معاشرے میں اِک سوچ

سارا سارا دن سڑکوں کے کنارے بیٹھ کر ہماری راہ تکتے رہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں ہاتھوں کی کمائی سے زہر بھی کھا لیں لیکن مانگ کر کھانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں

 السلام علیکم امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے بہت مصروفیت کے بعد آج رات مجھے قلم اٹھانے کا خیال آیا ،لیکن اپنے خیالات میں سے چند کو اپنی کاپی میں قلمبند کرنے کا خیال آیا۔اس میں بھی میرا من لڑ رہا تھا کہ چھوڑو بھئی ،بہت سے قلمکار ہیں تولکھنے کی کیا ضرورت؟لیکن میرا ہاتھ میرے جذبات و احساسات میرا قلم آخر کار جیت کی خوشی لئے اٹھ ہی گیا اور کچھ ہی لمحوں کی تاخیر سے یہ تحریر شروع ہوئی۔لکھنا شروع کیا تو ہاتھ قابو میں نہیں آرہے تھے لیکن میں نے بھی ان کو ماموں بنانے کی کوشش کی ،وہ ایسے کہ میرے پاس لکھنے کے لئے تو بہت کچھ تھا لیکن یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں ؟ کون سا عنوان قارئین کو لبھائے گا؟ کون سا عنوان میری تحریر کو خوبصور ت بنائے گا؟کون سا عنوان توجّہ کا مرکز بنے گا؟ کیونکہ اگر میں نے ہاتھ ،جذبات و احساسات کو نہیں تھاما تو تحریر بہت طویل ہوجائے گی اور جو آپ قارئین ہیں ان میں سے اکثر پوری نہیں پڑھیں گے ،اکثر اس کی طوالت دیکھ کر چھوڑ دیں گے اور چند ہی ہوں گے جو پڑھیں گے ان میں سے بھی نوجوان کم اور بزرگ زیادہ ہوں گے۔حالانکہ میں جوانوں اور نوجوانوں کو مخاطب اور متوجہ کرنا چاہ رہا ہوں ۔اسی لئے میں نے قلم اٹھایا اور اس تمہید اور کیفیت کے بعد امّت مسلمہ کے حالات کے بارے میں لکھنا شروع کیا ابھی توجہ ہی چاہی تھی ہمارے معاشرے لوگ بھی عجیب ہیں۔ یارو دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں میں کھانے اڑاتے ہیں تو اتنا منگوا لیتے ہیں کہ کھایا نہیں جاتا۔ جلسوں میں نعت خوانوں پر اور شادیوں میں ڈانس کرنے والی رقاصاؤں پر نوٹوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ نجومیوں اور جعلی عاملوں کے آستانوں پر ساری کی ساری جمع پونجی لٹا آتے ہیں. سیر و تفریح پر جانا ہو یا دوستوں کو ٹریٹ کھلانی ہو تو حاتم طائی بن بیٹھتے ہیں۔ پیشہ ور بھکاریوں پر مہربان ہو جائیں تو نوٹوں کی لائن لگا دیتے ہیں، جبکہ شرطیں لگانے میں تو کوئی ہماراثانی نہیں. لیکن جب باری ان لوگوں کی آتی ہے، جو بے چارے دیہاڑی لگنے کی لالچ میں سارا سارا دن سڑکوں کے کنارے بیٹھ کر ہماری راہ تکتے رہتے ہیں۔ یہ اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا پیٹ کمر سے لگ رہا ہوتا ہے، کئی کئی وقت ان کے گھروں کا چولہا نہیں جلتا. یہ غیور اتنے ہوتے ہیں کہ ہاتھوں کی کمائی سے زہر بھی کھا لیں لیکن مانگ کر کھانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ہماری کوئی ادا انہیں اچھی لگ جائے تو یہ جان چھڑکنے سے بھی گریز نہ کریں، جبکہ دوسری طرف ہمیں ان سے کام پڑ جائے تو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ یہ پانچ سو روپے مزدوری والا کام صرف سو روپے میں جبکہ سو روپے مزدوری والا کام فری میں کر دیں۔ یہ بھی ایسی مٹی کے بنے ہوتے ہیں کہ بھوک کی خاطر فوراً سستا کام کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔ ان کی اسی رضامندی پر ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور سستا سودا طے پا جانے پر اپنے آپ کو افلاطون سمجھتے ہوئے دل ہی دل میں اس غریب کی سادگی پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔اس پر کیاخوب علامہ اقبال نے کہا ہے
مکر کی چالوںسے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھاگیامزدورمات

میں اور آپ اگر جان جائیں کہ یہ مزدور کون ہیں تو ہم دنیا کے سارے پیروں، فقیروں اور ملنگوں کو چھوڑ چھاڑ کے ان کے پاس دعائیں کروانے آ جائیں۔ کیوں کہ یہ وہ خمیر ہے جس سے رسول ِکریم ﷺ بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ ایک موقع پر ایک مزدور صحابی نے حضور ﷺکو سلام کیا تو آپ ﷺ کو ایسے لگا جیسے ان کے ہاتھ زخمی سے ہوں۔ آپ ﷺنے فوراً ان کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا اور ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ وہ صحابی کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ ہاتھوں سے کام کرنے کی وجہ سے ان پر چھالے بن گئے ہیں. جانتے ہیں اس پر آپﷺ کا رد عمل کیا تھا؟ آپ ﷺنے اس محنت کش کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور تین مرتبہ فرمایا ”ھذہ یدلا تمسہ النار“ کہ یہ وہ ہاتھ ہیں جنھیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ ان مزدوروں اور محنت کشوں سے ہمارے آقا ﷺ کو اتنی محبت تھی کہ ایک موقع پر ان کے لیے سفارش فرمائی کہ ان لوگوں کو تنگ نہ کیا کرو اور انہیں ان کی مزدوری ان کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے ادا کر دیا کرو۔ انہی کی روکھی سوکھی روٹی کے بارے میں یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ ”دنیا کا کوئی کھانا اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھائے ہوئے کھانے سے بہتر نہیں“۔ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے دیکھا کہ حضرموت سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی کمال صفائی سے اپنے فن کا مظاہرہ فرما رہے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ”خدا اس پر رحم فرمائے جو کسی صنعت میں کمال پیدا کرے“. پھر ان صحابی سے فرمانے لگے ”تم یہ کام مت چھوڑنا، بلکہ محنت سے اس کام پہ لگے رہو کیوں کہ مجھے نظر آ رہا ہے کہ تم اس کام کو عمدگی سے کرتے ہو۔“

بہت سے درمیانے یا ذرا اچھے گھروں کے لوگ برا وقت آجانے پر ہاتھ سے کمانے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے تو حرام کھانا گوارا کر لیتے ہیں لیکن کام کرنا اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ میں نے خودکالج لائف میں ایک طالب علم کو صرف اس بات پہ رسوا ہوتے دیکھا کہ اس کا باپ اتوار بازار میں ٹھیلا لگاتا تھا۔ بخدا! یہ ہاتھوں سے کما کر کھانے والا عمل اگر معیوب ہوتا تو کبھی داود علیہ السلام لوہے کا کام نہ کرتے، کبھی نوح علیہ السلام لکڑیوں پر آرے نہ چلاتے، کبھی بھی ادریس علیہ السلام لوگوں کے کپڑوں کی سلائی نہ کرتے، ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام کا نام بھی آج تاجروں کی فہرست میں نہ ہوتا، ابراہیم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام یوں کھیتوں میں ہل چلاتے نظر نہ آتے، نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کو گلہ بانی کی ضرورت پیش آتی، یوں ہی سلیمان علیہ السلام ٹوکریاں اور زنبیلیں بنا بنا کر فروخت نہ کرتے اور نہ ہی تھوڑی سی اجرت کے عوض میرے اور آپ کے آقاﷺ دوسروں کی بکریاں چراتے. جب انبیائے کرام محنت کرنے سے نہیں گھبرائے تو ہمارا سٹیٹس ہی کیوں ہماری حلال کمائی میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے؟؟ذرا سوچیے۔۔۔!
M Attique Aslam
About the Author: M Attique Aslam Read More Articles by M Attique Aslam : 9 Articles with 5966 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.