سیدنا غوث اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے رُخ ِحیات سے چند نصیحت آموزباتیں
(Ata Ur Rehman Noori, India)
سیدنا غوثِ اعظم رحمۃ اﷲ علیہ سے سچی عقیدت یہ ہے کہ آپ کے فرمودات پر عمل کریں اور آپ کے اخلاق واوصاف کو اختیارکریں |
|
قطب الاقطاب، فرد الافراد، قطبِ ربانی، محبوبِ سبحانی،
سرکارِ غوثِ پاک شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ذاتِ گرامی
فضائل و مناقب اور کمالات کی بنا پر جماعت اولیاء میں انفرادی حیثیت کی
حامل ہے،تمام اولیائے کرام خواہ آپ کے پہلے کے ہوں یا ہم عصر یا آپ کے عہدِ
مبارک کے بعد ہوں گے سب آپ کے مداح اور آپ کی نظرِ کرم کے امید وار ہیں۔آپ
کا سال ولادت ۴۷۰ھ اور عیسوی ۱۰۷۵ ہے،مہینہ یکم رمضان المبارک اوردن جمعۃ
المبارکہ ہے۔عام طور پر مقررین اور قلمکار حضرات کرامتوں اور چند معروف
واقعات کے ذکر پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں جس کے سبب سیدناغوث اعظم رحمۃ اﷲ
علیہ کی مکمل سیرت وشخصیت کی مکمل عکاسی نہیں ہوپاتی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ
حضرات محض کرامتوں پر مطمئن نہیں ہوپاتے ہیں جس کے سبب اولیائے کرام اور
صوفیائے کرام سے نسلِ نَوکارشتہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی
ہے کہ اولیائے کرام کی سیرت وشخصیت کو عصری تقاضوں کوملحوظ رکھتے ہوئے پیش
کیاجائے تاکہ ہر خاص وعام کو ان کی عبقری شخصیت کااندازہ ہو۔ذیل میں آپ کی
سیرت اور واقعات سے جو نصیحتیں اور درس ملتا ہے اسے قلمبند کیاجارہاہے تاکہ
معلومات کے ساتھ کردار کے سُدھار کاباعث ہو۔
(۱)آپ کی پیدائش ماہ رمضان میں ہوئی تھی اس لیے آپ دن میں اپنی والدہ کا
دودھ نوش نہیں فرماتے تھے،اس سے آپ کے مادرزاد ولی ہونے کا علم ہوتاہے۔
(۲)اشتیاق علم کا یہ عالم کہ بچوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف رہنے کی
بجائے والدہ سے تعلیم وتربیت حاصل کرتے۔ حصول علم کے لیے آپ نے طویل سفرطے
فرمایا،معلوم ہواکہ علم کے میدان میں آگے بڑھنے کی ہر ممکن کوشش کرناچاہیے۔
(۳)پچپن میں ڈاکوؤں سے ڈروخوف محسوس کرنے اور والدہ کے ذریعے دیے گئے چالیس
درہم کو چھپانے کی بجائے آپ نے قزاقوں پر سچ ظاہر فرمایاجس سے آپ کی حق
گوئی،بے باکی اور والدین کے ذریعے کی گئی تعلیم وتربیت کا بخوبی اندازہ
ہوتاہے اور درس ملتاہے کہ چاہے جان چلی جائے مگر ماں سے کیاہواوعدہ ٹوٹنے
نہ پائے۔
(۴)مرکزعلوم وفنون اور گہوارۂ تہذیب بغداد شریف میں پورے غوروخوض اور آگہی
کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے کے بعد اپنے دور کے نابغۂ روزگار علما سے فقہ،حدیث
اور تصوف کاعلم حاصل کیااور عملی طور پر ریاضت ومجاہدہ کے دشوار گزار مراحل
طے کیے۔
(۵)آپ امام احمد بن حنبل کے مطابق قلم برداشتہ فتویٰ دیاکرتے تھے،علمائے
عراق آپ کے فتاویٰ اور علم کی گہرائی وگیرائی کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ۔
(۶)چالیس سال تک عشاء کے وضوسے نمازفجر اداکی ۔اس سے آپ کی عبادت وریاضت کا
بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جب سارازمانہ سوجاتاآپ بارگاہِ صمدیت میں
اپنی بندگی کاخراج پیش کرتے تھے۔
(۷)پندرہ سال تک نمازعشاء کے بعد ایک پیرپرکھڑے ہوکراور ایک ہاتھ سے دیوار
کی میخ پکڑکرقرآن مجید کی تلاوت فرمائی۔اس روایت سے کلام الٰہی کے تئیں آپ
کی محبت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔
(۸)گیارہ سال تک ’’بُرج بغداد‘‘میں عبادت الٰہی میں مصروف رہے حتی کہ اس
بُرج کو لوگ ’’بُرج عجمی‘‘کہنے لگے۔اس سے عبادتِ الٰہی میں آپ کی مصروفیت
کا اندازہ ہوتاہے۔
(۹)آپ تفسیر،علوم حدیث،فقہ،اختلا ف مذاہب ،اصول اور نحوکادرس دیتے اور قرآن
پاک تجوید وقرأت کے ساتھ پڑھاتے ۔
(۱۰)آپ کے خطاب میں سترہزار افراد شرکت فرماتے ،آپ کی یہ خوبی تھی کہ بغیر
مائک وٹیکنالوجی کے استعمال کے آپ کو اﷲ پاک نے یہ خصوصیت عطافرمائی کہ
پہلاشخص جیسی آوازسنتا تھا،محفل کاآخری شخص بھی اتنی ہی آواز سنتا۔ آپ کی
مجلس میں چارسواشخاص قلم ودوات لے کر بیٹھتے اور جو کچھ سنتے تھے اسے قلم
بند فرمالیتے۔اس روایت سے جہاں آپ کی کرامت کا اظہارہوتاہے وہی مخلوق خدا
میں آپ کی مقبولیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
(۱۱)آپ کاوعظ سن کر یہودونصاریٰ ،ڈاکو،اہل بدعت،دشمنان اسلام اور مذہب
واعتقاد کے کچے لوگ تائب ہوجاتے ۔اس سے آپ کی مؤثر تبلیغ مساعی جمیلہ
کااحساس ہوتاہے۔
(۱۲)اسلام کی ترویج واشاعت کاایساذوق تھاکہ اولاد امجاد کا انتقال بھی
ہوجاتا تو مجلس سے خطاب جاری رکھتے اور جب جنازہ حاضرہوتاتو نمازجنازہ
ادافرماتے۔اس سے قول وفعل میں یگانت اور دینی راہ میں پیش کی جانے والی
قربانی محسوس کی جاسکتی ہے۔
(۱۳)آپ کاوعظ اس قدر پُراثرہوتاکہ لوگوں پر اضطراب،وجد اور حال کی کیفیت
طاری ہوجاتی،بساوقات آپ کے اجتماع سے خوف خدا،ہیبت،تصرف،عظمت اور جلال کے
باعث کئی کئی جنازے نکلتے۔آپ کی مجلس میں خوارق،کرامات،تجلیات،عجائب اور بے
شمارغرائب کاظہورہوتا۔آپ کی نوّے سالہ عمر میں مسلسل کرامتوں کاظہورہوتارہا۔
(۱۴)آپ اتنے عالی مرتبت ،جلیل القدر،وسیع العلم اور شان وشوکت کے باوجود
کمزوراور غریبوں میں بیٹھتے،فقیروں کے ساتھ توضع سے پیش آتے،بڑوں کی
عزت،چھوٹوں پر شفقت فرماتے،سلام کرنے میں پہل کرتے،طالب علموں اور مہمانوں
کے ساتھ کافی دیر تک بیٹھتے،نافرمانوں،سرکشوں،ظالموں اور مالداروں کے لیے
آپ کبھی کھڑے نہ ہوتے اورنہ ہی کبھی کسی وزیروحاکم کے دروازے پر جاتے۔
(۱۵)آپ نے اپنے خطبات میں موجودہ سلجوقی ،عباسی حکمرانوں ،ظالموں،ریاکارصوفیوں
زاہدوں،درباری علما،باشندگان بغداد اور سلاطین کو تنبیہ فرمائی۔آپ نے اپنے
خطبات میں اخلاص،ﷲیت اور خشیت الٰہی پر کافی زور دیااور ارباب اقتدارڈرے
سہمے بغیران کی اصلاح فرمائی۔
(۱۶)سفرحج کے دوران آپ نے ایک رات مقام ’’حلّہ‘‘میں ایک غریب کی کٹیامیں
آرام فرمایااور تمام نذرانہ،ہدایا،نقد اورجنس ضعیف کو دے کر رُخصت ہوگئے۔
(۱۷)آپ مستحق وغیر مستحق سب کو عنایت فرماتے اور کہتے جس کو چاہودوتاکہ اﷲ
تعالیٰ تمہیں بھی وہ چیزدے جس کے تم مستحق ہواور جس کے تم مستحق نہیں ہو۔
(۱۸)آپ بڑے بارونق،ہنس مکھ،وسیع الاخلاق،نرم طبیعت،کریم الاخلاق،پاکیزہ
اوصاف،مہربان،شفیق،جلیس کی عزت کرنے والے،مغموم کی مدد کرنے والے اور
بدگوئی سے دور رہنے والے تھے۔
(۱۹)آپ احکام الٰہی کی نافرمانی میں بڑے سخت،اپنے اور غیراﷲ کے لیے غصہ نہ
فرماتے اور کسی سائل کو اگرچہ وہ آپ کے بدن کے کپڑے ہی لے جائے کبھی واپس
نہ فرماتے۔
(۲۰)آپ نے متعددتصانیف تحریرفرماکر اصلاح اُمت کا فریضہ انجام دیا۔
غرضیکہ آپ کی حیات مبارکہ سے بے شمار سبق آموز باتوں کواحاطۂ تحریر میں
لایاجاسکتاہے اور آپ سے سچی عقیدت ومحبت کا ثبوت بھی یہی ہے کہ آپ کے طریق
کار اور فرمودات پر عمل کریں۔ |
|