اقلیت کے لغوی معنی کم تعداد یا تھوڑے کے
ہیں لیکن اصطلاح میں اقلیت کا استعمال عموما مذہب کے باب میں کیا جاتا
ہے،یعنی کسی ملک یا معاشرے میں عوام کی عظیم اکثریت کے مذہب کے علاوہ کسی
دوسرے مذہب کے حامل طبقے یا طبقات کو اقلیت کہا جاتا ہے۔ دنیا کے تمام
معاشرے اور قانون نہ صرف اقلیتوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں بلکے باقاعدہ
اقلیتوں کو حقوق بھی فراہم کرتے ہیں۔بلکے آج کے اس جمہوری دور میں مسلم اور
مغربی دونوں معاشروں میں اقلیتوں کا اصل تصور ہی قریبا معدوم ہو چکا ہے۔
مغرب میں سکیولرازم اور جمہوریت کی بنیاد پر تمام افراد کو بلا تخصیص مذہب
برابر کی شہریت حاصل ہے تو اسلامی دنیا نے اگرچہ مذہب کے ساتھ اعلی اعلان
اپنا تعلق قطع تو نہیں کیا لیکن جمہوریت کی ہی بنیاد پر یہاں بھی اقلیتوں
کو برابر کا درجہ حاصل ہے تو گویا یوں قانونی اور آئینی سطح پر تو اقلیتوں
کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے لیکن عوام کے مجموعی رویوں اور زمینی حقائق
میں اقلیتوں کا تصور بہرحال موجود ہے خصوصا مسلم معاشروں میں جہاں عام عوام
کا مذہب کے ساتھ جذباتی یا حقیقی بہر حال ایک نمایاں تعلق پایا جاتا ہے۔
اقلیتی طبقوں کو درپیش خطرات اور مسائل میں سب سے بڑا مسلہ یا خطرہ مذہب کی
جبری تبدیلی کا ہے۔اس سلسلے میں مختلف غیر سرکاری اور غیر ملکی تنظیمات کی
جانب سے اقدامات کے مطالبے بھی کیے جاتے ہیں اور حکومتی سطح پر بھی قانون
سازی کی جاتی ہے لیکن قوانین جرائم کی نوعیت اور سزا کا تعین کرتے ہیں اور
ظاہر ہے کہ قوانین اور سزا سے قوم کی اصلاح اور تربیت تو ممکن نہیں ہے، اس
کے لیے لاز م ہے کے قانونی اقدامات کے ساتھ ساتھ قوم کی ذہنی و فکری سطح پر
بھی تربیت کی جائے تا کہ انتہا پسندانہ سوچ اور قوم کے مجموعی رویوں میں
تبدیلی واقع ہو۔
اسلام قلیتوں کو تمام تر حقوق عطا کرتا ہے،اوراقلیتوں کے حقوق اسلامی
تعلیمات کا ایک مستقل اور علحیدہ باب ہے۔اسلام جبری طور پر تبدیلی مذہب کی
کسی طرح بھی حمایت نہیں کرتا ہے بلکے اﷲ تعالیٰ نے قران پاک میں سورہ بقرہ
کی آیت نمبر 256 میں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ اسلام میں کوئی جبر نہیں
ہے۔
اسلامی بزور تیخ و تلوا رنہیں بلکے قولی، فعلی اور عملی تشہیر و تبلیغ سے
پھیلا ہے۔ اسلام میں تبدیلی مذہب اور دخول اسلام کی تین ممکنہ صورتیں ہیں
اول یہ کے کوئی شخص کسی مسلمان کی ذات و کردار سے یا کسی اسلامی معاشرے کے
مجموعی نظام سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لے، دوم یہ کہ کوئی شخص خؤد
مختلف مذاہب کا محققانہ جائزہ و مطالعے کرے اور تحقیق سے اسلام کو اپنے لیے
پسند کرے،اور سوم یہ کے مسلمانوں کی تبلیغ یا باہم گفتگو اور احسن بحث سے
کسی شخص کو اسلام کا قائل کیا جائے اور وہ اسلام کو اختیار کر لے۔چانچہ اس
بارے میں صیح بخاری کی ایک حدیث سے بات مزید واضح ہو جاتی ہے جس میں رسول
اکرم ﷺ نے فرمایا کے تین شخص ایسے ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے، حدیث بخاری
کی ترتیب کے مطابق پہلا شخص وہ ہے جو اہل کتاب میں سے ہو اور اپنے نبی پر
اور محمد ﷺ پر ایمان لائے۔
خالص اسلامی معاشرے میں یا نظام ریاست میں اقلیتوں کو اگرچہ ذمی اور دوسرے
درجہ کا شہری شمار کیا جاتا ہے لیکن شہریت کا یہ درجہ اقلیتوں کو ان کے
بنیادی حقوق بشمول مذہبی حقوق،آزادی، فلاح اور بہبود سے کسی صورت محروم
نہیں کرتا ہے، بلکے اقلیتوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست یا
حاکم وقت کی ذمے داری ہے۔چناچہ صیحح مسلم کی حدیث کے مطابق رسول اکرمﷺ نے
وصیت کی کہ ذمیوں کی ہر ممکن خاطر مدارت کرنا جیسے کے میں کرتا تھا۔اور
صیحح بخاری میں خلیفہ راشد حضرت عمر کی ایک روایت ہے جس میں ہے کہ خلیفہ
عمر خطاب نے (وفات سے تھوڑی دیر پہلے)فرمایا کہ میں اپنے آنے والے خلیفہ کو
اس کی وصیت کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا (ذمیوں سے) جو عہد
ہے اس کو وہ پورا کرے اور یہ کہ ان کی حمایت میں انکے دشمنوں سے جنگ کرے
اور انکی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے۔
اسلامی ریاست میں اقلیتوں سے جزیہ لیا جاتا ہے جس کے عوض انکو بنیادی
ضروریات زندگی،تحفظ جان و آبرو وغیرہ مہیا کیا جاتا چانچہ خلافت راشدہ میں
جب شام کا ایک شہر مسلمانوں کے زیر قبضہ آیا تو متعلقہ حکام نے وہاں کے
اقلیتی باشندوں سے (حسب قاعدہ) جزیہ لیا لیکن جزیہ کی وصولی کے بعد ایسے
حالات پیدا ہو گے کہ مسلمانوں کو وہ شہر چھوڑنا پڑا، اس موقع پر اسلامی فوج
کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید نے غیر مسلم راعایا کو بلایا اور انکی پوری
رقم یہ کہ کر واپس کر دی کہ ہم نے آپ سے آپکی حفاظت کے لیے جزیہ لیا تھا
لیکن اب چونکہ ہمیں اس شہر کو چھوڑنا پڑ رہا ہے اور ہم آپکی حفاظت نہیں کر
سکتے لہذا جزیہ کی رقم واپس کی جاتی ہے۔
اقلیتوں سے متعلقہ اسلامی تعلیمات کا جائزہ لینے کے بعد یہ سوال لازما ہر
ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آخر پھر پاکستان میں اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار
کیوں ہیں؟ میرے نزدیک اسکی تین بنیادی وجوہات ہیں، اول یہ کے پاکستان میں
حقیقی طور پر اسلام نافذ ہی نہیں ہے بلکے پاکستانی ریاست کے نظام کا دین
اسلام سے نہائیت خفیف اور برائے نام ساتعلق ہے، دوم یہ پاکستانی قوم حقیقی
قومی و ملکی سطح کی قیادت سے محروم ہے اور سوم یہ عوام میں دیگر مذاہب کے
بارے میں پائی جانے والی متشدادنہ اور انتہاپسندانہ سوچ کے خاتمے کے لیے
اصلاح و تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
ایک ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کی عظیم اکثریت کے ساتھ اقلیتوں کو
بھی تمام تر حقوق فراہم کرے، مذہب کی جبری تبدیلی کو نا ممکن بنایا
جائے،توہین مذہب اور ناموس رسالت ﷺ کے بے بنیاد الزامات کو قانونا جرم قرار
دیا جائے ، لیکن قانون سازی کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ عوام کی مجموعی طور
پر اس طرح تربیت واصلاح کی جائے کہ دیگر مذاہب کے بارے میں متشددانہ اور
انتہاپسندانہ سوچ کا خاتمہ ہو سکے۔ اب یہاں ایک آخری لیکن اہم سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ اقلیتوں یا غیر مسلموں میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ کیسے کی جائے
تواسکی ایک صورت تو یہ ہے کہ مختلف ذرائع اور وسائل سے غیر مسلموں تک اسلام
کی تعلیمات پہنچائی جائیں اور اسلام سے شناسائی پیدا کی جائے لیکن میرے
نزدیک اس کی بہترین اور اعلیٰ صورت تو یہ ہے کہ افراد کا انفرادی کردار اور
ریاست کا مجموعی نظام اسلامی حدود اور خطوط پر اس طرح استوار ہو کہ وہ نا
صرف دوسری ریاستوں کو بھی متاثر کرے بلکے انفرادی طور پر افراد کے اذہان
اور قلوب کو بھی اسلام کی صداقت اور حقانیت کا قائل کرے۔ |