مظفر آباد کا مصیبت زدہ گدھا !

یہ خطرہ بھی پایا جاتا ہے کہ کہیں رضائی میں لپٹے اس گدھے کو بھی ''سیکورٹی تھرٹ'' قرار دے کر ٹھکانے نہ لگا دیا جائے اور رپورٹ دے دی جائے کہ معاملہ '' یکسو'' کر دیا گیا ہے۔اگر سعادت حسن منٹو آج زندہ ہوتا تو '' ٹیٹوال کا کتا'' کے پیرائے میں '' مظفر آباد کا گدھا'' کے عنوان سے ایک نئی تخلیق کرتا،اگر رنگیلا زندہ ہوتا تو'' انسان اور گدھا'' کے بعد آزاد کشمیر میں گدھے کے اس حال پر '' کشمیری اور گدھا'' کے نام سے ایک نئی فلم بنا لیتا۔گدھے کی بری قسمت کہ ہیلری کلنٹن امریکہ کا صدارتی الیکشن ہار گئیں ،ورنہ اس گدھے کو امریکی سفارت خانے کی وساطت سے سرکاری پروٹوکول دلانے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔
مظفر آباد کے پوش علاقے جلال آباد میں ایوان صدر،صدارتی سیکرٹریٹ،وزیر اعظم ہائوس،چیف سیکرٹری،انسپکٹر جنرل پولیس،سیکرٹریز اور افسران کی سرکاری رہائش گاہیں ہیں۔اسی حوالے سے اس علاقے کی سیکورٹی کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔کئی سال سے جلال آباد کے علاقے میں ایک ٹانگ سے معذور گدھا گھومتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔میں جب بھی مظفر آباد جاتا تو وہ گدھا بھی نظر آ ہی جاتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ نظر نہیں آیا،ایک عزیز سے معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ وہ گدھا ابھی زندہ ہے۔ان دنوں لاہور میں گدھے کا گوشت ہوٹلوں میں پکاکر لوگوں کو کھلانے کا سکینڈل چل رہا تھا۔اس عزیز نے بتایا کہ جب کچھ دن وہ گدھا نظر نہیں آیا تو شک گزرا کہ کہیں کسی انسان نے گوشت یا کھال کے لئے اس گدھے کو ہلاک نہ کر دیا ہو،لیکن پھر وہ گدھا نظر آ گیا،شاید ارد گرد کے علاقے میں گھومنے چلا گیا تھا۔جلال آباد علاقے میں مختلف تعمیراتی کاموں کے علاوہ ایوان وزیراعظم کی نئی عمارت بھی بن رہی ہے،شاید کسی ٹھیکیدار نے گدھے کو معذور ہونے پر کھلا چھوڑ دیا اور وہ اسی علاقے میں گھومتے ہوئے اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔اب یہ خطرہ بھی پایا جاتا ہے کہ کہیں رضائی میں لپٹے اس گدھے کو بھی ''سیکورٹی تھرٹ'' قرار دے کر ٹھکانے نہ لگا دیا جائے اور رپورٹ دے دی جائے کہ معاملہ '' یکسو'' کر دیا گیا ہے۔اگر سعادت حسن منٹو آج زندہ ہوتا تو '' ٹیٹوال کا کتا'' کے پیرائے میں '' مظفر آباد کا گدھا'' کے عنوان سے ایک نئی تخلیق کرتا،اگر رنگیلا زندہ ہوتا تو'' انسان اور گدھا'' کے بعد آزاد کشمیر میں گدھے کے اس حال پر '' کشمیری اور گدھا'' کے نام سے ایک نئی فلم بنا لیتا۔گدھے کی بری قسمت کہ ہیلری کلنٹن امریکہ کا صدارتی الیکشن ہار گئیں ،ورنہ اس گدھے کو امریکی سفارت خانے کی وساطت سے سرکاری پروٹوکول دلانے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔

میں اپنے کالم/مضامین '' آواز کشمیر'' کے مستقل عنوان سے لکھتا ہوں،کوشش ہوتی ہے کہ عام کشمیری کی زبان بنوں،متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے اس باشندے کی آواز بنوں جو بے زبان ہے ،جس کی کوئی نہیں سنتا۔ہمارے معاشرے کا چلن بن چکا ہے کہ کوئی بھی کام ذاتی مفاد ہوئے بغیر نہیں کیا جاتا۔کئی قلمکار بھی جب لکھتے ہیں تو اکثر یہی بات متمع نظر ہوتی ہے۔ مجھے آئے روز مختلف علاقوں سے لوگوں کے ٹیلی فون آتے رہتے ہیں اور اکثر اپنی مشکلات،مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس موضوع پر لکھنے کی درخواست کرتے ہیں۔میں ہر ایک سے لکھنے کا وعدہ کر لیتا ہوں ،کبھی اس کے مطلوبہ موضوع پر لکھ لیتا ہوں اور کبھی خواہش کے باوجود وہ موضوع لکھنے سے رہ جاتا ہے۔آج بے بسی ،لاچارگی کی یہ تصویر دیکھی تو دل بے چین ہو گیا۔

برادرم سید سلیم گردیزی نے فیس بک پہ جلال آباد میں گھومنے والے اس گدھے کی ایک تصویر اپ لوڈ کی۔تمام علاقے ان دنوں شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں اور شدید سردی کے اثرات انسانوں کے علاوہ جانوروں کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔کسی نیک دل انسان نے شدید سردی کے اس موسم میں اس لنگڑے گدھے کی بے چارگی،بے بسی دیکھتے ہوئے ایک رضائی اس کے جسم پر لپیٹ کر رسی سے باندھ دیا تاکہ وہ کسی حد تک ہلاکت خیز سردی سے محفوظ رہ سکے۔میں اس گدھے کو سردی سے بچانے کی کوشش کرنے والے اس عظیم انسان کو نہیں جانتا لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ شخص ضرور کوئی غریب شخص ہی ہو گا،کیونکہ ایک غریب شخص ہی کسی کے دکھ،درد اور مصیبت کا احساس کر سکتا ہے ،اس کی مدد کر سکتا ہے۔دولت والوں میں عمومی طور پر ایسی خداترسی دیکھنے میں نہیں آتی کہ وہ کسی غریب کی مشکلات ،اس کی مصیبت کا احساس کر سکیں۔تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گدھے کی اگلی دائیں ٹانگ ٹوٹی ہو ئی ہے اور وہ سر اور نظریں جھکائے چلا جا رہا ہے۔کبھی یہ خصلت انسانوں میں ہوتی تھی کہ سر اور نظریں جھکا کر چلتے تھے،اب گردن ،سینہ اکڑا کر اور نظریں آسمان پر رکھنے کا رواج ہے۔ہاں کچھ لوگ اب بھی سر تو نہیں لیکن نظریں جھکا کر ملتے ہیں کہ کہیں نظریں ملانے پر اگلے کا لحاظ ہی نہ کرنا پڑ جائے۔کہتے ہیں کہ یہ بھی سرکاری تربیت کا ایک سبق ہوتا ہے۔

ایک مغربی ملک نے معذور اور ناکارہ جانوروں کے لئے''عمر لائ'' کے نام سے ایک قانون بنایا ہے جس کے تحت معذور اور ناکارہ جانوروں کے رہنے اور خوراک کا بندوبست سرکاری طور پر کیا جاتا ہے۔حضرت عمر نے اپنے دور حکومت میں سب سے پہلے معذور ،ناکارہ جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے زمینیں مخصوص کیں جہاں ایسے جانوروں کی دیکھ بھال کا مناسب بندوبست کیا جاتا تھا۔معذور جانوروں کی لیئے ان مخصوص چراہ گاہوں کے کچھ حصے میں لمبی گھاس میں اگائی جاتی تھی تا کہ جو جانور اپنا سر جھکانے کے قابل نہیں،وہ بھی آسانی سے گھاس کھا سکے۔

محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ کے علاوہ وہ کون سا سرکاری ادارہ ہے جو آزاد کشمیر میں قائم نہیں۔آزاد کشمیر تحریک آزادی کشمیرسے آئینی و قانونی طور پر لاتعلق ہو کر مقامی سطح کے امور و مفادات میں محدود ہوا تو ہر شعبے میں انحطاط پذیری حاوی ہو گئی۔آزاد کشمیر حکومت اور سرکاری نظام کو '' کھانے پینے'' کا ذریعہ سمجھ لینے سے آزاد کشمیر حکومت ،محکمے''11قلی12میٹ'' کا منظر پیش کر رہی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے آزاد کشمیر کا ترقیاتی بجٹ تقریبا دوگنا کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر حکومت کا مالی خسارہ''شیطان کی آنت'' کی طرح بڑہتا ہی جا رہا ہے۔اس صورتحال میںکشمیر کاز سے اخلاص کیا ظاہر ہو گا،آزاد کشمیر کے مجبور اور عاجز عوام کو درپیش مسائل ،مشکلات اور مصائب کے احساس کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ہو سکتا ہے کہ کشمیر کاز اور آزاد کشمیر کے عوام کے لئے کچھ بہتر نہ کر سکنے میں آزاد کشمیر کے حکمرانوں کی مجبوری شامل حال ہو ،ان کے اوپر بیٹھے افرادان کو ایسی راہ اختیار کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوں۔لیکن یہ بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آزاد کشمیر حکومت سسک سسک کر جینے والے معذور،ناکارہ جانور وں کے لئے سرکاری سطح پر مستقل بندوبست کرے تو ان پر براجمان افراد کو کوئی اعتراض نہ ہو گا،بلکہ یہ انسانی ہمدردری کی ایک ایسی شاندار مثال بن جائے گی جسے بیرون ملک سے آنے والوں کو فخریہ طور پردکھایا جا سکے گا اور اس سے آزاد کشمیر کے حوالے سے بدنامیوں اور رسوائیوں کے علاوہ کچھ نیک نامی بھی ہاتھ آ سکتی ہے۔میں اس کالم کو '' دربدر بھٹکنے والے جانوروں کی فریاد'' کا عنوان بھی نہیں دے سکتا کہ ایسے جانور ہم جیسے انسانوں کی خصلت سے تو واقف ہو ہی چکے ہوں گے کہ اس قسم کے حضرت انسان سے کسی قسم کی خیر خواہی کی توقع عبث ہے،لیکن یہ ہمارے ثابت کرنے کی بات ہے کہ ہم اچھے لباسوں میں ملبوس انسان ہیں جانور نہیں۔ جسے جانوروں کی مصیبت پر ترس نہیں آتا ،اسے انسانوں کی بے بسی پر بھی کبھی رحم نہیں آ سکتا۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 608953 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More