اقلیتوں کے حقوق یا اسلام کے نفاذ میں نفاق

ہم مسلمان ریاست میں زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ اس ملک کو اﷲ کے نام پر حاصل کیا تھا ۔ اس ملک کا قانون اور آئین اسلام کے مطابق ہونا طے پایا تھا ۔ ایسی نظریاتی ریاست میں اسلام کے نفاذ کو آسان ہونا چاہیے اس کے برعکس حال میں اسلام کا نفاذ تو ایک جانب کسی غیر مسلم کے لیے اسلام قبول کرنا قانونی طور پر اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے والوں کی واضع طور پر حوصلہ شکنی کی جا سکے ۔

جس کی مثال سندھ اسمبلی میں پاس ہونے والا وہ بل ہے جس کی روح سے کسی غیر مسلم کے اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے اسلام لانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے ۔اسلام لانے پر پابندی کا یہ قانون شریعت اسلامیہ اور عدلیہ کے تقاضوں کے خلاف ہے۔کسی کو زبردستی اسلام لانے پر مجبور کرنا کسی صورت جائز نہیں لیکن کسی کو زبردستی دوسرے مذہب پر باقی رہنے کے لیے مجبور کرنا بد ترین زیادتی ہے ۔اقلیتوں کے حقوق کے نام پر اسلا م کو گزند پہنچانا کسی طور درست نہیں ۔ اقلیتوں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کو اپنے مذہب پر قائم رہنے ، اپنی مذہبی رسومات کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہو۔ کسی کو اس کا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہ کیا جائے ۔ملک میں ہر مذہب کی عبادت گاہیں محفوظ ہوں ۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ غیر مذاہب کے بچوں یا بالغوں کا اسلام میں داخل ہونا اس حد تک مشکل بنا دیا جائے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی مسلمان نہ ہو سکیں ۔ اسلام کو مانتے ہوئے بھی اپنے مذہب کی تبدیلی کو اعلیٰ اعلان نہ اپنا سکیں ۔

حالیہ دور میں کسی غیر مسلم کا اسلام کی جانب پیش قدمی پہلے ہی کسی دقت سے خالی نہیں انھیں معاشرے ، خاندان اور یہاں تک کہ خود مسلمانوں کی جانب سے بھی بے پناہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے مبادا کہ ایسا قانون تحریر ی طور پربنا دیا جائے کہ اسلام قبول کرنا ہی مشکل ہوجائے ۔ عمل کا معاملہ تو ایک الگ حیثیت رکھتا ہے ۔ اگر اس بل کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اگر اسلام قبول کرنے کے لیے عمر کی شرط واجب ہوتی تو حضرت علیؓ کے اسلام قبو ل کرنے کے بارے میں یہ نام نہاد لبرل کیا کہیں گے جنھوں نے صرف تیرہ برس کی عمر میں اسلام نہ صرف قبول کیا بلکہ ہجرت کے موقع پر نبی پاک ﷺ کے نائب کے طور پر مکہ میں رہے ۔آئیے اب دنیا کے دوسرے ممالک اور مذاہب کا جائزہ لیں ۔ پوری دنیا میں ایسا کوئی ملک، کوئی ریاست چاہے وہ سکیولر ہو یا کسی مذہب کی اکثریت ایسی نہیں جس میں مذہب کی قبولیت کے بارے میں اس قسم کا قانون بنایا گیا ہو جیسا یہ بل ہمارے ملک میں پاس کروایا گیا ۔ یہاں تک کہ خود پاکستان میں بھی کوئی مسلمان اگر اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہے تو اسے اس قسم کی کسی قانونی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن اگر کو ئی غیر مسلم اسلام قبول کر نا چاہے تو اسے قانونی دقتوں کا سامنا کرنے پڑے گا ۔
اس بل کے خالاف آواز اٹھانے والوں میں مولانا تقی عثمانی اولین لوگوں میں ہیں ۔مولانا تقی عثمانی نے اپنے فتویٰ میں اس بل کو ناجائز اور شریعت اسلامیہ کے مترادف قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس اقسم کے اقدامات یا بل کا شریعت میں کوئی جواز نہیں اور نہ ہی عدل و انصاف کی روح سے اس کی کوئی گنجائش ہے۔اسلام کی روح سے اگر کوئی سمجھ دار بچہ دین مذہب کو سمجھتا ہو اور اسلام لے آئے تو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔ اس کی مثال حضرت علی کرم اﷲوجہہ ؓ کی ذات بابرکات ہے جنہوں نے تیرہ برس کی عمر میں اسلام قبول کیااور نبی پاکﷺکی نصرت اور مدد کے طور پر جانے جانے لگے ۔اس بل کے مطابق کسی بھی شخص کا مذہب تبدیل کرنے کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے تو اس بات کی وضاحت بھی از حد ضروری ہے کہ قانوں شریعہ میں پندرہ سال جبکہ بعض معاملات میں پندرہ برس سے پہلے بھی بچہ بالغ ہو جاتا ہے ۔ایسی صورت میں کسی بالغ کا اسلام کو دل سے قبول کر کے تین سال کے لیے اسلام قبول کرنے سے روکنا سراسر ظلم ہے ۔اس قسم کی زبردستی کا قانون غالباکسی سکیولر ملک میں رائج نہ ہو گا جس کا اطلاق ایک اسلامی ریاست میں ہو نے کو ہے ۔

اس بل کی دوسری شق جو رکھی گئی وہ یہ تھی کہ قانونی طور پر اسلام قبول کرکے اکیس دن کی مہلت دی جائے او ر پھر سے سوچنے کا موقع دیا جائے گا ۔یہ بھی سراسر غلط اقدام ہے۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہل خانہ اس اکیس دن کی مہلت میں اسلام قبول کرنے والے کو دباؤ یا زور زبردستی کر کے اسلام سے بھی منحرف کر سکیں؟۔اس بل میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ اگر دنوں میاں بیوی اسلامقبول کر لیں اور ان کا کوئی بچہ جس کی عمر کم ہو اسے اٹھارہ سال کا ہونے سے پہلے غیر مسلم قرار دیا جائے گا ؟کیونکہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو تو اسلام میں داخل ہونے کی قانون میں اجازت ہی نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے اس معاملہ میں غیر مسلموں کو خوش کرنا ہی مقصود ہے کیونکہ نہ تو اس بل کی شریعی حیثیت کو دیکھا گیا ہے اور نہ ہی اس کے مضمرات کو جانچا گیا ۔ نو مسلموں کو اسلام میں داخل ہو نے میں آسانی فراہم کرنے کی بجائے ان کی راہ میں مزید کانٹے بچھا دئے گئے ہیں۔

مولانا تقی عثمانی نے تمام سیاسی جماعتوں ، مذہبی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ اس بل کو منسوخ کروانے کا فریضہ سرانجام دیں ۔ انھوں نے وفاقی شریعی حکومت سے بھی درخواست کی کہ ا س معاملہ کا از خود نوٹس لے اور اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس بل کو غیر موثر قرار دے ۔سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی اس سلسلہ میں اقدامات کرنے چاہیں ۔ اسلام کا قبول کرنا کسی غیرمسلم کے لیے آسان بنانا ضروری ہے ناکہ اس قدر مشکل کہ قانونابھی کوئی اسلام قبول نہ کر پائے ۔

واضع رہے ! یہ قانون درحقیقت اقلیتوں کے حقوق کا قانون نہیں بلکہ کسی بھی شہری کی شخصی آزادی اور اس کو اسلام کی جانب راغب ہونے سے روکنے کی ایک مضموم سازش ہے ۔یہ نام نہاد لبرل درحقیقت اسلام کے لیے ایک ایسا خطرہ ہیں جو حقوق کا نعرہ لگا کر اسلام کا اصل چہرہ مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کی قبولیت کو مشکل بنانے والے درحقیقت لبرل نہیں بلکہ اسلام کے دشمن ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان میں اگر اسلام محفوظ نہ ہو گا تو پاکستان کا وجود تک خطرے میں پڑ جائے گا ۔

اہل قلم ، اہل انصاف ، اہل اقتدار ، عوام ، ہم سب کا مذہبی فریضہ ہے کہ یہ ہم اسلام کی اصل روح کو مسخ کرنے والوں کے خلاف جہاد کریں ۔ہم خود اسلام کے محافظ اور اس کو پھیلانے والے ہیں ۔ دین کو جس حد تک سخت بنایا جائے گا اس کو قبول کرنا لوگوں کے لیے اسی حد تک مشکل ہو جائے گا ۔ہم میں سے ہر کوئی اﷲ کے حضور جوابدہ ہے، اسلام کے سپاہی کے طور پر یہ لازم ہے کہ اسلام کو پھیلائیں، لوگوں کو اسلام کی جانب راغب ہونے کی دعوت دیں نہ کہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی راہ میں اس حد تک کانٹے بجھادیں کہ وہ دل سے مذہب کو ماننے کے باوجود اسلام پر عمل نہ کر سکیں ۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164253 views i write what i feel .. View More