گیس اور طلاق

 چند ہفتے قبل قومی اسمبلی میں طلاق کی باتیں سننے میں آرہی تھیں، اس فورم پر کوئی عام آدمی تو یہ بات کر نہیں سکتا، وہاں تک رسائی تو صرف معزز ممبران کی ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلاق کی باتیں مرد ممبران نہیں بلکہ خواتین کر رہی تھیں۔ کیوں نہ ہو کہ طلاق کو ایک نہایت ہی افسوسناک سانحہ قرار دیا جاسکتا ہے، دو افراد کی زندگی حسرتوں ، نفرتوں اور پریشانیوں سے اٹ جاتی ہے، اگر اُن کے بچے بھی ہوں تو طلاق کے اثرات نسلوں تک پھیل جاتے ہیں۔ طلاق کی اگرچہ بہت سے وجوہات ہوتی ہیں، مگر اسمبلی میں جو وجہ زیربحث آرہی تھی، وہ عام وجوہات سے منفرد اور انوکھی تھی۔ بتایا جارہا تھاکہ گھروں میں گیس کی بندش کی وجہ سے بھی نوبت طلاقوں تک آرہی ہے، جب گھر میں شوہرانِ نامدار کو بروقت ناشتہ نہیں ملتا تو صبح سویرے ہی اس کا موڈ خراب ہو جاتا ہے، یہ الگ کہانی ہے کہ کسی سرکاری افسر، کسی استاد یا کسی دکاندار کے گھر سے لڑائی کرکے نکلنے کے اثرات ونتائج پورا دن دیگر لوگوں کو بھگتنے پڑتے ہیں، افسر ہے تو ماتحت کی شامت، درجہ چہارم کو ڈانٹ ڈپٹ، استاد ہے تو سٹوڈنٹس کی ایسی تیسی اور اگر دکاندار وغیرہ ہے تو سارا دن گاہکوں سے دست وگریباں۔ یہ فطری چیز ہے، اور اسی لڑائی کا سب سے پہلا نتیجہ تو گھر میں ہی برآمد ہوگا، جہاں لڑائی ہو وہ جگہ فتنے اور فساد سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جو خواتین ممبرانِ قومی اسمبلی گھروں میں گیس نہ ہونے کو طلاق کی ایک وجہ قرار دے رہی تھیں، اور اپنی تشویش کا اظہار کر رہی تھیں، ان کا تعلق حکومتی پارٹی سے تھا، ممکن ہے بعد میں متعلقہ وزیر نے ان سے اپنی ہی حکومت کے خلاف باتیں کرنے پر جوابدہی کی ہو، یا حکومتی ایوانوں میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو، مگر ایسی کوئی خبر کم از کم ہماری نگاہ سے اوجھل ہی رہی ہے۔ طلاق سے چونکہ خواتین ہی براہِ راست متاثر ہوتی ہیں، اس لئے اس اہم ایشو کو خواتین ہی بہتر انداز میں اجاگر کر سکتی ہیں۔ یقینا ایسا بھی ہوا ہوگا کہ جن خواتین کو ناشتہ تیار نہ کرنے پر طلاق کی دھمکیاں ملی ہونگی، انہوں نے خواتین ممبرانِ اسمبلی تک ہی اپروچ کی یا کروائی ہوگی، اور اپنا مسئلہ اسمبلی کے فلور پر اٹھانے کی درخواست گزاری ہوگی، ان سے ہمدردی کی اپیل کی ہوگی۔ یہ معزز خواتین چونکہ خود بھی شوہر رکھتی ہیں، اس لئے ناشتے والے مسئلے کی سنگینی سے یہ بھی خوب آگاہ ہونگی، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ عام گھریلو خاتون اپنے شوہر کے لئے ناشتہ بناتی ہیں، مگر ممبران خواتین کے لئے ان کے شوہر ناشتہ بناتے ہیں، چنانچہ طلاق کی دھمکی کا یہاں سوال پیدا نہیں ہوتا۔ بہرحال کتنا مشکل مرحلہ ہے، جب زندگی بھر ساتھ نبھانے کے وعدے اور معاہدے کرنے والا بھی دھتکارنے پر اتر آئے تو عورت بیچاری پر جوگزرتی ہے ، اس کا اندازہ وہی لگا سکتی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ خواتین ممبران نے طلاقوں کی دھمکیاں ملنے والی خواتین کی کس طرح دلجوئی کی، کیسے ان کی جان خلاصی کروائی، کیسے انہیں طلاق جیسے عذاب سے بچایا، یا بس دیگر معاملات کی طرح صرف وعدوں پر ہی ٹرخا دیا، اور ’’کوشش کریں گے‘‘، کہہ کر اپنے سر سے بلا ٹالنے کی کوشش کی۔

اب تو روزانہ ہی گیس کی بندش کے خلاف احتجاج کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی اور ٹی وی چینلز پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ گزشتہ روز خانیوال میں گیس کی بندش کے طول پکڑنے پر گھریلو خواتین کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا، وہ گلی محلے سے نکل کھڑی ہوئیں، باہر نکلیں تو کارواں بنتا گیا، انہوں نے سوئی گیس کے دفتر پہنچ کر ہنگامہ کر دیا، توڑ پھوڑ کی، فرنیچر الٹ پلٹ کردیااور نعرہ بازی کی۔ وہاں ایک نسبتاً نو عمر خاتون نے دہائی دی کہ ’’میرا خاوند ناشتہ بروقت نہ ملنے پر طلاق دینے پر تُلا ہوا ہے، مجھے اس ظلم سے بچایا جائے․․‘‘ (حالانکہ اس ضمن میں مذکورہ خاتون مکمل بے بس اور بے قصور ہے)۔ یہاں اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ سُنا ہے ابلیس کو سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے، جب کوئی طلاق واقع ہوتی ہے، توانائی اور پٹرولیم کے وزیر صاحب سے ہماری درخواست ہے، کہ وہ گیس کی بندش کا خاتمہ کریں، تاکہ طلاقوں کا سلسلہ رک سکے، ان کے اس اقدام سے پاکستانی عوام میں خوشی کی ، اور ابلیس کے ہاں تشویش کی لہر دوڑ جائے گی۔ امید ہے وزیر موصوف اس درخواست پر ہمدردانہ غور ضرور کریں گے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472220 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.