لاپتا بلاگرز اور ریاست

دنیا میں سات ارب سے زائد انسان بستے ہیں جو تقریباً چار ہزار تین سو سے زائد مذاہب میں تقسیم ہیں جن میں دنیا کے چند بڑے مذاہب میں سے دو ارب کے قریب عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں ڈیڑھ ارب سے زائد اسلام کے پیروکار ہیں ایک ارب سے زائد ہندو مذہب کے پیروکار ہیں پچاس کروڑ سے زائد بدھا ازم اور ڈیڑھ کروڑ کے قریب یہودی مذہب کے پیروکار ہیں جبکہ تقریبا سوا ارب کے قریب سیکولر ملحدانہ نظریہ کے حامی لوگ ہیں جوکہ دو بڑے مذاہب کی آبادی کے بعد تیسری بڑی افرادی قوت ہیں اس کے علاوہ بھی مختلف عقائد و مذاہب سے جڑے لوگ آباد ہیں سب کی الگ الگ سوچ الگ الگ نظریات ہیں سب اپنے اندر ایک ٹھوس موقف اور نظریہ لیے بیٹھے ہیں ان میں سے کسی نے مذہب کے نام پر لکیر کھینچ رکھی ہے تو کسی نے نظریے کی بنیاد پر ذہنی تفریق قائم کررکھی ہے. ان لکیروں کو مٹانے اور تفریق کو ختم کرنے کیلئے ہر دور میں کوششیں کی جاتی رہی ہیں جب انسان پہاڑوں میں رہتا تھاجب انسان کی دسترس میں کچھ نہ تھا جب انسان آسمان کو حیرت سے تکتا رہتا تھا جب انسان سورج سے خوف کھاتا تھا بارشوں سے ڈرتا تھا ٹیکنالوجی کا دور دور تک کوئی پتا نہ تھا اس وقت بھی لوگ سوچتے تھے بولتے تھے اس وقت سننے والی سماعتیں اس طرح مہیا نہ تھیں جس طرح آج ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی بات کہہ گئے جانے کتنے ہی ذہنوں کو جنجھوڑ گئے آوازیں اٹھنے پر اس وقت بھی مختلف ہتھکنڈوں سے آوازوں کو دبایا جاتا تھا نہ باز آنے پر زہر کا پیالہ پلایا جاتا تھا سقراط سے لیکر سلمان حیدر تک کا سفر ایسے ہی تو طے نہیں ہوا پتھر کے دور سے کمپیوٹر کے دور میں انسان ایسے ہی تو داخل نہیں ہوا آوازیں اٹھتی رہیں زہر کے پیالے پیتے رہے یہ اور بات ہے پینے والوں کے لیے زہر کے پیالے امریت پیالے ثابت ہوئے۔ جدید سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ دنیا میں اب تک جتنی آوازیں گونج رہی ہیں سب فضاؤں میں محفوظ ہیں جس پر مزید تحقیق جاری ہے یہ میرے رب کا نظام ہے جس سے ثابت ہوا کسی بھی آوازکو سماعت تک پہنچنے سے روکا نہیں جاسکتاہے۔ تو آخر کیونکر یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے مسلسل آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جارہی ہے سوشل میڈیا بلاگرز سلمان حیدر، عاصم سعید اور وقاص گورایا سمیت دیگر بولنے والوں کی آوازوں کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں پندرہ دن سے لاپتا اِن بلاگرز کااب تک کچھ پتا نہیں ریاست پریس کانفرنس کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکی وزیرداخلہ پارلیمنٹ کو مطمئن کرچکے سنیٹ میں بھی انکے لئے آواز اٹھائی جاچکی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بول چکیں انسانیت کے علمبردار ممالک بھی اپنا حق جتا چکے سب اپنا روایتی فرض نبھاچکے لیکن لاپتا آج بھی لاپتا ہی ہیں جن کی تعداددن بدن بڑھتی جارہی ہے اگر کوئی توہینِ مذہب کا مرتکب ٹھہرا ہے یا کسی نے ریاست کے خلاف شرانگیزی کی ہے تو ان پر مقدمہ قائم کرتے ہوئے عدالت میں پیش کیا جائے جبکہ ملزمان کو اپنی صفائی میں کہنے کا پورا موقع دیاجائے سلمان حیدر سمیت دیگرلاپتا بلاگرز کے خلاف جس طرح کا مواد سوشل میڈیا پر چلایا جارہا ہے اگر اُس میں حقیقت ہے تو پھر دیر کس بات کی ہے مقدمات قائم کئے جائیں اور ملزمان کو کٹہرے میں لایا جائے لیکن اِس طرح لاپتا کرکے ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام نہ کیا جائے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے یہ کہنا کہ لاپتا بلاگرز جلد لوٹ آئیں گے اس کا مطلب انھیں معلوم ہے وہ کہاں ہے لیکن پھر بھی انھیں بازیاب کرانے میں تاخیری حربے استعمال کرنا عوام میں شک و شبہات کو جنم دینا ہے. یاد رکھیں اب پتھروں کا دور نہیں جہاں بولنے والے بھی کم اور سننے والے بھی کم ہوا کرتے تھے اب دورِ جدید ہے اب نہ بولنے والوں کی کمی ہے اور نہ سننے والوں کی آج انسان کی دسترس سے کچھ باہر نہیں اب نہ وہ آسمان کو حیرت سے تکتا ہے نہ سورج سے خوف کھاتا ہے آج کا انسان بارشوں سے ڈرتا نہیں اسے ابررحمت سمجھتا ہے لہذا اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ جہاں خرابی ہے اسے درست کرتے ہوئے ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے مسئلے کا واحد حل یہی ہے ۔

علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 116016 views کالم نگار/بلاگر.. View More