میں انٹرنیٹ پر ایک بھارتی چینل پہ
پاکستان اور ہندوستان کی دفاعی، عسکری اور نیوکلیر طاقت کے موازنے پر اُنکی
ایک رپورٹ دیکھ رہی تھی جسمیں پاکستانی نیوکلیر انرجی کے حوالے سے پاکستان
کی atomic میزائل کی تعداد بھارتی میزائل سے زائد ہونے کی بنا پربھارتی
چینلز پاکستان کو خوب تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھے،حالانکہ عسکری ،
افواجی ، ہتھیار اور جنگی جہازوں اور جنگی وسائل کے مقابلے میں وہ تعداد
میں ہم سے کہیں زیادہ آگے دکھائی دیتے ہیں مگر پھر بھی اُن کے ہر ہر انداز
سے بے چینی اور غیر تسلی بخش حالت اُنکے اندر کا ڈر صاف ظاہر کر رہی تھی ۔وہ
مسلسل ہماری حکومت اور افواجِ پاکستان کیلئے نازیبا زبان اور ناشائستہ
الفاظ استعمال کر رہے تھے ۔
اسکے علاوہ بار بار اپنی خبروں اور ٹاک شوز میں بھی چین اور پاکستان کے
بڑھتے ہوئے تعلقات پر اپنے شکوک و شبہات کے اظہار کیلئے نہایت عامیانہ
انداز میں چین کے خلاف گوہرافشانی کرتے ہوئے دِکھائی دیئے جیسا کہ سب بخوبی
جانتے ہیں کہ چین کے ساتھ پاکستان کے بہت سے پروجیکٹ تکمیل کے مراحل میں
اور کچھ نئے پروجیکٹس کی شروعات کیلئے معاہدات کا سلسلہ بھی جاری ہے ،چین
کا اسطرح سے پاکستان کے ساتھ ایک دم بہت سے معاملات میں شمولیت سے بھارت
میں انتہائی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جسکا برملا اظہار وہاں کی حکومت اور
میڈیا کرتی رہتی ہے اور زیادہ تر اُنکی گفتگو انتہائی نوعیت اختیار کر لیتی
ہے اُن کا اس قِسم کا انداز دیکھ کر کسی بھی پاکستانی کا اشتعال میں آنا
بنتا ہے ۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مختلف اسی حوالے سے بھارتی چینلز کے پروگرامز
دیکھتے ہوئے میری بے اختیار نظر نیچے دیئے گئے لوگوں کے commentsپر پڑی
جسمیں مختلف لوگوں نے اِن پروگرامز کے حوالے سے اپنے اپنے commentsدیئے
ہوئے تھے ،مجھے اسی حوالے سے اپنے اُن تمام مسلم بھائی بہنوں سے گزارش ہے
کہ جو commentsدیتے ہوئے جذبات میں آکر انتہائی شرمناک زبان استعمال کرنے
لگ جاتے ہیں ،ٹھیک ہے․․․اگر کوئی ہمارے ملک یا ہمارے مذہب کے خلاف اسطرح
اُنگلی اُٹھائے تو ہمارا اشتعال میں آنا جائز ہے مگر آپ اتنا زیادہ مشتعل
ہو کر جو انتہائی شرمناک زبان اختیار کرتے ہیں تو یہ تمیز کرنا مشکل ہوجاتا
ہے کہ آیا آپ مسلمان بھی ہیں یا اُن ہی کی صف میں شامل ہیں کیونکہ جب آپ
اُنکے مذہب یا دیوتاوئں کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہو تو اُسکے جواب میں وہ
ہمارے مذہب کے لئے اُس سے بھی زیادہ شرمناک اور انتہائی زبان استعمال کرتے
ہیں ۔
ہم کیوں اسطرح کی زبان استعمال کرتے ہیں کہ سامنے والا نا صرف ہمارے مذہب
بلکہ نعوزبا ﷲ ،اﷲ اور نبی کریم ﷺ کی شان میں بھی گستاخی کرنے لگتا ہے اور
ہمارے مذہب پربھی اپنے الفاظوں کے تیرچلانے لگتا ہے آپ خود سوچیئے اسکا
گناہ کس پر جائے گا ،مجھے انتہائی صدمے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے
کہ ہم کس قِسم کے مسلمان ہیں اور ہمارا مذہب اسبات کی قطعاََ اجازت نہیں
دیتا کہ ہم کسی اور مذہب کو گالی دیں یا ان کے مذہبی پیشواوٗں کو اُن کے
منہ پر بُرا بھلا کہیں وہ اسلئے کہ جب ہم اِنکے مذہب اور مذہبی پیشواوٗں کے
بارے میں مغلظات بکینگے تو بدلے میں وہ اس سے بھی زیادہ سخت ترین الفاظ
ہمارے مذہب اور انبیاٗ کی شان میں گستاخی کرینگے جو کہ ہمارے لئے اور بھی
زیادہ باعثِ تکلیف ہوتا ہے۔ہمارے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ہمارے نامہٗ
اعمال میں محفوظ ہوتا رہتا ہے فرمانِ باری تعالیٰ ہے۔
ترجمعہ:
انسان منہ سے کوئی لفظ نہیں نکالتا مگر اسکے پاس (ہمارا)نگہبان موجود
ہے۔(سورۃ،ق18)
اس آیتِ قرآنی کا مطلب یہ ہے کہ ہماری عمرِرواں میں سرزد ہونے والے تمام
گناہوں کی طرح زبان کے گناہ بھی نامہٗ اعمال میں محفوظ ہیں فرمانِ نبوی ہے
۔
ترجمعہ:
جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے میں اُسے جنت کی
ضمانت دیتا ہوں۔(بخاری)
غور کیجئے یہ ہمارے پیارے نبی ﷺکی ضمانت اور خوشخبری ہے اب زرا اپنے
گردوپیش پر نظر ڈالئے اور سوچئے کہ ہماری محفلیں ،اجتماعات ،خواتین کی
باہمی گفتگو ،گلی محلوں میں دوستوں کی محفلیں،انٹرنیٹ اور موبائل فون پر
ہونے والے پیغامات اور بازاروں میں عوام الناس کس قسم کی گفتگو کرتے ہیں
کیا ہماری باتوں کا اکثر حصہ غیبت ،جھوٹ ،چغلی، فضول گوئی گالی گلوچ پر
مشتمل نہیں ہوتا ہماری نئی نسل کی زبان پر موجود گالیاں ہمیں نظر نہیں آتیں
،والدین اپنے بچوں کے منہ سے مغلظات سُن کر بد مزہ نہیں ہوتے بد مزہ تو دور
کی بات بلکہ خود اس قسم کی زبان انکے سامنے استعمال کرتے ہیں اور خوش ہوتے
ہیں اﷲ باریٰ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
ترجمعہ:
ہم خوب جان رہے ہیں جو وہ کہہ رہے ہیں۔(74،ق)
ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں۔
ترجمعہ:
اچھی بات کہنا اور درگزر کرنا (ف552)اس خیرات سے بہترہے جس کے بعد ستانا ہو
(ف553)
اور اﷲ بے پرواہ حلم والا ہے۔(سورۃ البقرۃ)
ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہم ایک سچے اور سہی دین پر ہیں جو
ہمیں رواداری اور درگزر کرنے کی تعلیم دیتا ہے نبی پاک ﷺ کی تمام زندگی
ہمارے لئے ایک مثالی نمونہ ہے کہ انہوں نے اسلام کسطرح سے پھیلایا خود اپنی
ذات کو ایسا بنا کہ پیش کیا کہ لوگ بنا کسی زور زبردستی کہ خود بخود اپنی
خوشی سے دینِ اسلام کو اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ایک بات جو آپکو بتانابہت ضروری سمجھتی ہوں وہ یہ کہ ہم اکثر یہ کہہ کر خود
کو بری الزمہ تصور کرتے ہیں کہ ہمیں اسلام کے بارے میں اتنا نہیں معلوم تو
ہم اس غلط فہمی میں خود کو مبتلا ر کھتے ہیں کہ ہماری یہ لاعلمی ہمارے لئے
نجات یا چھوٹ کا زریعہ بنے گی نہیں ہر گز ایسا نہیں ہے اگر آپ صرف ایک کلمہ
گو مسلمان بھی ہیں اور دین کا کچھ بھی علم نہیں رکھتے ہیں مگر آپ اور ہمارے
لئے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ ہم اُس تعلیم یافتہ کافر سے زیادہ باعلم اور با
شعور ہیں جو کہ چاہے اپنے وقت کا عظیم سائنسدان رہا ہو ،کوئی مفکر ،دانا یا
عظیم سیاستدان ہی کیوں نہ ہو چاہے وہ کافر ساری دنیا کا علم ہی کیوں نہ
رکھتا ہو اور اُسکی ساری زندگی صرف علم کے میدان میں ہی صرف کیوں نہ ہوئی
ہو لیکن اگر وہ کافر ہے اﷲ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کا منکر ہے تو وہ صرف
کلمہ گو انپڑھ مسلمان سے زیادہ جاہل اور بے ھدایت ہے،تو ہمیں اور آپکو صرف
ایک کلمہ گو مسلمان ہونے کے ناطے بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ مسلمان
ہونے کی حیثیت سے ہم پر بہت سی زمہ داریاں لاگو ہوتی ہیں ، ہمیں اسطرح کہ
الفاظ اور انداز اپنانے سے گریز کرنا چاہئے جو کہ ایک کم ظرف اور کم عقل
کافر اختیار کرتا ہے ۔میں یہ نہیں کہتی کہ آپ خود کو اسلام کا بہت سختی سے
پابند کر لیں اور پور پور اُس کے سانچے میں رچ بس جائیں جبکہ یہ ایک بہت
خوش آئیند بات ہو سکتی ہے مگر کم از کم ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنے
الفاظ اور اپنے انداز اور اسلامی تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی بھی
میڈیم میں اسلام کے وقار کو مجروح مت کریں ۔
مجھے انتہائی دُکھ اور عظیت ہوئی جب میں نے اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے وہ
commentsپڑھے جسکے جواب میں کفار نے اسلام اور ہمارے تمام اسلاف کے اکابرین
کو مغلظات سے نوازا ہماری پاک فوج اور ہمارے ملک کی تزلیل میں آپ سے زیادہ
سخت الفاظ اور انتہائی رکیک اور نازیبہ کلمات استعمال کئے اس حرکت کیلئے آپ
نے انکو راستہ دکھایا اسلام جاہلوں سے بحث کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا
جبکہ آپ بھی پورا علم نہ رکھتے ہوں اور وہ بھی بے شعور لوگوں سے ۔
قرآن پاک میں اﷲ تبارک و تعالیٰ بالکل واضع انداز میں ارشاد فرماتا ہے کہ
ترجمعہ:
اے ایمان والوں صبر کرو (ف390)اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر
اسلامی ملک کی نگہبانی کرو
اوراﷲ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ کامیاب ہو۔ (۲۰۰سورۃآلِ عمران) |