شادی آسان کروتحریک ،شادی بیاہ کے معاملات اوردعوت عام

اس تحریرمیں ہم ایسے موضوع پرلکھ رہے ہیں جس کی ہمارے معاشرے میں اشدضرورت ہے۔ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں بات کرنی ہوتی ہے وہاں نہیں کی جاتی اورجہاں نہیں کرنی ہوتی وہاں کردی جاتی ہے۔جہاں اعتراض کیاجاسکتاہے وہاں نہیں کیاجاتااورجہاں نہیں کرناچاہیے وہاں اعتراض در اعتراض کیے جاتے ہیں۔یوں تومعاشرے میں بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں ا صلاحات اوران کے متعلق عوام تک درست معلومات پہنچانے کی ضرورت ہے۔اس دنیامیں بہت سی تحاریک بھی چلیں اورکامیاب ہوئیں۔ بہت سی تحریکیں اب بھی چل رہی ہیں۔کسی بھی تحریک کے چلانے کاکوئی نہ کوئی مقصداوروژن ہوتا ہے۔کسی بھی تحریک کامقصدکب تک پوراہوتا ہے اس کاوقت نہیں بتایاجاسکتا۔کوئی بھی تحریک ہواس کی حمایت بھی ہوتی ہے اورمخالفت بھی۔اسے کامیاب اورناکام بنانے کی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے۔معاشرے میں جتنے بھی اموراصلاح طلب ہیں ان میں ایک معاملہ شادی بیاہ کابھی ہے۔موجودہ دورمیں اولادکی شادی کرنے کے سلسلے میں والدین کوجومشکلات پیش آتی ہیں اس سے تمام قارئین اچھی طرح واقف ہیں۔کتنی ہی ایسی لڑکیاں ہیں جن کے سروں میں چاندی آگئی مگروہ اپناگھرآبادنہ کرسکیں۔کتنے ہی ایسے مردہیں جوجوانی کے دورسے گزرچکے ہیں مگروہ بھی اپناگھربسانے سے محروم ہیں۔کچھ لوگ اس کاذمہ دارجہیزکوٹھہراتے ہیں ، اس جہیزکے خلاف انہوں نے موومنٹ بھی چلارکھی ہے، حقیقت میں ایسانہیں ہے، اکثرلوگ ا س صورت حال کاذمہ داردولہااوراس کے ورثاء کوسمجھتے ہیں یہ بھی درست نہیں ہے،کسی بھی معاملے کواچھی طرح سمجھنے میں ہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ہم اس معاملے کوتمام زاویوں سے نہ دیکھیں، اکثرایسا ہوتا ہے کوئی بھی معاملہ ہوہم اسے ایک ہی زاویے دیکھتے ہیں اوراپنی رائے قائم کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری رائے حقائق کے برعکس ہوتی ہے۔یہی معاملہ شادی بیاہ کابھی ہے اکثرلوگ اس معاملہ کوایک ہی زاویہ سے دیکھتے ہیں۔اب تک پارلیمنٹ میں اس حوالے سے جتنی بھی قانون سازی کی گئی ہے وہ اسی ایک ہی زاویہ کوسامنے رکھ کرکی گئی ہے۔یہ بات توسب جانتے ہیں کہ موجودہ دورمیں شادی کرناکتنامشکل ہے ۔یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ اس کے ذمہ داربھی ہم خودہیں۔ہم نے خودہی شادی بیاہ کومشکل سے مشکل بنایاہواہے۔شادی بیاہ کے مواقع پربہت سے ایسے کام ہم کرتے ہیں وہ نہ کیے جائیں توشادی پرکوئی اثرنہیں پڑتا۔ہم نے ایسی بہت سی رسومات کوضروری سمجھ رکھا ہے جوشادی بیاہ کے لیے کوئی ضروری نہیں ہیں۔ہم نے لڑکے کی شادی کرنی ہویالڑکی کی توسب سے پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دوسرافریق کسی اچھی ملازمت کاوسیع کاروبار یا وسیع جائیدادکامالک ہو،اس کے افعال وکردارسے ہیں کوئی غرض نہیں ہوتی، جرائم پیشہ کوتورشتہ دے دیاجاتا ہے کہ اللہ ہدایت دے گا،مگرغریب کوانکار کردیا جاتا ہے، فیس بک پردرست ہی لکھاہواہے کہ جواللہ تعالیٰ جرائم پیشہ کوہدایت دے سکتا ہے کیاوہ غریب کواس کی ضروریات کے مطابق رزق نہیں دے گا۔ یقیناًدے گا۔امیرہویاغریب سب کواللہ تعالیٰ ہی رزق دیتا ہے۔ہم جس طرح نکاح کاپیغام قبول یامستردکرتے ہیں اس کے بارے میں سرکاردوعالم کا فرمان عالیشان پڑھیں اورغورکریں کہ ہم کیاکررہے ہیں اورکیاکرناچاہیے ۔ کتاب تحفۃ العروس کے صفحہ ۴۴پرلکھا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے پاس کوئی ایساشخص نکاح کاپیغام بھیجے جس کے دین اوراخلاق سے تم راضی ہوتواس سے نکاح کرادو!اگرتم ایسانہ کروگے توزمین میں فتنہ اور لمباچوڑافسادہوگا۔اسی صفحہ پرایک اورحدیث شریف درج ہے وہ یہ کہ کسی بھی عورت سے ان چارچیزوں کے سبب نکاح کیاجاتاہے ۱۔ اس کے مال کی وجہ سے ،۲۔حسن نسب کی وجہ سے،۳۔اس کے دین کی وجہ سے،۴۔اس کے حسن وجمال کی وجہ سے لیکن دیکھوتم دین والی عورت سے نکاح کرناتمہارے ہاتھ مٹی میں مل جائیں۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شادی بیاہ کرتے وقت دولت، کاروبار،ملازمت، جائیدادنہیں اخلاق اورکردارکودیکھناچاہیے۔شادی بیاہ کے سلسلے میں جوامورضروری ہیں ان میں نکاح کے ساتھ حق مہرکی ادائیگی ہے۔ یہ حق مہرموقع پربھی دیاجاسکتا ہے اوربعدمیں بھی۔حق مہرکے سلسلے میں چند احادیث مبارکہ لکھنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں تاکہ یہ بات ذہن نشین ہوجائے نبی کریم اورصحابہ کرام نے کتناکتناحق مہراداکیا اورکتنااداکرناضروری ہے۔کتاب تحفۃ العروس کے صفحہ ۹۶ پریہ حدیث مبارکہ لکھی ہے کہ مبارک عورت وہ ہے جس سے منگنی کرناآسان ہو،جس کامہردیناآسان ہواورجس کے ساتھ حسن سلوک کرناآسان ہو۔کتاب تحفۃ العروس کے صفحہ نمبر۱۷ اورکتاب انوارالحدیث کے صفحہ ۵۹۲پرہے کہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیاکہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کامہرکتناتھا؟انہوں نے فرمایاحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کامہرآپ کی اکثر بیویوں کے لیے بارہ اوقیہ اورایک نش تھاپھرحضرت عائشہ نے فرمایاجانتے ہونش کیاہے ،میں نے کہانہیں فرمایانصف اوقیہ توسب مل کرپانچ سودرہم ہوئے ۔ پانچ سودرہم ایک سوپینتالیس تولہ دش ماشہ چاندی بنتی ہے ،تحفۃ العروس کے صفحہ ۱۷ پرہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خاتون جنت سے نکاح کیاتوحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایااسے کچھ مہراداکرو،عرض کی میرے پاس توکچھ بھی نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاتمہاری تانت والی زرہ کہاں ہے چنانچہ آپ نے وہی زرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کوعطافرمائی۔انوارالحدیث کے صفحہ ۶۹۲ پرہے کہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکامہرچارسودرہم یعنی ایک سوساڑھے سولہ تولے چاندی تھی۔اسی کتاب کے اسی صفحہ پرلکھا ہے کہ کم سے کم مہردس درہم یعنی دوتولہ ساڑھے گیارہ ماشہ چاندی ہے،زیادہ کی کوئی حدمقررنہیں ۔کتاب قانون شریعت کے صفحہ نمبر۷۸، سنی بہشتی زیورکے صفحہ ۵۰۴ پربھی یہی مقدارلکھی ہے۔حق مہراوراحادٰیث مبارکہ اورصحابہ کرام کے طرزعمل بھی موجودہیں جوکسی اورتحریرمیں لکھے جائیں گے۔شادی کے لیے دوسری بات جہیزکی ہے۔ اس جہیزکولکھنے والوں نے لعنت لکھا ہے انہیں ایسالکھنے پرتوبہ کرنی چاہیے ،جہیزلعنت نہیں سنت ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکوجہیزمیں ایک کمبل ایک تکیہ دیاجوازخر،خشک گھاس سے بھراہواتھا۔حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی شادی میں ہم شریک تھے اس سے بہترشادی کی تقریب ہم نے نہیں دیکھی،ہم نے ان کے بسترمیں پتیاں بھردیں ۔پھرکھجوراورکشمش اکٹھاکیااوراس کوہم نے تناول کیا۔شادی کی رات ان کابسترمینڈھے کی کھال کابناہواتھا۔کتاب جنتی زیورکے صفحہ ۳۰۱پرلکھا ہے کہ ماں باپ کچھ کپڑے، کچھ زیورات کچھ سامان برتن ،پلنگ، بستر،میز،کرسی، تخت،جائے نماز، قرآن مجید،دینی کتابیں وغیرہ دے کرلڑکی کواس کے سسرال بھیجتے ہیں ۔یہ لڑکی کا جہیزکہلاتاہے ،بلاشبہ یہ جائزہے بلکہ سنت ہے کیونکہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اپنی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں کچھ سامان دے کررخصت فرمایاتھا،لیکن یادرکھوجہیزمیں سامان کادیناماں باپ کی محبت وشفقت کی نشانی ہے اوران کی خوشی کی بات ہے ،ماں باپ پرلڑکی کوجہیزدینافرض یاواجب نہیں ہے۔لڑکی اوردامادہرگزہرگزیہ جائزنہیں ہے کہ وہ زبردستی ماں باپ کومجبورکرکے اپنی مرضی کاسامان جہیزمیں وصول کریں۔ قانون شریعت کے صفحہ ۴۹ پرمسئلہ لکھاہے کہ لڑکی والوں نے نکاح یارخصت کرتے وقت شوہرسے کچھ لیاہویعنی بغیرلیے نکاح یارخصت سے انکار کردیا ہو اور شوہرنے دے کرنکاح یارخصت کرایاہوتوشوہراس چیزکوواپس لے سکتاہے اوروہ نہ رہی تواس کی قیمت لے سکتاہے یہ رشوت ہے ۔جہیزکے بعدشادی بیاہ کے سلسلے میں ولیمہ ہے۔تحفۃ العروس کے صفحہ نمبر۷۵۱پرہے کہ حضرت بریدہ بن حصیب کہتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے نکاح کیاتوحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاشادی(ایک اورروایت میں ہے کہ شادیوں)کے لیے ولیمہ ضروری ہے۔حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے کپڑوں پرزردی کانشان دیکھاتوتوفرمایایہ کیاہے انہوں نے عرض کی کہ ایک گٹھلی بھرسونے کے بدلے میں نے ایک خاتون سے نکاح کیاہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاخداتمیں برکت دے ایک بکری ہی کاولیمہ کرو۔انوارالحدیث کے صفحہ ۸۹۲پرہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے فرمایاسب سے براکھاناولیمہ کاوہ کھانا ہے جس کے لیے صرف مالدارلوگ بلائے جائیں اورغریب محتاج لوگوں کونہ پوچھاجائے۔تحفۃ العروس کے صفحہ ۸۵۱پرہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک چھوٹے سے دسترخوان پرمالیدہ (کھجور ،پنیر اور گھی)بنوایا۔پھرفرمایاآس پڑوس والوں کوبلوالوحضرت صفیہ سے نکاح کے وقت یہی آنحضرت کاولیمہ تھا۔حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کوولیمہ کرنے کاحکم دیاتوان کی استطاعت نہ تھی تب سعدنے کہامیں بھیڑلاتاہوں فلاں فلاں نے کہامیں اس قدرجولاتاہوں ایک اورروایت میں ہے کہ انصارکے ایک گروہ نے چندسیرجوحاضرکیے۔یہ ہیں وہ امورشادی بیاہ کے مواقع پرانجام دے دیے جائیں تونکاح ہوجاتاہے۔جہیزلڑکیوں والوں کی مرضی پرہے جتناچاہیں دیں اس کی کم یازیادہ کی کوئی مقدارمقررنہیں۔حق مہردولہاکی ذمہ داری ہے کم سے کم کی حدمقررہے زیادہ کی نہیں۔ولیمہ دولہاکی ذمہ داری ہے اس کی مقداراحادیث مبارکہ میں پڑھ چکے ہیں۔اس کے علاوہ رسم حناحاورمیل سمیت جتنی بھی رسمیں اوررواج ہیں وہ سب غیرضروری ہیں۔ان رسموں سے اجتناب کیاجائے توبہترہوگا۔شادی بیاہ کے مواقع پردولہااوردلہن والوں کاایک دوسرے مطالبات کرنابھی مناسب عمل نہیں۔اولادکی شادی کرنافریقین کی ذمہ داری ہے ۔موجودہ دورمیں اس ذمہ داری کودوسرے فریق پراحسان لگاکراوراس کی قیمت وصول کرکے اداکیاجاتاہے۔جوکہ انتہائی نامناسب عمل ہے۔بہترشادی وہ ہے جس پرکم سے کم اخراجات آئیں۔راقم الحروف نے شادی بیاہ کی فضول رسموں، فریقین کے بے جامطالبات اوربھاری اخراجات کوختم کرنے اورمسلمانوں کواسلامی تعلیمات کے مطابق شادی بیاہ کے معاملات سے آگاہ کرنے کے لیے ’’ شادی آسان کروتحریک ‘‘شروع کردی ہے۔تمام مشائخ عظام، علماء کرام، سیاستدانوں، وکلاء، پروفیسرز، ٹیچرز، صحافیوں، کالم نویسوں، سماجی راہنماؤں ،مذہبی،سماجی تنظیموں اورمعاشرے کے دیگرسرکردہ طبقات وشخصیات کودعوت ہے کہ وہ اس تحریک کے ممبربنیں اوراپنے اپنے دائرہ کارودائرہ اختیارمیں رہتے ہوئے مسلمانوں کوفضول رسموں ،بے جااخراجات اور بے جامطالبات کے بغیرخالصتاً اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی بیاہ کرنے کی ترغیب دلائیں۔کیونکہ یہ تحریک شادی بیاہ کے اخراجات کوکم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے ا س لیے اس تحریک پربھی کم سے کم اخراجات کیے جائیں گے۔ شادی آسان کروتحریک کی ممبرشپ فری ہے۔راقم الحروف کے آرٹیکل کیونکہ ملک بھربلکہ بیرون ملک بھی پڑھے جاتے ہیں۔ اس لیے تمام پاکستانی مسلمانوں کودعوت ہے کہ اس تحریک کے ممبربنیں۔پھرلکھ رہاہوں کہ ممبرشپ کی کوئی فیس نہیں ہے۔ممبربننے کے لیے اپنانام ،ولدیت،قوم،پتہ، شعبہ، ذمہ داری،سماجی خدمات اگرہوں سادہ کاغذپرلکھ کربذریعہ ڈاک یاکوریئرسروس اس پتہ پربھیج دیں ’’ محمدصدیق پرہار ساحل فوٹوسٹوڈیونزدریلوے پھاٹک چوبارہ روڈ لیہ۔خط میںیہ بھی لکھیں کہ اس تحریک میں آپ کیاکرداراداکرسکتے ہیں اورتحریک کوکس طرح کامیاب بنایاجاسکتاہے۔موبائل پرمیسج بھی کرسکتے ہیں نمبرہے ۵۵۱۹۹۹۷۶۰۳۰،اس سلسلہ میں راقم الحروف کی تحقیق جاری ہے۔اس تحقیق سے مناسب وقت پرممبران اورقارئین کوآگاہ کیاجاتارہے گا۔مناسب وقت پرتحریک کی تنظیم سازی بھی کی جائے گی۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350963 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.