لاپتہ سوشل ایکٹیویسٹ

گمشدہ افراد کے لئے آواز اُٹھانے والا اور سوشل میڈیا پر مقبول ہونے والی نظم کافر کافر تو بھی کافر ، کافر کافر میں بھی کافر ، کا خالق اور فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی کا پروفیسر سلمان حید ر گزشتہ جمعے سے گمشدہ افراد میں شامل ہوگئے ہیں ، اور یہ واحد شخص نہیں اس سمیت اب تک اطلاع ہے کہ گیارہ سوشل ایکٹیویسٹ اور بلاگرز کو اٹھایا گیا ہے اور یہ سارے وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر کافی ایکٹیو تھے اور بلاگ لکھا کرتے تھے، اس بات کا علم کیسے ہوا ، کیوں کہ جب سے یہ بلاگرز لاپتہ ہوئے ہیں اسی دن سے کچھ پیجز اور گروپس جیسے روشنی، بھینسا، موچی ، وغیرہ بھی غائب یا غیرفعال ہوگئے ہیں اور شاید یہی لاپتہ افراد ہی ان پیجز کے ایڈمن تھے۔مگر اس میں کہاں تک حقیقت ہے اس بارے میں کوئی معلومات کسی کو بھی نہیں ہم نے اتفاق سے بہت سے پیجز کا وزٹ کیا ہے روشنی میں ایک خاص قسم کے الٹرا سیکولر نقطہ نظر کی تحریریں شائع ہوتی تھیں، مگر معتدل تحریریں بھی یہاں پر موجود تھیں مگر بھینسا ایک نہایت فضول قسم کا پیج تھا، میں نے خود کئی دفعہ اس پیج کے حوالے سے اور کچھ دیگر پیجز ،واجد کی واجدانیاں، سبزی والا، زلان سمیت بہت سے پیجز کے بارے میں فیس بک کو شکایت لگائی تھی کہ یہ غلط قسم کا مواد شائع کر رہے ہیں جس پر کچھ پیجز سے تصویریں ہٹادی گئیں اور کچھ کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ہماری پالیسی کے مطابق ہیں اس لئے اس کو ریمو نہیں کرسکتے میری طرح بہت سے لوگوں نے بھینسا پیج کے سکرین شاٹس شیئر کیے تھے جس سے سب کو معلوم ہواتھا کہ یہ مذہب مخالف بلکہ مذہب اور خدا، اس کے پیغمبروں کی توہین کرنے والا پیج ہے۔ اگر سلمان حیدر یا کسی اور کا بھینسا سے تعلق ہے تو یہ بہت افسوسناک بات ہے۔ بھینسا کے ایڈمنز پر یقینی طور پر قوانین کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے، مگر یہ سب ریاستی قانون کے مطابق کیا جائے، جس میں ملزم کو اپنی صفائی کا حق ملنا چاہیے۔سوشل میڈیا پر متحرک سیکولر سوچ رکھنے والے بلاگرز میں ایک کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ کہ وہ پولیو کے مریض ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم سائیبر سکیورٹی کے مطابق بلاگرز وقاص گورایا اور عاصم سعید چار جنوری سے لاپتہ ہیں۔ جبکہ رضا نصیرہفتہ کے دن سے لاپتہ ہیں اب ایک اور فر د ثمر عباس بھی ایک لسٹ میں آگئے ہیں ۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ پہلے سندھ اور پھر بلوچستان میں لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا اور اب سول سوسائٹی کے افراد کو بھی اٹھایا جارہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ سلمان حیدر اور دیگر افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں کر رہی ہے مگر ہماری عدالتیں بے بس ہیں، ہماری سول سوسائٹی بھی لاچار ہے اور ہمارے سیاستدان بھی بے کار ہیں کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ ان کا راستہ روک سکیں سلمان حیدر گیا وہ پتا نہیں واپس لوٹتا ہے یا باقی زندگی اْس کی اونچی دیواروں کے عقوبت خانوں میں کٹتی ہے اس کا مجھے پتا نہیں مگر ایک چیز کا مجھے پتا ہے وہ یہ کہ یہ سلسلہ رْکے گا نہیں۔ کل ہم یا ہمارے دوست اس ظلم کا شکار ہوں گے اور ہمارے زخموں میں ایک اور زخم کا اضافہ ہو جائے گا۔کیونکہ یہ ریاست فقیروں اور انسانوں کیلئے نہیں ہے یہ عقابوں اور شاہینوں کی ریاست ہے اس میں فاختہ کا زندہ رہنا محال ہے۔ اس لئے تو سلمان حیدر اپنی بیوی کو ٹیکسٹ کر کے بتا رہا تھا کہ آٹھ بجے تک آ جاؤنگا۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے گھر والوں کو خدشہ ہوتا ہے کہ جو باہر گیا ہے پتا نہیں لوٹ بھی پاتا ہے یا انجانے راستوں میں کھو کر پھر گھر کا پتا نہیں پاتا۔اب تو یہ بات سینیٹ میں چوہدری نثار صاحب نے بھی قبول کرلی ہے کہ سلمان حیدر خفیہ اداروں کے مہمان ہیں تو یعنی کہ وقاص گورایہ عاصم سعید اور احمد رضا بھی انہی اداروں کی تحویل میں ہیں یہ بات سمجھ سے باہر ہوگئی ہے کہ حساس ادارے کیونکر قانون سے بالاتر ہیں اداروں نے چار افراد ماورائے عدالت اٹھائے، ساتھ ہی تین پیجز بلاک ہوئے. یہاں سے یہ تاثر قائم کیا گیا کہ جو بھی اغوا کیا جارہا ہے، دراصل اس کا تعلق شر پسندی میں ملوث کسی پیج سے ہے سوال یہ ہے کہ جب افراد حراست میں ہیں اور یہ علم ہوچکا کہ وہ سماجی ذرائع ابلاغ پر کسی خلاف آئین وقانون سرگر میوں میں ملوث تھے، تو پھر مشکل کیا تھی؟ کیا یہ زیادہ مناسب اور زیادہ آسان نہیں کہ تمام افراد کو عدالت میں پیش کرکے قانونی کارروائی کی جائے..؟کیا ایسے میں قانونی کارروائی اور بھی آسان نہیں ہوجاتی کہ جب سائبر کرائم بل جیسا غیر متوازن قانون موجود ہو.؟ وہ قانون جس کی ہر دوسری شق آپ ہی کو سہولت مہیا کرتی ہے؟ ملزم پر قتل کا الزام ہی کیوں نہ ہو اس کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتامشکل مگر یہ ہے کہ غیر جمہوری عناصر قانون کے سامنے جواب دہی کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں انہیں تسکین ملتی ہے، جب یہ منتخب ایوان اور عدل کے ایوان کو پامال کر کے شہری کو غائب کرتے ہیں، خود فیصلہ سناتے ہیں اور خود ہی تازیانے برساتے ہیں ماورائے عدالت اٹھائے گئے بلاگرز کے گرد جرائم کی پر اسرار لکیر کھینچ کر مزید جبری گمشدگیوں کو جواز بخشنے کی بجائے قانونی کاروائی کرکے ان کے جرائم سے دو اور دو چار کی طرح آگاہ کیا جائے اور یہ بھی ایک حقیقت کہ ایک کالعدم تنظیم دارالحکومت کے مرکز میں جلسہ کرتی ہے، مگر ایک باشعور سماجی کارکن کو اسی شہر سے اٹھا لیا جاتا ہے، ہماری حکومت کی خامیوں کی طرف اشارہ ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کے سلمان حیدر نقاد تھے۔جب تشدد کو قبول کر لیا جائے مگر اختلاف کو کچل دیا جائے تو یقین رکھیں کہ مستقبل قلم سے نہیں بندوق سے لکھا جا رہا ہے۔سچ کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ خطرات کو نظرانداز کرنے والے لوگ زیادہ نہیں، مگر جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ نہ صرف ایک دوسرے سے ذہنی طور پر منسلک ہوتے ہیں، بلکہ ٹارچر سیلز میں اور قیدخانوں میں بھی انہیں اپنے ساتھی مل جاتے ہیں۔

اگر لکھنا اور شاعری یہاں جرم ہے، تو یہ جان لیا جائے کہ نظم مزاحمت کرے گی، اور تب تک لڑے گی جب تک کہ سلمان حیدر اور ان جیسے دیگر کارکنان بحفاظت اپنے گھروں کو نہیں لوٹ جاتے یوں ہی ہم اپنی اپنی کھولیوں میں بند ہو کر ظلم سہیں گے، غدار اور ایجنٹ کے بے بنیاد القابات سے اپنے دامنوں کو داغدار ہوتا دیکھ دیکھ کے جئیں گے۔ حیف ایسی زندگی پر مْجھے بھی لے جاو یارو اور گْم کردو اب اور درد نہیں سہے جاتے۔ یوں ہی کب تک اپنی روح کے زخموں کو ان کے نمک پاروں سے سڑتا ہوا برداشت کریں۔ حد ہوتی ہے، مگر یہاں کوئی حد نہیں کوئی ضابطہ نہیں، کوئی انسانیت نہیں بس ہر طرف جہالت اور ظلم کے چلتے پھرتے بْت ہیں جو زندہ لوگوں کو زمین دوز کرتے ہیں اور پھر باقی بچ جانے والوں کو ڈرا دھمکا کر بربریت کے اس دھندے کو جاری رکھتے ہیں۔اگر واقعی میں بھینسا جیسے پیجز کے پیچھے یہ لوگ شامل ہیں تو ان کو سز ادی جائے ان کو قانون کے دائرے کے اندر لایا جائے کیونکہ سائبر قانون موجود ہے اگر ان سب لاپتہ افراد پر کوئی الزام ہے تو قانونی تقاضے پورے کر کے شفاف عدالتی عمل کے ذریعے ہی سزا ملنی چاہیے۔ دین ، اخلاقیات، ائین کسی کو یوں اٹھا لینے کی اجازت نہیں دیتے۔
باقی ہم دعا کرتے ہیں کہ سلمان حید ر سمیت تمام لاپتہ افرادواپس اجائیں کیونکہ اس دعا کے سواہم کچھ نہیں کرسکتے
A Waseem Khattak
About the Author: A Waseem Khattak Read More Articles by A Waseem Khattak: 19 Articles with 20469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.