کہ عدو آنکھ اُٹھانے کی بھی جرأت نہ کرے

کچھ دن اپنی اہمیت اور ولولہ انگیزی میں کچھ ایسے انوکھے اور یادگار ہوتے ہیں کہ جب بھی انہیں یاد کیا جائے نئے جذبوں کا باعث بن جاتے ہیں ایسا ہے ایک دن آج سے پینتالیس سال پہلے آیا تھا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان شدید کشیدگی چل رہی تھی سرحدی جھڑپیں جاری تھیں لیکن باقاعدہ جنگ نہ چھڑی تھی اور نہ ہی اس کا اعلان ہوا تھا۔ لیکن ہندو اپنی روایتی بلکہ مذہبی مکاری کے ساتھ منصوبہ بندی میں مشغول تھا کہ کیسے اچانک بغیر اطلاع کے پاکستان پر دھاوا بولا جائے اور وہ پاکستان جس کے بارے میں اُسکی پیش گوئی تھی کہ بس چند ماہ میں ختم ہوجائے گا کو اگر سترہ سال بعد بھی نیست و نابود کردیا جائے تو بھی خسارے کا سودا نہیں۔ سو اُس نے ایسا کرنے کی ٹھان لی لیکن حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی بلکہ نخوت نے اسے سرنگوں کر دیا۔

چھ ستمبر 1965 کو بھارت کی پندرھویں انفنٹری ڈویژن کے خوش فہم اور خواہ مخواہ کی احساس برتری میں مبتلا کمانڈر میجر جنرل پرساد نے اس خوش فہمی کے ساتھ لاہور پر برکی سیکٹر کی طرف سے حملہ کیا کہ وہ دوپہر کا کھانا لاہور جم خانہ میں کھائے گا۔ حملہ سے پہلے یقیناً اُس نے سوچا ہوگا کہ پاک آرمی آرام کی نیند سو رہی ہوگی لیکن اگر چوکیدار کی آنکھ لگ بھی جائے تو ایک کھٹکا اسے تازہ دم کرنے کو کافی ہوتا ہے پھر یہ پہرہ دار تو سوتے میں بھی جاگنے والے لوگ تھے۔ میجر جنرل پرساد نے بی آر بی عبور کی لیکن ابھی وہ اپنی فتح کا جشن منانے کا سوچ بھی نہ سکا ہوگا کہ پاکستانی ابابیلوں کی زد میں آگیا اور جب وہ شیر اور عقاب بن کر اس پر جھپٹے تو پھر نہ تو جمخانہ یاد تھا نہ لنچ ہاں ہر بھارتی سپاہی کو اپنی جان کی پڑ گئی یوں بھارتی فوج کو ایک سخت مزاحمت کے بعد پسپا ہونا پڑا یہ غیر اعلانیہ حملہ تھا لیکن اس کا جواب اعلانیہ حملے سے بڑھ کر دیا گیا۔

اگرچہ پاکستان اور بھارت کی سرحدی جھڑپیں جاری تو تھیں اسی دوران بھارت نے 15اگست کو سیز فائر لائن بھی عبور کی تاہم باقاعدہ جنگ شروع نہ ہوئی تھی لیکن چانکیہ کی ذہنیت ہمیشہ سازش اور خون کی خواہش رکھتی ہے اور بزدل ہمیشہ بے خبری میں حملہ کرتا ہے چور اور ڈاکو اپنی کاروائی اور اپنے پیشے کے لیے رات کی تاریکی کا ہی انتخاب کرتا ہے بس یہی سب کچھ بھارت نے کیا لیکن اس کے بعد کے واقعات کا انحصار مدمقابل یا صاحب خانہ کی ہمت پر منحصر ہے اسی چیز کا بھارت نے بہت غلط اندازہ لگایا تھا۔ اس حملے کا مقابلہ جس طرح پاک فوج نے کیا وہ تو تاریخ کا حصہ ہے ہی لیکن جس حوصلے اور ہمت کا ثبوت پاکستانی عوام نے دیا ویسی داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ لاہور کے باسیوں نے نہ صرف یہ کہ اپنا حوصلہ نہ ہارا بلکہ اپنی افواج کے لیے حوصلہ کا باعث بنے۔ کیمپس لگا لگا کر خون کے عطیے دیئے اتنی خوراک جمع ہوئی کہ جو ضرورت سے بہت زیادہ تھی۔ قوم نے جس جذبے اور حوصلے کا ثبوت دیا بھارتیوں کا حوصلہ پست کرنے کو وہی کافی تھا۔ یہ سب کچھ لاہور پر ہی موقوف نہیں تھا بلکہ شہریوں نے ہر موقع اور محاذ پر اسی جذبے کا مظاہرہ کیا اور یہی پشت پناہی تھی جس نے کسی موقع پر پاکستانی فوج کا جذبہ ماند نہ پڑنے دیا۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ بھارتی فوج کچھ محاذوں پر پاکستان کے اندر بھی گھس آئی لیکن ہر محاذ سے اس کو پسپا کردیا گیا جیسے بھارت کی ایک انفنٹری یونٹ باٹا پور تک آگئی تھی لیکن پاکستانی جیالوں نے نہ صرف اُنہیں پسپا کیا بلکہ بھاگتے ہوئے وہ اپنا اسلحہ اور گاڑیاں تک چھوڑ گئے اور پسپائی اور شکست کی شرمندگی ساتھ لے گئے۔ اسی یونٹ نے ڈوگری پر قبضہ کیا لیکن 21ستمبر کو انہیں وہاں سے بھی بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا انہی وقتی کامیابیوں کا بھارت نے انتہائی پرچار کیا لیکن یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ وقتی کامیابی کامیابی نہیں کہلائی جاسکتی۔

اسی جنگ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی دوسری بڑی لڑائی لڑی گئی خود کو فخر ہند کہلانے والی فرسٹ آرمڈ ڈویژن نے سیالکوٹ کو ترنوالہ سمجھتے ہوئے اس پر چڑھائی کی لیکن وہ بھی پاکستانی ٹینکوں ہی نہیں بلکہ پاکستانی ہمت کے سامنے نہ ٹک سکی۔

موجودہ دور کی جنگیں صرف زمین پر نہیں فضاؤں میں بھی لڑی جاتی ہے اور پاک فضائیہ نے جنگ ستمبر میں عزم و ہمت کی جو لازوال داستان رقم کی وہ دیو مالائی داستانوں سے کم نہ تھی اُس نے بھارتی فضائیہ کو ناکوں چنے چبوائے جام نگر اور پٹھان کوٹ آج بھی اُن حملوں کی یاد سے لرز جاتے ہونگے پٹھاں کوٹ پر حملے کے اگلے دن ایک پیغام ہمارے سیٹ نے پکڑا جو خود ہی اس حملے کی کامیابی کی پوری کہانی سنادیتا ہے اور وہ تھا ’’پٹھان کوٹ جل رہا ہمیں فوری مدد کی ضرورت ہے‘‘۔

میجر عزیز بھٹی تھا یا وطن کا کوئی اور سپوت یا کوئی گمنام سرفروش ہر ایک نے اپنا حق ادا کیا اور زندہ قوم ہونے کا بھرپور ثبوت دیا۔اور یہ سب کچھ اپنے سے تین گنا بڑے اور کئی گنا طاقتور دشمن کے مقابلے پر کیا گیا اگرچہ ہندوستان نے اپنی کامیابی کا بھرپور پروپیگنڈہ کیا لیکن جو خفت اُسے اعلان جنگ کے بغیر حملے پر اور پھرشرمناک پسپائی پر اُٹھانی پڑی وہ بذات خود بہت بڑی ناکامی تھی۔

جنگ ستمبر میدان میں تو غیر فیصلہ کن رہی لیکن تاریخ نے ایک فیصلہ ضرور دیا کہ قوم متحد اور منظم ہو تو اُسے شکست نہیں دی جا سکتی اور اسی لیے پاکستانی قوم فتح مند رہی کسی لمحے اس کا مورال گرا نہیں بلکہ ہر لمحہ جذبوں سے بھرپور رہا شہادت یوں تو ویسے بھی مسلمان کا فخر ہے لیکن قوم نے اس سترہ دنوں کی جنگ میں ہر شہادت کو اعزاز سمجھ کر اپنے سینے پر تمغے کی طرح سجایا۔

یوں تو یہ آج سے پینتالیس سال پہلے کی کہانی ہے لیکن قوم کو سربلند کرنے کے لیے آج بھی کافی ہے۔ لیکن آج جس بات کی ضرورت سب سے زیادہ ہے وہ قومی یکجہتی اور قومی اتحاد ہے قوم آج بھی مشکل حالات سے دوچار ہے اور اسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے ۔چیلنچ چاہے جنگ کا ہو، امن کے زمانے کا ہو، سیاسی عدم استحکام کا ہو، معیشت کا ہو یا قدرتی آفت کا سب کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی یکجہتی اور اتحاد اور تنظیم کے اصول ہی کام آتے ہیں آج بھی ہمیں مقابلہ کرنے کی ہمت ہر وقت رکھنی ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اسے حادثوں کا منتظر نہیں رہنا چاہیے بلکہ خدانخواستہ کسی بھی حادثے کی پیش بندی کر کے رکھنی چاہیے اور اُس جذبے کو ہمیشہ زندہ رکھنا ہے جس نے ہمیں ایک بڑی آزمائش میں سرخرو کیا تھا اور آئندہ بھی یہ جذبہ ہمیں زندگی کے ہر میدان میں کامیاب وکامران کر سکتا ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552484 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.