ذہنی رجحان کی اہمیت
(Prof Jamil Chohdury, Lahore)
کسی بھی شعبے میں اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لئے ذہنی
رجحان بڑا اہم رول اداکرتا ہے۔وہ لوگ جو سائنس کے شعبوں میں اعلیٰ مقام تک
پہنچے اور نوبل انعام بھی حاصل کیا۔انکی رائے یہی ہے کہ اعلیٰ سائنسدان
بننے کے لئے اعلیٰ سازوسامان والی لیبارٹریوں اور جدید ترین لڑیچر والی
لیبارٹریوں سے بھی کہیں زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ کچھ مدت کے لئے کسی بڑی
سائنسی شخصیت کی صحبت ورفاقت میسر آجائے تاکہ رجحان پیدا ہوسکے۔کیمسڑی میں
نوبل انعام حاصل کرنے والے H.A.krebsنے اس ذہنی رجحان بارے خاصا مطالعہ کیا
ہے۔اس نے لکھا ہے کہ" اگر اپنی جوانی کے ابتدائی چار سال(Otto warburg)جیسے
بڑے سائنس دان کی رفاقت میسر نہ آتی تو میرے اندر سائنس کا صحیح ذوق پیدا
ہونا محال تھا"۔Krebsنے بتایا ہے کہ اعلیٰ سائنس دانوں کی صحبت جو سب سے
بڑی چیز کسی کو دیتی ہے ۔وہ سائنسی حقائق اور سائنسی طریقوں کے بارے
معلومات کا انبار نہیں۔یہ دونوں چیزیں تو ہر جگہ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔جو
بات حقیقی فرق پیداکرتی ہے۔وہ دراصل فیضان نظر ہے۔جیسے عظیم استاد اپنے
شاگرد میں پیدا کرتا ہے۔یہی فیضان نظر ہے۔جس کو وہ عمومی سائنسی روح کانام
دیتا ہے۔یہی رجحان کسی شخص کو سچا سکالر بناتا ہے۔سب سے بڑی بات تو یہ ہے
کہ ایک عظیم استاد یاسائنسدان اپنے شاگرد کے ذہن میں حقائق کے بارے معلومات
سے زیادہ ایک ذہنی رویہ(Attitude)منتقل کرتا ہے۔اس ذہنی رویے میں2باتیں بہت
اہم ہیں۔ایک عجز(Humility)اور دوسرا شوق یا گہری دلچسپی ۔یہ دونوں بڑے زینے
ہیں جن سے گزر کر آدمی اونچی ترقی کی منزل تک پہنچتا ہے۔شوق آدمی کو اکساتا
ہے۔کہ وہ کہیں رکے بغیر اپنا سفر جاری رکھے۔شوق آدمی کے اندر تجسس کا جذبہ
ابھارتا ہے۔جس کی وجہ سے وہ چیزوں کوجاننے کی کرید میں رہتا ہے۔اس کے ساتھ
ساتھ عجز بھی انتہائی ضروری ہے۔عجز کا مطلب ہے۔اپنے آپ کو حقیقت اعلیٰ سے
کم سمجھنا۔ایسا آدمی غلطی معلوم ہوتے ہی فوراً اس کا اعتراف کرلیتا ہے۔وہ
حق کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔جب ہم اپنے ملک کے تعلیمی اداروں کے اندر
تعلیم کے نظام کو دیکھتے ہیں۔تو ہمیں بہت مایوسی ہوتی ہے۔طلباء میں اپنے
مضمون میں شوق پیداکرنے کی کوششیں نہیں کی جارہی۔میٹرک اور انٹر تک کا نظام
تو مکمل طورپر Memorization(رٹا) پر مشتمل ہے۔ایک طے شدہ سلیبس ہے۔اس سلیبس
میں سائنس کے بارے کچھ معلومات لکھ دی گئی ہیں۔کلاس روم میں استاد باربار
انہیں معلومات کو یاد کراتا رہتا ہے۔سلیبس ایک دفعہ نہیں کئی کئی دفعہ
دھرایا جاتا ہے۔اور طلباء کو یہ باور کرایاجاتا ہے کہ آپ نے دی گئی
معلومات100۔فیصد یادکرنی ہیں۔اس سلیبس کا باربار ٹیسٹ ہوتا ہے۔کبھی ایک
چیپٹر کا پھر آدھی کتاب اور امتحان سے پہلے پوری کتاب کا۔طلباء سے توقع
رکھی ہے کہ وہ اپنی یادداشت کی سطح بہت اونچی رکھیں گے۔جو کچھ کلاس میں
سلیبس سے متعلق پڑھایا گیا ہے۔وہ جوابی کاپی میں100۔فیصد درست انداز سے درج
کردیں گے۔ان کی توجہ سالانہ رزلٹ کی طرف ہوتی ہے۔A+اورAگریڈ کتنے آئے۔دوسرے
سکولوں اور کالجوں سے نتائج کا مقابلہ ہوتا ہے۔جہاں تک سائنسی
Conceptsکاتعلق ہے۔وہ واضح ہوئے یا نہیں۔اس کی طرف بہت ہی کم توجہ دی جاتی
ہے۔اس کے بعد 4سالہBSیا دو سالہ پوسٹ گریجوایٹ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔طلباء
کا رویہ یہاں بھی تقریباً ویسا ہی رہتا ہے۔فیضان نظر یا عمومی سائنسی روح
پیدا نہیں کی جاتی۔تخلیقی صلاحیتیں جو ہر طالب علم میں موجود ہوتی
ہیں۔انہیں اجاگر کرنے اور بڑھانے کی کوششیں نہیں ہوتی۔سالہا سال سائنس کا
طالب علم رہنے کے باوجود شوق اور جستجو پیدا نہیں ہوتی۔کریدنے اور آگے
بڑھنے کی طلب نہ ہونے سے ہمارے ہاں بڑے سائنسدان پیدا نہیں
ہورہے۔ایف۔ایس۔سی کے بعد زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلباء تو طب اور
انجینیئر نگ کے شعبوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔بنیادی سائنس کی تعلیم جاری
رکھنے والے بھی صرف ڈگریوں کے حصول تک اپنے آپ کو محدود کرلیتے ہیں۔اس ساری
صورت حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔جیسے کہ پہلے بتایاگیا ہے ۔سائنس میں آگے
بڑھنے کا شوق بہت ضروری ہے۔استاد طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارے اور
مزید کرید(جستجو)کا جذبہ پیدا کیا جائے۔اسی رجحان سے نئے Processesپیدا
ہوتے ہیں۔نئے انکشافات ہوتے ہیں۔یہی نئے طریقے نئی ٹیکنالوجیز کو جنم دیتے
ہیں۔اگر دیکھا جائے اب تک پاکستان میں سائنسی شعبوں میں ڈگریاں لینے والے
تو بے شمارپیدا ہوئے۔لیکن دنیا میں معروف ہونے والے سائنسدان صرف چند ہی
پیدا ہوئے۔کبھی کبھار ہی خبر آتی ہے۔کہ کسی پاکستانی سائنسدان نے کوئی
سائنسی کارنامہ سرانجام دیاہو۔کوئی Discoveryکی ہو۔کوئی نئی ٹیکنالوجی
متعارف کرائی ہو۔اور جہاں تک نوبل انعام کا تعلق ہے۔70سالوں میں اب تک صرف
ایک سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام۔اور اگر پورے عالم اسلام کو دیکھیں تو رقبہ
کے لہاظ سے ایک بڑے رقبے پر پھیلا ہو ا ہے۔تو صرف3۔نوبل انعام۔اور مسلمانوں
کی تعداد کرۂ ارض پر تقریباًایک ارب50کروڑ۔مسلمانوں کے علاوہ باقی تمام
اقوام سائنس میں بے شمار نئے Processes،نئی ٹیکنالوجیز اور انکشافات کررہی
ہیں۔ضروری ہے کہ طلباء میں عمومی سائنسی روح پیدا کی جائے۔ذہنی رویہ سائنسی
ہو۔یہ تمام جبھی ہوگا جب طلباء میں عجز اور شوق کی صفات پیدا ہونگی۔جاننے
کا شوق،کریدنے کا شوق ،جستجو کا شوق،کچھ نیا کرنے کاشوق۔ذہنی رجحان بدلنے
سے ہی قومیں ترقی کرتی ہیں۔جیسا کہ شروع میں اشارہ کیاگیا سائنس کے ذہین
طلباء کے لئے ملک کے نامور سائنسدانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا انتظام
کرناضروری ہے۔طلباء ان سے سیکھیں کہ انہوں نے عجز اور شوق سے کیسے نام
کمایا۔سائنسی ذہنی رجحان ان میں کیسے پیدا ہو۔ملک کے بڑے اور نامور
سائنسدانوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے ذہین طلباء کے پروگرام بنائے
جائیں۔5۔طلباء پر مشتمل ایک گروپ بھی بنایا جاسکتا ہے۔جس شعبے میں ہمارے
قابل احترام سائنسدانوں نے کارکردگی دیکھائی ہو،تحقیق سے تخلیق کی طرف بڑھا
گیاہو،یہ تام طلباء کو تفصیل سے بتائے جائیں۔اور اگر تحقیق سے کوئی نیا
طریقہ یا ٹیکنالوجی پیداہوئی ہو۔تو طلباء کو دیکھائی جائے۔امید ہے کہ ذہین
طلباء چند ماہ نامور سائنسدانوں کے ساتھ رہ کر اپناذہنی رویہ بدل سکیں گے۔ |
|