دو جسموں کی فریاد۔۔۔۔

 پہلی خبر یہ ہے کہ
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پندرہ سالہ ملازمہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے ملزم کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیاہے تھانہ آئی نائن میں درج مقدمہ کی سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ کرتا ہے پولیس درندہ صفت ملزم صہیب کو عدالت میں پیش کرکے جسمانی ریمانڈ کی استد عا کرتی ہے۔ جو منظور کر لی جاتی ہے۔

ملزم کے کونسل کا کہنا تھا کہ ان کا موکل خود ملازمہ کو ہسپتال لے کر گیا اس پر جنسی زیادتی کا الزام بے بنیاد ہے بلکہ مالکن کی عدم موجودگی میں اس کا بھانجا گھر میں موجود تھا مالکن نے بھانجے کو بچانے کے لیے چوکیدار صہیب کا نام پیش کردیا ہے۔ تفتیشی آفیسر عدالت کو بتاتا ہے کہ ملزم ابھی تک انکاری ہے اس نے زیادتی نہیں کی۔۔مالکن کا بھانجا کہاں ہے ۔۔متاثرہ لڑکی نے کس کا نام لیا۔۔۔یہ دو سوال خبر میں نہیں مگر مجھے یہی دو سوال مجبور کر رہے ہیں کہ چوکیدار کہیں بے گناہ نا رگڑا جائے۔۔کیوں کہ ہوتا یہی آیا ہے۔گھروں میں کام کرنے والی معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ۔۔اے خدایا۔۔شاید زہر نگاہ آپا نے اسی دن کے لئے کہا تھا کہ
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
سنا ہے جب
کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کویکے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سناہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گر ے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آجائے
کوئی پْل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری ، سانپ ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندِ جلیل و معتبر ، دانا و بینا منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر !!

دوسری خبر میں بھی بدقسمت ملازمہ طیبہ کی اندوہناک کہانی ہے جو مجھے بے چین کئے جا رہی ہے۔ایک جج کی اہلیہ نامزد ملزمہ ہے۔وہ طیبہ پر تشدد کرتی تھی۔۔طیبہ کی تصویرصاف بتاتی ہے کہ بے رحم مانو باجی نے جی بھر کے مارا ہے۔۔۔اور طرفہ یہ کہ تشدد کا شکار ہونے والی کمسن ملازمہ کے والدین نے ایڈیشنل جج اور اس کی اہلیہ سے راضی نامہ کرکے کیس واپس لے لیا ہے۔ گرفتار ایڈیشنل سیشن جج اہلیہ کی درخواست ضمانت پر کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج راجا آصف محمود کرتے ہیں اور عدالت مہرین ظفر (مانو باجی )کی 30 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلیتی ہے۔۔ ایس ایچ او تھانہ آئی نائن ،انسپکٹر خالد اعوان کو جج کے پڑوس سے کسی نے وقوعہ کی اطلاع دی تھی جس پر پولیس نے طیبہ کو زخمی حالت میں ان کے گھر سے برآمد کر کے میڈیکل کے بعد اسے متعلقہ خاتون اسسٹنٹ کمشنر نشاء اشتیاق کی عدالت میں پیش کیا تو اس نے بیان قلمبند کروایا کہ وہ اس گھر میں پچھلے دو سالوں سے کام کررہی ہے ، اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسے اکثر کھانا تک نہیں دیا جاتا اور ایڈیشنل سیشن جج اسلام آبادکی اہلیہ مہین عرف مانو باجی اسے ایک کمرے میں بند کرکے رکھتی تھی ۔۔۔کتنے دکھ کی بات ہے۔۔خوشی اس بات کی ہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملزمہ مہین عرف مانو باجی کی جانب سے اپنی نو دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ کو معمولی سی بات پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے جلانے اور حبس بیجا میں رکھنے کے مبینہ وقوعہ اور اس میں مبینہ دباؤ کی بناء پراس کے والد کی جانب سے صلح نامہ لکھ کر دینے کی بناء پر ملزمہ کی ضمانت ہوجانے کے حوالہ سے میڈیا رپورٹوں پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ سے آئندہ 24گھنٹے کے اندر اندر رپورٹ طلب کرلی ہے ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور خان کاسی نے بھی رجسٹرار ہائی کورٹ راجہ جواد عباس کو انکوائری افسر مقرر کرتے ہوئے ان سے دو روز کے اندر اندر رپورٹ طلب کی تھی ،تاہم انکوائری مکمل ہونے کے بعد اسے خفیہ رکھا گیا اور ساتھ ساتھ مبینہ طور پر اس کے والد سے صلح نامہ لکھوا کر ملزمہ مانو باجی کی متعلقہ عدالت سے ضمانت کروالی گئی ،اور بچی کو کسی بھی قسم کا تحفظ فراہم کرنے کی بجائے اس کے والد کے حوالے کردیا گیا ،اس حوالہ سے میڈیا پر خبریں آنے پر فاضل چیف جسٹس نے یہ از خود نوٹس لیا ہے ۔کیس کی سماعت آج 5جنوری کو ہوگی۔دعا کریں کہ گناہ گار کو سزا ملے اور گھریلو ملازمت سے متعلق قانون سازی ہو تا کہ بگار کیمپ کا خاتمہ ہو اور حق دار کو اس کا پورا حق ملے۔۔۔۔
Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 63584 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.