تحریر: قدسیہ ملک(کراچی )
زندگی کی رفتار ہر گزرتے دن کے ساتھ تیز ہوتی جارہی ہے۔ اس بات کا اندازہ
دنوں کا ہفتوں ، ہفتوں کا مہینوں اور مہینوں کا سالوں کی تیزی سے گزرنے سے
بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ باتیں جو بہت بہت دنوں بعد، پھر ہفتوں بعد، پھر
گھنٹوں بعد پتا چلتا تھا مگر اب وہ سب کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے
لمحوں بلکہ لائیو پتا چل جاتا ہے۔ مگر اس سب کے ساتھ ساتھ اسی ہی تیزی سے
معاشرے میں بے حسی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ وہ تمام حقائق ہیں جن کو ہم روزمرہ
کے مشاہدات میں محسوس کررہے ہیں۔ وقت اور حالات میں جہاں ہماری مصروفیات کا
گراف تیزی سے بڑھ رہاہے وہیں ملکی صورتحال بھی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔
عوامی رائے، قانون اور بین الاقوامی رائے عامہ بھی بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔
قومی و بین الاقوامی صورتحال نے ایک عام انسان کو بہت سی الجھنوں، مایوسیوں،
ناامیدیوں اور معاشرتی ناہمواریوں سے دوچار کیا ہے۔مگر جو کچھ ہوا ہے اس
میں سوشل میڈیا ہمارے ساتھ ساتھ رہا ہے۔ معاشرے میں بہت سی تبدیلیوں کا ذمہ
دار سوشل میڈیا بھی ہے۔
سوشل میڈیا کا کردار
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ابلاغ عامہ میں بھی بہت بڑا انقلاب برپا کیا ہوا
ہے۔ نیٹ کی ہر جگہ رسائی سے جہاں معلومات کی فراہمی بڑھی ہے وہی علم اور
تجربہ میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ہر خبر مصدقہ و غیرمصدقہ بلاتحقیق
باآسانی ہر آدمی اپنی مشہوری کے لیے میڈیا کی زینت بنا کر پیش کردیتا ہے۔
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر جگہ نہ ملے تو سوشل میڈیا پر کوئی نہیں روک
سکتا اور پھر یہاں سے ایک اور نئی بحث کا آغاز ہوجاتا ہے۔ کچھ اس کے حق میں
اور کچھ اسے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ااور نا جانے بات کہاں سے کہاں تک چلی
جاتی ہے۔ ایک دوسرے پر انتہائی سنگین ترین الزامات بد اخلاقی کا طوفان
دیکھنے میں آتا ہے۔
سوشل میڈیا کتاب دوستی کا دشمن
یہ سوشل میڈیا ہی ہے کہ جس نے کئی سالوں کی ریاضت کے بعدلکھی گئی کتابوں سے
نوجوان نسل کو دور کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ وہ نوجوان نسل ہے کہ جس نے قلم،
کاپی اور پھر کتاب کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہے کر انٹرنیٹ کو اپنا سب کچھ
بنالیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا گویا اب نوجوان نسل کا سب کچھ ہے۔ صبح کی پہلی
کرن بھی اسی پر پڑتی ہے اور رات کا ڈھلتا سورج بھی اسی سوشل میڈیا پر دیکھا
جاتا ہے۔
سوشل میڈیا معاشرتی اور سماجی تعلقات کا دشمن
اسی سوشل میڈیا کے استعمال سے ہم خود سے گئے ہی مگر اپنوں کی محبت اور ان
کی چاہت سے بھی بہت دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ سات سمندر پار بیٹھے شخص کا
معلوم ہوتا ہے مگر ہمیں اپنے کمرے کے پاس والے کمرے میں کا نہیں معلوم ہوتا
کہ ہمارے ساتھ اور بھی بہت سے افراد رہتے ہیں اور وہ کس حال میں ہیں۔ یہ
بات درست ہے کہ دنیا نے ترقی کی اور چاند کو فتح کرلیا مگر کیا ترقی اپنوں
سے دور کرنے کا نام ہے۔ ہم اپنے اطراف کی خبر گیری چھوڑ دیں؟ شاید اس ترقی
کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے۔ اپنے آپس پاس کے لوگوں تک کو بھول جائیں کہ کہیں
ہمارے پڑوس میں کسی کو ہماری ضرورت تو نہیں ہے۔ پڑوس تو دور کی بات اب تک
ایک گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کا پتا نہیں ہوتا۔ والدین گویا بس
انتظار کرتے رہے جاتے ہیں کہ شاید ان کی اولاد ان سے پوچھ لیں کہ اب وہ
کیسے ہیں۔ کچھ ضرورت تو نہیں۔
سوشل میڈیا کے قومی تعلقات پر اثرات اور استعمال
یہ سوشل میڈیا کیا ہی عجیب چیز ہے۔ ایک بڑی تعداد نوجوانوں کسی نہ کسی
سیاسی پارٹی سے لگاؤ رکھتی ہے۔ اپنا ملک ہے اس کے لیے سب ہی جان دینے کے
لیے قربان ہیں۔ مگر جب بات اپنی پارٹی کی آجائے تو پھر ملک کسی کو یاد نہیں
رہتا۔ پھر یہیں سوشل میڈیا ہوتا اور ایک آن لائن ورکر ہوتا ہے اور پھر
دوسرے ہم وطن مگر مخالف پارٹی ورکر کو خوب اچھی بری سنا رہا ہوتا ہے۔ ایسا
نہیں کہ کسی کو نہیں معلوم کہ کون سی پارٹی کس کے ساتھ ہے اور کس کے ہاتھ
کی آلہ کار بنی ہوئی مگر ناجانے وہ کونسی بات ہے کہ کوئی اس بات کو نہیں
سوچتا کہ کچھ بھی ہے تو اپنا ہم وطن ہی۔ بجائے اس کے نوجوان اپنی پارٹی کی
کرپشن اور اچھی بری ہر بات کو تسلیم کرنے کے ملکی سالمیت اور کرپشن کے خلاف
اٹھ کھڑے ہوں۔ اسی سوشل میڈیا کو کسی اچھے مقصد کے لیے استعمال کریں۔
مسلم دنیا کا احوال اور سوشل میڈیا کا درست استعمال
اگر ہم بین الاقوامی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ہماری جان کا ایک
اہم ترین حصہ کشمیر ہمارے ہی بغل میں لہو لہو ہے۔ ان دنوں تو مودی سرکاری
نے تو سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اسی بھارت کے زیر نگرانی بنگلا دیش کو
سیکولرازم کی آگ میں جھونکا جارہا۔ اسلام پسندوں کا حتی المقدور صفایا
کیاجارہا۔ ذرا آگے کو چلیں تو برما کے مسلمانوں میں خونی و وحشی کھیل جاری
ہے۔ ، افغانستان میں امریکی فوج کے مکمل انخلاء کا راج الاپنے والے اب
افغانی سفارتی تعلقات کو لیے مختلف راگ الاپ رہے۔ اردن فلسطین مصر ترکی سب
اس وقت استعماری سازشوں کی لپیٹ میں ہیں۔ خود شام کی صورتحال کسی سے ڈھکی
چھپی نہیں ہے۔ روسی طیارے دانستہ طور پر اسکولوں، کالجوں، طبی مراکز ، شہری
آبادیوں پر فضائی حملے کررہے جن سے صاف اور واضح قتل عام کے اشارات مل رہے۔
حلب میں ایک صحافی کہتے ہیں کہ بشار الاسد کی حکومت ہجرت کرکے ملک سے باہر
نکلنے والوں کو یا تو ماررہی ہے یا اذیت رسانی کے لیے گرفتار کر رہی ہے۔ اس
وقت ایرانی حکومت بھی امریکا اور روس کے جھانسے میں آئی ہوئی ہے۔
غرض دنیا میں بے حسی، انتشار اور خود غرضی بڑھتی گئی اور بڑھتی جارہی ہے۔
انسانیت کی تذلیل کا مشاہدہ آئے روز ہم کررہے ہیں۔ اس انسان کی تذلیل ایسی
بڑھی کہ اب یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ ایک انسان کی عزت و اکرام کیا ہوتا ہے۔
ایک شاعر اس کی طرف کچھ یوں اشارہ کرتا ہے کہ
مت سہل ہمیں جانو ، پھر تا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اسی حضرت انسان نے انہی جیسے انسانوں کو ختم کرنے کے لیے مہلک ترین ہتھیار
بناکر بستیوں کی بستیاں تاراج کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ نسلیں ختم کی جارہی
بستیاں تاراج کی جارہی ہیں اپنے جیسے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا
ہے۔
اور ہم سوائے افسوس کے کچھ نہیں کرپارہے۔یہ سب ہوا اور ہورہا ہے مگر یہاں
پر سوچنا یہ ہے کہ ساری صورتحال میں ہم نے کیا کردار ادا کیا۔ بیشتر وہ
نوجوان ہیں کہ جنہیں ان تمام صورتحال کا معلوم تک نہیں ہے۔ پھر کچھ ایسے
ہیں کہ جن کو معلوم ہے تو انہوں اپنی پروفائل کی ڈی پی تبدیل کر ایک دو
پوسٹ لگا دی گویا انہوں نے حق ادا کردیا۔ مگر ایسے بھی بہت سے افراد ہیں
جنہوں نے باقاعدہ اپنی آواز کو سوشل میڈیا کے ذریعے بلند کیا۔ حقیقت تو یہ
ہے کہ باحیثیت ایک مسلم قوم ہمیں پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے اپنا فعال
کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ ہمارے میڈیا کو بھی اس معاملے پر بک بکاؤ کی
پالیس اپنانے کے بجائے کام کرنا چاہیے اور اگر کوئی نہیں کرتا تو نہ کرے کم
از کم ہمارے پاس سوشل میڈیا کی طاقت تھی اور اس پر ہم اپنی موثر آواز بلند
کرسکتے تھے اور کرنا بھی چاہیے۔ اس وقت ہمارے لیے سوشل میڈیا ایک بہترین
پلیٹ فورم ہے اور اس کا بین الاقوامی سطح پر یہ ایک مثبت استعمال ہوسکتا
ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم اشرف المخلوقات بناکر بھیجے گئے۔ یہ اﷲ کی وہ
تخلیق ہے کہ جنہیں فرشتوں نے بھی سجدہ کیا انسان کے بارے میں ہی کہا تھا۔
فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجود ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو
اس انسان کو سمیٹنے اور آج اس انسان کا دکھ دور کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت
ہے ۔ ہر فرد بہت سی تخلیقی صلاحیتیں لے کر اس دنیا میں آتا اور کچھ لوگ بے
پناہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں بشرطیکہ ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے
۔ انہیں صحیح انداز میں مثبت کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے میں بہترین بروئے
طریقے سے بروئے کار لایاجائے۔
سوشل میڈیا یا میری ذاتی ذمہ داریاں
ہمارے اندر بہت سی خوبیاں رکھی گئی ہیں۔ ایسی بے شمار خصوصیات ہیں جن کا ہم
استعمال کر کے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ مجھے اپنا آپ کھنگالنا ہے۔ مجھے خود سے
ہم کلام ہونا ہے۔ اس بدلتے ہوئے حالات میں میری کیا رائے ہے۔ مجھے اپنی
رائے جاننی ہے۔ مجھے اگر اپنا آپ مل جائے تو اس سے بہتر بات تو کوئی ہو ہی
نہیں سکتی۔ بقول اقبال
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نا بن اپنا تو بن
سوشل میڈیا پر ہمیں اپنی اخلاقیات کا خیال رکھتے ہوئے اپنا مقصد پر کام
کرنا چاہیے۔ فضول گوئی سے پرہیز کریں۔ سوشل میڈیا کا مثبت سے مثبت استعمال
کریں۔ اپنے اردگرد پر خوب نظر رکھیں کہ کہیں ہماری کسی کو ضرورت تو نہیں
ہے۔ سوشل میڈیا بھی معاشرے کے بگاڑاور اچھا بنانے میں اہم ٹول ہے۔ اس کا
بہتر سے بہتر استعمال سے ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ فرد معاشرتی حیوان ہے اور افراد ہی معاشرے کی اکائی
ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو جانیں گے تو ہی معاشرے میں اپنے جیسے افراد کے
ساتھ مل کر اپنی آواز کو ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کرسکیں گے۔ دوسروں تک
اپنی صحیح بات پہنچا سکتے۔ معاشرے کے عام فرد کی براہ راست رہنمائی کرسکتے۔
کوشش کریں ہم کسی کو تکلیف دینے والے نابنیں۔ پھول بنیں جو اپنے توڑنے والے
کو بھی مہکادیتاہے ، ایک فرد میں بڑی طاقت ہوتی اور بذات خود فرد کوئی وقعت
نہیں رکھتا جب تک اسکے ساتھ ساتھ کچھ اور لوگ اس کے قریبی دوست احباب اس کے
رشتہ دار اس کے پڑوس ناہوں۔
بقول اقبال
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
پہلا قدم ہمیں اٹھانا ہوگا ۔ پھر فردسے افراد افراد سے گروہ گروہ سے معاشرہ
اور بہترین معاشرے بنیں گے۔
میں اکیلا ہی چلاتھا جانب منزل مگر
لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا
|