ولی محمد ایک غریب محنت کش آدمی ہے ۔اللہ
تعالٰی نے دوبیٹوں اوردو بیٹیوں سے نوازا رکھاہے۔کچھ سال قبل تک یہ خاندان
اپنےمحدودوسائل کےباوجودبڑا خوش اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پہ نازاں
تھا۔پھراچانک بڑےسات سالہ بیٹے محسن کی ٹانگوں اوربازووں کےپٹھےسکڑناشروع
ہوگئے جس سےحرکت کرنےمیں دقت پیش آنے لگی۔ماں باپ گھبرااٹھےاپنی
محدوداستطاعت میں ڈاکٹرزکودکھایامگرمرض بڑھتاگیاجوں جوں دوا
کی،اوربالآخربچہ دونوں ٹانگوں سے معزور ہوگیا۔ کچھ عرصےبعدچھوٹےاسامہ کوبھی
یہی تکلیف شروع ہوئی اور چندہی ماہ میں وہ بھی بڑے بھائی کی طرح دونوں
ہاتھوں اور ٹانگوں سے معزورہوگیا۔والدین کےلئے یہ صورتحال بڑی تکلیف دہ تھی
انہوں نے ہرممکن کوشش کی کہ بچے کسی طرح ٹھیک ہوجایں ۔ مگربروقت بیماری کی
درست تشخیص اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سےدونوں بچے مناسب علاج سے محروم رہ
گئے۔ بڑےبڑےڈاکٹرزکودکھانےکےلئے پیسہ ہی تھا نہ وقت۔محسن اب پندرہ سال
اوراسامہ نو سال کاہوچکاہے دونوں بھائی ہاتھوں کوتوہلکی پھلکی حرکت
دےسکتےہیں مگرٹانگیں قطعی کسی قسم کی حرکت کرنےسےقاصرہیں اوپرسے
بڑھتاہواوزن مزید کئی مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہورہاہے کسی کی مددکےبغیربیت
الخلاء جاسکتےہیں نہ خودپہ بستر اوڑھ سکتے ہیں ۔باہمت محسن اس کےباوجود ہمت
نہیں ہارا اس نے اپنے ماں باپ کی حتی المقدور پریشانی کم کرنےکا فیصلہ کیا
اور اب وہ محلےمیں ایک چھوٹی سی دکان چلاکراپنے والدین کاہاتھ بٹارہاہےقابل
فخرہیں ایسے لوگ جو معذوری کےباوجودبھی محنت کرکہ اپنےگھروالوں کی مالی
مددکررہےہیں اور حقارت کے مستحق وہ معذورلوگ بھی نہیں جو ہمارےاردگرد بھیک
مانگ کرگزاراکررہےہیں کہ بہرحال وہ ایک بڑی اذیت ناک صورتحال سے دوچارہیں ۔ہمارےمعاشرےمیں
ایسی بیشمارمثالیں موجودہیں کہ غربت لاعلاج بیماری یادائمی معذوری کےباوجود
کچھ لوگ اپنےآپ کوحالات کے رحم وکرم پہ چھوڑنا گوارہ نہیں کرتے اور بہت
سارے جسمانی وذہنی تندرست لوگوں کےلئے بھی ایک مثال بن جاتےہیں ۔ یقینا یہ
سارے بچے اورافراد جو کسی بھی قسم کی معذوری کاشکارہیں۔یہ ہمارےلیے صرف خاص
نہیں بلکہ ہمارا قومی اثاثہ ہیں ۔یہاں ایک لمحے کورکئیے اور اور بطورمسلمان
غورکیجئے! ہم کتنےبڑے انسانی المئیے کاشکارہیں، پاکستان میں ہزاروں لاکھوں
معذورافراد اور ان کے ورثا کس قدراذیت ناک زندگی گزاررہےہیں۔ پاکستان میں
ہرروز کروڑوں اربوں روپے شادی بیاہ کی غیراسلامی رسموں ، مزارات پہ چڑھاووں
،پتنگ بازی، ہوٹلنگ اوردیگرغیرضروری اورغیراسلامی رسموں کی نذر کردئیےجاتے
ہیں ۔ مگرہمارے آس پڑوس میں کوئی انسانی زندگی سسک سسک کر جینے پرمجبورہوتی
ہے ۔ہماری تھوڑی سی توجہ تھوڑی سی ہمدردانہ خرچ کی ہوئی رقم کسی کے علاج کا
بندوبست کرسکتی ہے کسی کو ساری عمر کی معذوری سے بچاسکتی ہے کسی کےباعزت
روزگارکا بندوبست کرکہ اسے ہمیشہ کےلیے بھیک مانگنے جیسی لعنت
سےبچاکرسراٹھاکرجینے کاسامان مہیا کرسکتی ہے۔ آپ کی ایک مخلصانہ چھوٹی سی
کوشش کئی لوگوں کےچہروں پہ خوشیاں بکھیرسکتی ہے۔معذورافراد کی بحالی ہمارا
مذہبی و قومی فریضہ ہونےکےباوجودارض پاک میں ان کےلئیے حکومتی سطح پہ کوئی
خاص اہتمام نہیں کیاجاتا۔معذوری اللہ تعالی کی طرف سےایک آزمایش ہے اسے
تحقیرکی نظرسےنہیں دیکھناچاہئے ۔افسوس تو یہ ہے کہ بہت ساری ویلفئیرتنظیمیں
اور این جی اوز سوائے بیانات جاری کرنےاورسیمینارزمنعقدکرنےکےعلاوہ کچھ
نہیں کرتیں حالانکہ انہی اسپیشل پرسنز کےنام پہ وہ دن رات پیسے بٹورنےمیں
جتی رہتی ہیں۔عام آدمی کو ان کے مسائل کا ادراک کرناچاہئیے ان سے محبت
احترام اور وقار کےساتھ پیش آناچاہیئے ۔ ہمارےمعاشرےکےیہ بےبس خصوصی افراد
بلاشبہ ہمارا قومی اثاثہ ہیں جوہماری ہمدری وخیرخواہی کےمستحق و حقدارہیں ۔
اگرہم ان کے مسائل میں کسی قسم کی کمی کاباعث بن سکیں تویہ نہ صرف اللہ
کریم و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاحاصل کرنے بلکہ دنیاوی طورپہ
بھی ہمارےلئیے سکون قلبی اور عز وشرف کاباعث بنےگا- |