہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے پیسہ بہت اہمیت رکھتاہے ۔ روٹی، کپڑا ، مکان اور دیگر ضروریات زندگی ہم پیسے سے ہی پوری کرتے ہیں میرا اختلات صرف اس بات پر ہے کہ دولت جائز طریقے سے کمائی جارہی ہے یا ناجائز ۔ رزق دینے والا میرا رب ہے اور وہ ہر انسان کو اسکی ضروریات کے مطابق عطا فرماتا ہے بیشک سب کچھ اس کے اختیار میں ہے وہ دولت بھی عطا کرنے کا اختیاررکھتا ہے مگر اس کی پہلی رضا یہی ہے کہ انسان اسکی عبادت کرے اسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہے تن ڈھانپنے کے لیے کپڑوں کی ضرورت ہے ، رہنے کیلئے مکان کی ضرورت ہے سفر کرنے کے لئے سواری کی ضرورت ہے یہ سب ضرورتیں زندگی بسر کرنے کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں اور کسی ایک ضرورت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے جیسے کہ تحریر کے آغاز میں پریشانی اور مایوسی کا ذکر کیا گیا ہے صرف اسی وجہ سے کہ آج کا انسان بشمول میرے اس بناوٹی دنیا میں رہنے کے لیئے ضرورتوں تک ہی محدود رہ گیا ہے اور جب تک زندہ رہتا ہے ضرورتوں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے بس اپنے آپ سے ہی غرض رہتی ہے حقوق خدا اور حقوق العباد سب کچھ بھول گیا ہے محبت، پیار، خلوص،احساس، برداشت انسانی رویے سے یہ خوبیاں بتدریج کم ہوتی جارہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم پر آزمائشیںآرہی ہیں ہم مشکلات سے نکلنے کی بجائے مزید پھنستے جارہے ہیں اپنے رسم و رواج کی بندش میں جکڑ تے جارہے ہیں حقوق خدا اور حقوق ا لعباد سے غافل ہوگئے ہیں ۔ لالچ ، برائی اور دیگر گناہوں میں دھنستے جارہے ہیں سو میرا ایمان ہے کہ جب بھی کوئی انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو میرا رب اسکو معاف کر یتا ہے کیو نکہ وہ معاف کرنے میں قادر ہے وہ چاہتا ہے کہ انسان اسکی قربت میں رہے اس کے حقوق کو پور ا کرے سُو اس سال کے آغاز پر پُرانی رُت کو اپنا نے اور اس بناوٹی دنیا کے رسم ورواج میں اپنی نا ختم ہونے والی ضرورتوں کے چنگل میں پھنسنے کی بجائے سب سے پہلے اپنے بھیجنے والے کی اطاعت کرو پُرانی رُت کی جگہ نئی رُت کو اپنایاجائے جس میں دل وجان ، عقل و شعور اور طاقت کے ساتھ خدا ذولجلال سے محبت کی جائے۔ کیونکہ اس بناوٹی دنیا میں زندگی کی کیا معیاد ہے؟ کب ختم ہوجائے کوئی نہیں جانتا سوائے خدا وند کریم کے۔ عبادت اور اچھے اعمال ہی کام آئیں گے قیامت کو ہر لمحہ یاد رکھنا چاہیے اس لیے سا ل کے آغاز ہی میں خدا تعالیٰ کی عبادت کریں اچھے اعمال کریں خدا اور اسکی مخلوقات کے حقوق کو پورا کرنے کی کوشش کریں میرا ایمان ہے کہ خداوند کریم سب کچھ عطا کرے گااسکے خزانے میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے دنیا میں رہتے ہوئے سب سے محبت ، خلوص سے پیش آئیں، سب سے اچھا برتاؤ رکھیں، بری عادتوں کو ترک کریں ، محنت کریں ، صبر و تحمل اور خود اعتمادی جیسی خوبیوں کو اپنائیں دوسروں کے لئے آسانیا ں پیدا کریں جائز اور ناجائز میں فرق رکھیں اگر ایسے رویے پورا سال رکھیں گے تو دسمبر کے آخری دن میں یہ نہیں سوچیں گے کہ کیا کھویا ؟ بلکہ خوشی محسوس ہوگی کہ اس سال بہت دلی سکون و اطمینان حاصل کیا اور اپنی نئی رُت کا تجربہ دوسروں سے شیئر کرتے جائیں۔ میری دعا ہے کہ اس سال خدا آپکو اور آپکے خاندان کو ڈھیروں خوشیا ں عطا فرمائے آمین !

Karamat Masih
About the Author: Karamat Masih Read More Articles by Karamat Masih: 36 Articles with 23775 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.