نیو ایئر نائٹ

انسانی زندگی حرکت سے عبارت ہے یہ حرکت کب اور کس جانب ہوتی ہے یہ انسانی زندگی کے موضوعات و تضادات ہیں۔ انسان کی اجتماعی حرکت زیادہ تر مذہبی اور قومی جذبات اور نظریات سی ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ماضی قریب میں کھیل کود اور تفریح کے احساسات نے بھی انسان کو اجتماعی سرگرمیوں میں ملوث کیا ہے۔ کچھ سرگرمیاں عالمی انداز کی ہو گئی ہیں جبکہ بہت سی مقامی اور ذاتی انداز کی ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ عالمی انداز کی سنجیدہ سوچیں اور سرگرمیاں انسانوں کی زیادہ متاثر نہیں کرتیں لیکن بعض صورتوں میں یہ سرگرمیاں مقامی ، قومی اور مذہبی سرگرمیوں سے بھی زیادہ پر کشش محسوس ہو تی ہیں۔ ایسی ہی ایک سرگرمی کا نام ـنیو ایئر نائٹ ہے۔

نیو ایئر نائٹ مغرب سے چلنے والی ایک روایت ہے جو اب قریباً ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ دنیا نے مغرب کی بہت ساری عادات و روایات کو اپنایا ہے جن میں سے کچھ اچھی اور کچھ ’ہوشی‘ ہیں۔ نیو ایئر نائٹ کا تعلق ’ہوشی‘ روایات سے ہے جیسا کہ ویلنٹائن ڈے بھی ایسی ہی ایک اور روایت ہے۔

انسان اور فطرت ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے زندگی کی لمبی سڑک پر چلے جا رہے ہیں۔کچھ کام فطرت کرتی ہے اور کچھ انسان۔ فطرت نے سال ، مہینے اور دن دیئے ۔ انسان نے ہفتے اور صدیاں بنائیں۔ فطرت نے موسم بنائے اور انسان نے ان کے نام رکھے۔ فطرت نے مہینے بنائے اور انسان نے ان کے تہوار ترتیب دیئے۔ جہاں تک سال یا مہینے کا تعلق ہے ہر روز ایک سال ختم اور ایک سال شروع ہوتا ہے اور یہی حال مہنے اور ہفتے کا ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک لہحہ ان کے نام بدلنے کا ہوتا ہے۔ یہ دن کے لحاظ سے ہر روز ، مہینے کے لحاظ سے ہر ماہ اور سال کے لحاظ سے ہر سال آتا ہے۔

دن، مہینے یا سال کے نام کی تبدیلی قریباً کسی بھی مذہب میں کوئی بڑا تہوار نہیں ہے۔ اگرچہ ہر مذہب کے تہوار سالانہ کی بنیاد پر ترتیب پاتے ہیں لیکن ان کا اکتیس دسمبر کے آخری لمحے اور یکم جنوری کے ابتدائی لمحے سے کوئی واضح عمل دخل نہیں ۔

لیکن انسان کیا کرے وہ مذاہب کا قیدی تھوڑا ہے کہ ہر بات ان سے پوچھ کر ہی کرے۔ اسے تو ہلہ گلہ کرنے کا کوئی بہانہ چاہیئے۔نئے سال کا آغاز بہت سی سرگرمیوں کے لئے ایک اچھا موقع ہے۔لیکن اکتیس دسمبر ہر سال کا آغاز نہیں ہے۔ تعلیمی سال کا آغاز و اختتام بھی کسی اور تاریخ ہے، مالیاتی سال کا آغاز و اختتام بھی کسی اور دن کو ہوتا ہے۔

دنیا میں کئی اور سن بھی استعمال کئے جاتے ہیں جیسا کہ ہجری سن، بکرمی سن ۔ ان سالوں کا آغاز و اختتام کبھی نہیں منایا جاتا۔ شاید یہ نیو ایئر نائٹ بھی مغرب کی کلچرل سامراجیت کا ایک شاخسانہ ہے۔مغرب کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی ہر روایت اور عادت کو ایک کریڈٹ دے کر پوری انسانیت پر مسلط کر دیتاہے اور پھر بڑے فخر سے کہتا ہے کہ ہم نے دنیا کو تہذیب سکھائی ہے۔

نیو ایئر نائٹ کے بہانے کتنے ہی مکروہ افعال وقوع پذیر ہوتے ہیں۔برائی دنیا سے کبھی ختم تو نہیں ہوئی یا نہیں ہوتی لیکن اس رات کے بہانے تو برائی سر چڑھ کر اپنا اظہار کرتی ہے اور اپنے آپ کو منوانے کی سرتوڑ کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ نئی نسل اس برائی کا ایک آسان شکار بن جاتی ہے۔ یہ رات نوجوانوں کے جذبات کا استحصال کرتی ہے۔ اس رات کو اگر مغرب کی کلچرل یلغار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ مغربی معاشرے میں ملکی قانون کے اندر رہ کر سب کچھ کرنا جائز ہے لیکن مذاہب اور مشرقی اقدار ان بے راہ رویوں کی اجازت نہیں دیتیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہاں برائی کا وجود نہیں ہے ، بالکل برائی یہاں بھی موجود ہے لیکن یہاں برائی کوچھُپنا پڑتا ہے۔ مغرب میں برائی کو چھپنے کی ضرورت نہیں۔ ہم برائی کو ختم نہیں کر سکتے لیکن اس کے ساتھ ہی اس کو سرِ عام دندناننے کی اجازت بھی نہیں دے سکتے۔مغربی ممالک کا خدا ان کی پارلیمنٹ ہے وہ جو بھی قانون پاس کر دے وہاں جائز ہے لیکن ہمارا خدا آسمانوں پر ہے ہمارا پارلیمان اس کے حکم کا تابع ہے ۔ یہ ہمارا اور موجودہ مغرب کا بنیادی فرق ہے۔

برائی کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن برائی بلا وجہ بھی برائی ہی ہوتی ہے کیوں کہ اس کے اثرات منفی اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ اس رات کی عیاشی اور فحاشی سے معاشروں کے لئے کچھ اچھا ہونے کا نہیں۔ دنیا پہلے ہی مسائلستان بنی ہوئی ہے۔اور اس طرح کی عیاشی و فحاشی سے مسائل میں مذید اضافہ اور خرابی آتی ہے۔ ذہنوں میں بلا وجہ الجھاؤ اور بکھراؤ آتا ہے۔ انسان حیوانیت کی طرف ایک قدم اور بڑھ جاتا ہے۔ انسان کے اندر کے حیوان کو انسان بنانے کے لئے ہی تو تمام مذاہب، معاشرت اور اخلاق محوِ جدوجہد ہیں۔ اور ہوتا پھر بھی وہی ہے جو یہ حیوانیت چاہتی ہے۔

مغرب میں لوگ بہت مصروف اور سرگرم زندگی گزارتے ہیں ۔ مغرب کا میڈیا زندگی کے ان پہلوؤں کو کم ہی ہماری نئی نسل کے سامنے لاتا ہے۔ وہ ہمیں وہ مناظر دکھاتا ہے جن سے ہماری نوجوان نسل کے بھٹکنے کے امکانات میں اضافہ ہو۔ اور وہ پہلو جو معاشرے کو ترقی دیتے ہم سے کوسوں دور رکھتا ہے یا ہم خود بھی انہیں دیکھنا نہیں چاہتے۔

نئے سال کا آغاز چاہے کسی بھی حوالے سے ہو ایسا موقع ہوتا ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ دعا ہے۔ انسان کے ہاتھ کشکول کی شکل میں بارگاہِ ایزدی میں اٹھے ہوئے ہوں اور وہ اس بارگاہ سے پچھلے سال کی کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی کا طلب گار ہو اور نئے سال کی زندگی کے نیک فال ہونے کا تمنائی ہو۔ وہ ان لمحات میں اپنی زبان پر مقدس الفاظ اور اذکار کا ورد کر رہا ہو۔ اس کی آنکھیں نم ہوں اور دل رقت سے بھرا ہو۔وہ نئے سال کے مصمم ارادوں میں سب انسانوں کی بھلائی کے منصوبے بنارہا ہو۔ وہ اپنے نیک جذبات اور خیالات میں کامیابی کے لئے رب کے حضور دعا گو ہو۔

وہ نئے سال کا آغاز رب کی بارگاہ میں سر بسجود ہو کر کر رہا ہو۔ وہ نئے سال کی حادثات سے خدا کی پناہ تلاش کر رہا ہو۔ وہ بیماریوں کے حملوں اور دشمنوں کی چالوں سے قادرِ مطلق کی استعانت کا خواہش مند ہو۔اسے اپنے پیاروں کے لئے دعا کرنی چاہیئے کہ وہ بھی زندگی کی بہاروں سے لطف اندوز ہوں۔ یہاں تک کہ سب انسانوں ، حیوانوں اور تمام مخلوقات کی بہتری کے لئے دعا مانگی جائے۔ یہ لمحہ عیاشی و فحاشی نہیں بلکہ دعا، ذکر اذکار اور پھر نوافل کا ہے۔ کم از کم ہمیں جو کسی مذہب کے پیرو کار ہونے کا دم بھرتے ہیں اور جنہیں مشرقی اقدار کی پاسداری کا بھرم رکھنا ہے چاہیئے کہ نیو ایئر نائٹ کو ایک سنجیدہ تہوار بنانے کی کوشش کریں۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313133 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More