’’ میری بکل دے وچ چور ‘‘ (قسط نمبر1)

 با با بلہے شاہ جی فرما گئے ہیں
بکل دے وچ چور ،نی ،مری بکل دے وچ چور
سادھو کس نوں کو ک سناں: میر ی بکل دے وچ چور
چوری چوری نکل گیا تے جگ وچ پے گیا شور
بکل دے وچ چور،نی،مری نکل دے وچ چور
ہماری پولیس چونکہ دیسی ولایتی مجروں کی شوقین ہے ا س لئے بابا جی کا یہ کلام یقینی طور پر ان کے لئے قابل فہم نہیں ہو گا لیکن پولیس پر پوری طرح سے صادق آتا ہے کیونکہ چند روپوں کی ہیرا پھیری پر چھوٹے موٹے چوروں پر رولر چلا دینے والی پولیس کی اپنی بکل کے اندر سے کروڑوں روپے اڑانے والا چور نکل آیا ہے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سٹی پولیس آفس میں ڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ کی خرد برد ثابت ہوگئی ہے،سی پی او آفس کا اکاؤنٹنٹ اقبال ،سینئر کلرک عقیل عباس اور دیگر ملوث ہونے پر معطل کر دیئے گئے( ویسے بھی یہ اکیلے چور نہیں ہوں گے ) ، اس کیس کی 32صفحات پر مشتمل طویل ایف آئی ر درج کی گئی ( کوئی پڑھ ہی نہ سکے ۔۔۔سیاپاختم ) سی پی او معاملے کے خود مدعی بن گئے ہیں ،وہ جتنی چاہیں گے پیروی کریں گے اور معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی کیس داخل دفتر کر دیا جائے گا۔
ٌٌٌّٔٔبنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

اس خبر کی سرخی تو یہ بنتی ہے کہ ’’عوام کے خون پسینے کی کمائی محافظوں نے لوٹ لی‘‘ یا ’’قانون کے رکھوالوں نے عوام کے پیسے سے اپنی ہوس مٹا لی‘‘ اسلئے خبر کی اشاعت کے باوجود تشنگی باقی ہے۔۔۔یہ ہے پولیس کا وہ اصلی چہرہ جو اسقدر بھیانک ہے کہ اگر کوئی چھوٹی موٹی جھلک کسی اور چہرے کی تخلیق کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو اس خوفناکی کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے ۔۔۔ کہیں پیسے کی تو کہیں کسی ملزمہ کی شکل میں قابو آئے جسم کی اندھی ہوس ہے جسے قانون کے یہ محافظ اپنے ہی دفاتراور تھانوں تک میں بھی مٹانے سے باز نہیں آ رہے ۔ سوچیں یہ ان دفاتر سے باہر کیا کرتے ہوں گے ۔۔۔سپہ سالار کی آنکھ اب کھلی ہے ۔۔ جب ملازمین کی ڈبل تنخواہیں نکلوانے کاکھیل جاری تھاوہ اور دیگر افسران کہاں سوئے ہوئے تھے ۔۔۔؟ سی پی او آفس میں ثابت ہونے والی یہ کرپشن انہی سطور میں بارہا کی گئی اس نشاندہی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پولیس کا موجودہ نظام قانون کی عملداری میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے،دوسرے سرکاری اداروں سے کہیں زیادہ کرپشن اور لوٹ مار اور جرائم کاگڑھ ہے ،اندازہ کریں کہ سٹی سپہ سالار کے دفتر میں بیٹھے ہوئے چوروں پر قانون کا ذرا سا بھی رعب و دبدبہ نہیں ہے جو ایک کروڑ نہیں عوام کے خون پسینے کی کمائی کے نہ جانے کتنے کروڑ ڈکار گئے ہوں گے ۔خبر کی تہہ تک جا یا جائے تو ان دفتری امور نمٹانیوالوں کے پیچھے کئی باوردی افسران بھی برآمدہوں گے جن کانام سامنے نہیں لایا جا رہا ہے ، سپہ سالاراپنی مسلسل ناکامی چھپانے کے لئے ملبہ دفتری سٹاف میں سے چند ایک پر ڈال کر انہیں قربانی کا بکرا بنائے اور خود ہی مدعی اور منصف بن کر انصاف کا گلا دبائے رکھے یہ اسکی مرضی ۔۔۔ بد بو اب بکل سے نکل کرتھانوں اور سی پی او آفس کی اونچی دیواروں سے باہر آگئی ہے ۔۔مگر آپکی ناک خوشامد کرنے والے رنگ بازوں اور ٹاؤٹوں کی جانب سے تعریفوں کی روئی ٹھونسنے سے بند ہوچکی ہے اس لئے بکل کے چور کے وجود سے اٹھنے والی اس سڑاند کا آپ کو پتا ہی نہیں چل رہا ، پولیس کرپشن ،زناء جوئے، جسم و منشیات فروشی کی یہ بدبو پورے معاشرے میں پھیلا رہی ہے اور اسے گندا کر رہے ہیں ،آپ نے گلیوں ،محلوں اور سڑکوں پر عوام الناس کو کیا خاک انصاف اور تحفظ فراہم کرنا ہے یاد رکھیئے قانون کی عملداری اپنے دفتر میں بیٹھ کر روس اور چین کی کہانیاں سنانے اور ترقی یافتہ ملکوں کی مثالیں دینے سے نہیں ہو سکتی۔۔ آپ کی تو اپنی بکل میں ہی میں چورڈاکو لٹیرے بیٹھے ہیں جو پولیس کی نیک نامی میں ہر روز اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں ، پولیس ایک کرپٹ ،بدعنوان اور بدنام زمانہ فورس ہے یہ عام آدمی کی پختہ رائے ہے اور اسکے لئے کسی دلیل یا ثبوت کی ضرورت ہی نہیں ،ہاں البتہ پولیس افسروں کی کارکردگی کی مدح سرائی گنتی کے چند ٹاؤٹ ضرور کرتے ہیں اورجھوٹی ایف آئی آرزدرج کرانے والے کو انکی خدمات درکار ہوتی ہیں ، سنتے ہیں کہ پولیس کا ہے فرض مدد ہماری ۔۔۔جی بالکل مال کھا کر مخالفین کو رگڑنا ہو تو پولیس اس کام میں واقعی مددگا ر ہے۔

جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی تھیں گو جرانوالہ پولیس نے سال 2016میں اپنی کارکردگی( کارستانی پڑھا جائے ) کے اعدادو شمار جاری کر دیئے ہیں جن کے مطابق گوجرانوالہ میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے ۔۔۔یہ رپورٹ جسے پولیس ترجمان نے اخبار وں کے مدیران کے ترلے لے لے کر شائع کرایا ہے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ ہے نہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نہ کسی اور آزاد ادارے کی ۔۔یہ تو پولیس کی مرتب کردہ وہ داستان مبالغہ ہے جس پر کوئی کیا یقین کرے گا اسے تھانوں (مذبحہ خانوں پڑھا جائے ) کے منشیوں اور سی پی او آفس جیسے لٹے پٹے دفترمیں بیٹھے ماتحتوں نے اپنے صاحبوں کی منشاء کے مطابق تیار کیا ہے سو معاف کیجئے اسکی اشاعت سے بکل کی بدبو تو کم نہیں ہوئی۔۔۔ حضور کسی غریب ،کمزور کا بغیر ’’فیس ‘‘کے پرچہ آپ کے تھانوں میں کٹتا نہیں اورایف آئی آرز کے انداراج میں اس کمی کو آ پ جرائم کی شر ح میں کمی بنا کر پیش کرر ہے ہیں ۔۔۔ دفتر میں گپ شپ سے فرصت ملے تواگلی بار یہ بھی بتا دیجئے کہ کتنے مجبور اور بدحال لوگ’’ فیس‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے پرچہ درج نہ کرا سکے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے لٹ جانے کے بعد مزید لٹنے کے ڈر سے تھانے جانے جیسے فضول کام کو اہمیت ہی نہیں دی اور ذرا رازداری سے یہ بھی فرما دیں کہ سال 2016 ء میں گوجرانوالہ کے تھانوں سے کتنا’’ مال غنیمت ‘‘اکٹھا کیا گیا ، رشوت کے عوض کتنے ملزمان چھوڑ دئیے گئے اور کتنوں پر ہاتھ ہی نہیں ڈالا گیا،پولیس کاٹاؤٹوں کے ذریعے مال بنانے کا ٹارگٹ پورا ہوا کہ نہیں ۔۔۔؟تتلیوں کا دھندہ کرنے والی آنٹیوں اور گلی گلی جوئے کرانے والوں سے وصولی کی شرح کیا رہی ۔۔۔ 2016ء میں ہماری ’’اچھی اچھی ‘‘پولیس کی سرپرستی میں پوڈر زیادہ بکا یا شراب۔۔۔یا پھر چرس۔۔؟

اگلی قسط میں آپکو ایک دلچسپ پولیس کہانی سنائیں گے فی الحال اس نظم سے کام چلائیں جسکا عنوان ہے پولیس کا بچہ((مال اکٹھا کر کے دینے والا کاکا سپاہی )
پیش خدمت ہے۔
پولیس کا ’’بچہ ‘‘
کھاتا تھا رشوت
پیتا تھا ’’پانی‘‘( وہ والا پانی جسے تھانے سے خرید کر کرسمس منائی جاتی ہے)
ایک دن ناکے پر
بیٹھا ہوا تھا
پکڑ کے تھانے
مجھکو لیجانے لگا تھا
میں نے نوٹ دکھایا
وہ لے کے مسکرایا
واپس نہ آیا۔(جاری ہے)
Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 76345 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.