نوسر بازیاں (حصہ اوّل)
(M.Irfan Chaudhary, Lahore)
ایک ہزار روپیہ جمع کروا دو تمہاری نوکری
پکی ہے یہ وہ فقرہ تھا جس سے میں زمانہ طالب علمی کے بعد پہلی بار روشناس
ہوا تھا نہ کوئی واقف کار اور نہ کوئی کام کا تجربہ جدید مادیت سے مبراء
سوچا شائد نوکری لینے کا یہی طریقہ کار ہوچنانچہ سائیکل کا پیڈل مارا اور
فراٹے بھرتا گھر واپس آیا اور ابا جی کو نوکری ملنے کی خوشخبری سُنائی ماں
پھولے نہیں سما رہی تھی کہ بیٹے کو پُورے پندرہ سو ماہوار کی نوکری مل رہی
ہے وہ بھی آفس بوائے کی اب بیٹا بابو بنے گامگر میری خاموشی دیکھ کر ابا جی
نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ نوکری کے لئے ایک ہزار روپیہ سکیورٹی فیس جمع
کروانی ہے اُس زمانے میں ایک ہزار روپیہ بہت بڑی رقم تھی چنانچہ جیسے تیسے
کر کے ابا جی نے کہیں سے قرض لے کر مجھے ایک ہزار روپیہ تھما دیا میں اگلے
ہی روز دفتر جا پہنچا اور مینجر صاحب کو ایک ہزار روپیہ بطور سکیورٹی جمع
کر وا دیا پھر کیا تھا آئے روز ٹیسٹ سیشن، انٹرویو اور دفتر کے چکر اسی
اثناء میں ایک مہینہ گزر گیا اور پھر ایک دن سارا دفتر ہی تبدیل نئے لوگ
نیا فرنیچر پتہ چلا کہ وہ نوکری دینے والا دفتر نہیں بلکہ نوسر بازی کرنے
والا دفتر تھا اور میری طرح کے کئی اور نوجوان بھی بابو بننے کے چکر میں
رقم لُٹا چکے تھے نوکری تو ملی ہی نہیں ساتھ میں ایک ہزار روپیہ گنوا کر
گھر واپس آگیا خواری علیحدہ سے اور ابا جی کے چھتر اور ماں جی کا چمٹا بابو
تو بنے نہیں البتہ بھوت ضرور بن گیا اُس دن سوچا کہ اب کی بار یقین نہیں
کروں گاکسی دفتر والے پر ، کافی عرصے بعد ایک سڑک پر گزرتے ہوئے باریش شخص
نے آواز دی قدم تھمے ادب سے سلام کیا اور روکنے کی وجہ دریافت کرنے پر
بتایا گیا کہ فلاں جگہ کا پتہ پوچھنا چاہتے ہیں چنانچہ اتنے میں ایک اور
شخص وارد ہوا اور مجھ سے میری فیملی کے متعلق استفسار کرنے لگا سو بتا دیا
اتنے میں وہی باریش شخص پھر سے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم بھائی اتنی
تعداد میں ہو میں سوچ میں پڑ گیا کیونکہ اُنکی بتائی ہوئی ترتیب اور تعداد
ایک دم ٹھیک تھی اسی دوران دوسرا والا شخص بولا سبحان اللہ ! سید صاحب آپ
یہ سب کیسے جانتے ہیں آپ کوئی عظیم ہستی لگتے ہیں جس پر سید صاحب نے اپنا
تعارف ایک باریش اور پہنچی ہوئی شخصیت کے طور پر پیش کیا جس پر دوسرا والا
شخص سید صاحب کے ہاتھ کا بوسہ لینے لگا اور عقیدت مند نظر آیا میں خاموش
تماشائی سارا واقع دیکھتا رہا اسی اثناء میں سید صاحب نے دوسرے شخص سے کوئی
بات کی جس پر اُس نے اپنا بٹوہ نکال کر سید صاحب کے حوالے کر دیا اور خود
اُلٹا منہ کر کے چالیس قدم چلنے لگااِسی دوران میں مبہوت کھڑا رہا وہ شخص
چالیس قدم آگے جا کر واپس آگیا تو سید صاحب نے بٹوہ واپس کرتے ہوئے رزق میں
اضافے کی نوید سنائی اور ساتھ تاکید فرمائی کہ روز چڑیوں کو دانہ ڈالا کرو
اللہ مزید برکت عطا فرمائے گا اتنے میں دوسرا شخص میرے پاس آیا اورسید صاحب
کے قصیدے سنا کر مجھے اپنا بٹوہ سید صاحب کے حوالے کرنے کو کہا جو میں نے
کر دیا اور چالیس قدم چلنے لگا جونہی چالیس قدم چل کر پلٹا گویا میری کایا
ہی پلٹ گئی
’’ کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا
خُدا کے خوف سے دل لرزتے رہتے ہیں
اُنہیں کبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا‘‘
دماغ مندر کی گھنٹیوں کی طرح ٹن ٹن بجنے لگا کیونکہ سید صاحب اور اُن کے
حامی میری تنخواہ 2500 روپے بمعہ داخلہ فیس 2500 سے لے کر رفو چکر ہو چکے
تھے اور مجھے پورے 5000 روپے کا چونا لگ چکا تھا اور کمال یہ کہ وہاں موقع
پر موجود دکاندار حضرات میں سے کسی نے بھی یہ واقع نہیں دیکھا
’’ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چُھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں‘‘
تب میں نے سوچا کہ اب کبھی بھروسہ نہیں کرونگا کسی باریش شخص پر اور تب سے
لے کر آج تک روز چڑیوں کو دانہ ڈالتا ہوں،جیسے تیسے کر کے پرس چوری کا
بہانہ بنا کر ابا جی سے پانچ ہزار نقد لئے اور اگلے دن کالج پہنچ گیا
ڈسپنسر کورس کا داخلہ لینے پُورے پانچ ہزار روپے داخلے کی مد میں جمع
کروائے اور کوئی تین مہینے ہی گزرے ہوں گے کہ خبر آئی پنجاب میڈیکل فیکلٹی
میں سالانہ امتحان کے لئے فیس جمع کروانی ہے اور صرف وہی طالبعلم امتحان
میں بیٹھ سکتے ہیں جن کی میٹرک کے سائنس مضامین میں 50% نمبر ہیں ہائیں
مجھے تو کہا گیا تھا کہ 45% نمبر والا بھی امتحان دے سکتا ہے اُس دن سے
سوچا کہ کبھی ڈسپنسر نہیں بنُوں گا، ایک دن انٹرنیٹ پر اشتہار دیکھا کہ گھر
بیٹھے پیسے کمائیں سوچا مہنگائی بہت ہو گئی ہے اور ایک تنخواہ میں گزارہ
نہیں ہوتا تو چلا میں بھی گھر بیٹھے پیسہ کمانے اور ایک دوست کے توسط سے
چھان بین کرنے کے بعد مطمئن ہو گیا اور پورے پانچ ہزار روپے نقد ممبر شپ
فیس کی مد میں کمپنی کو جمع کروا دیے ایک مہینے تک کام کرنے کے بعد کوئی
تین ہزار روپے کمپنی کی طرف سے موصول ہوئے جس کو دیکھتے ہوئے چند اور دوست
اس کام میں شامل ہو گئے اور پانچ ہزار فی کس کے عوض ممبر شپ حاصل کی اور
لگے کام کرنے دو مہینے خوب کام کیا اور جب کام کے پیسے لینے کی باری آئی تو
ویب سائٹ بند اُس دن سے سوچا کہ کبھی گھر بیٹھ کرکام نہیں کروں گا، ایک بار
دوست کے ساتھ لاہور کے ہال روڈ پہ جانے کا اتفاق ہوا کیونکہ دوست کو ایک
عدد موبائل درکار تھا ہال روڈ پہ دائیں بائیں نظریں پھیرتے ہوئے ایک دُکان
پہ رش لگا دیکھ کر ٹھہر گئے اور معلوم ہوا کہ ایک لڑکا مہنگا موبائل سستے
داموں بیچ رہا ہے مگر ہال روڈ کے دکانداروں کی پالیسی کے مطابق وہ راہ چلتے
موبائل نہیں بیچ سکتا سو سستے موبائل کی لالچ میں دوست کی زبان باہر آ گئی
اور چلے اُس کے پیچھے پیچھے آگے جا کر پُورے اٹھارہ سو روپے میں سودا طے
ہوا اور نوکیا کا استعمال شُدہ موبائل لے لیا مگر موبائل بیچنے والا یوں
غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ خیر ہم نے موبائل آن کیا مگر بلا سُود
چنانچہ مکینک کو موبائل دکھایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ موبائل نہیں بلکہ اُس
کی ڈمی تھی ہائے رے قسمت دوست تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچا مگر اُس کو اپنے ابا
جی سے ہونے والی چھترول نظر آ رہی تھی لہذٰ ا اُ س کی پریشانی کو بھانپتے
ہوئے اپنی جیب میں سے دُکان سے نیا موبائل خرید کر دیا اور عہد کیا کہ
آئندہ سے چلتے پھرتے لوگوں سے موبائل نہیں خریدیں گے، ایک دن دُکان پہ
بیٹھے جوگی کی آمد ہوئی لال چولا ، ہاتھوں میں کڑے، گلے میں موتیوں کے ہار،
بالوں میں خاک کی چاندی اور دس اُنگلیوں میں بیس انگوٹھیاں گرمی کا موسم
اور پاؤں جُوتی سے آزاد صدا لگائی ہے کوئی اللہ کا بندہ جو جوگی کو پانی
پلا دے مَیں آگے بڑھا اور ٹھنڈے پانی کا گلاس پیش کیا اور یوں باتوں باتوں
میں ’’ گیڈر سنگھی‘‘ کا ذکر چل نکلا جوگی نے فوراََ چولے میں سے گیڈر سنگھی
کا بچہ نکالا اور تاکید کی کہ اِس بچے کو سندور میں رکھنا لونگ کے ساتھ چند
مہینوں بعد یہ بڑی ہو جائے گی اور آپ مالا مال ہو جائیں گے مَیں نے بھی
فوراََ مالِ غنیمت جانتے ہوئے گیڈر سنگھی کو جوگی سے لے لیا اور بطور
نذرانہ پانچ عدد دودھ کے ڈبے اور پُورے ڈھائی سو نقد دے کر جوگی کو رُخصت
کیا اور لگا گیڈر سنگھی کے بڑے ہونے کے انتظار میں مگر نہ وہ بڑی ہوئی اور
نہ پھر کبھی جوگی نظر آیا۔
’’دل درد کی شدت سے خون گشتہ و سی پارہ
اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشی و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگی ہے کہ بنجارہ‘‘
اُس دن سے سوچا کہ کسی جوگی پہ یقین نہیں کروں گا۔
’’جوگی بھیس وٹائی پھر دے
تانگ سانوں جوگ دی لائی پھر دے
جاندیاں لائی ایسی اَگ اندر من دے
اجے تک عرفان بھانبھڑ مچائی پھر دے‘‘ |
|