ہمارے ایک بزرگ بتاتے ہیں کہ اپنے دور میں وسائل نہ
ہونے کی وجہ سے بہت مشکل گزارا کیا ۔تعلیم حاصل کرنے میں سب سے بڑی مشکل یہ
تھی کہ آپکو میلوں سفر کرنا پڑتا تب جا کہ آپ سکول پہنچتے ۔اپنے دور زندگی
کا وہ ایک قصہ سناتے ہیں کہ پرائمری پاس کرنے کے بعد چھٹی جماعت میں داخلہ
کیلئے ان کے گھر سے قریب چار میل دور سکول جانا پڑا اور ہمارے گاؤں سے کوئی
خاص سواری بھی اس جانب نہیں جاتی تھی ۔اس دور میں سائیکل رکھنے والا چوہدری
ہوا کرتا تھا اور اس وقت سائیکل کی قیمت چھ سو روپے تھی جبکہ میں نے ایک
پرانی سائیکل تین سو روپے میں خریدی جس کے ذریعے میں سکول آنے جانے کا سفر
کرتا ۔کچھ وقت گزرا تو ایک دن راستے میں پڑے کیل نے میری سائیکل کے پچھلے
ٹائر والی ٹیوب میں پنکچر کر دیا جسے لگوانے کیلئے مجھے ایک میل کا سفر
کرنا پڑا اور تب جا کر ایک سائیکل مرمت والے سے اس کا پنکچر لگوایا جس کے
بعد میری سائیکل پھر سے چلنے کے قابل ہو گئی ۔کچھ عرصے بعد پھر سے میری
سائیکل کے پچھلے ٹائر کی ٹیوب پنکچر ہو گئی اور اس بار پھر مجھے اسی اذیت
کے ساتھ سفر کرنے کے بعد پنکچر لگوانا پڑا یہ ابھی میرا پہلا ہی سال کا
دوسرا مہینہ تھا سکول جاتے ہوئے ۔ایک ہفتہ پھر گزرا تو سکول سے واپسی کیلئے
سائیکل اٹھائی تھی کہ دیکھا کہ پچھلے ٹائر میں ہوا نہیں تھی قریب ہی ایک
ٹینکی والے شخص سے ہوا بھروائی اور چڑھ بیٹھا ایک میل سے کچھ زیادہ ہی سفر
کیا تھا کہ سائیکل کے ٹائر کی ہوا پھر نکل گئی اور پھر مجھے پہلے سے زیادہ
لمبا سفر کرنا پڑا سائیکل کے پچھلے ٹائر کو پنکچر لگوانے کیلئے جب پنکچر
لگانے والے کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ یہ پھر سے پنکچر ہو گیا ہے تو اس
نے کہا کہ اب اس ٹیوب میں تین پنکچر ہو گئے ہیں اسے تبدیل کر لو ورنہ ایک
دن ٹائر بھی خراب ہو جائے گا اور اسی طرح آئے روز ذلیل ہوتے رہو گے !میں نے
نئی ٹیوب کے پیسے پوچھے تو اس نے بتایا کہ دس روپے کی آئے گی لیکن میرے پاس
پنکچر لگوانے کے وہی دو آنے جیب میں تھے ۔میں نے اس مرمتی سے کہا کہ آپ فی
الحال پنکچر لگا دو میرے پاس پیسے کم ہیں بعد میں ٹیوب ڈلوا لوں گا ۔چونکہ
اس وقت وسائل کی بہتاط نہیں تھی اسی لئے پیسہ بھی اتنا عام نہیں تھا وہی جو
کھیتی باڑی سے کماتے اسی سے اگلی فصل کے کاٹنے تک گھر کا خرچ اور دیگر
اخراجات برداشت کرنے پڑتے گھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے والد محترم
سے پیسے نہیں مانگے اور خود ہی جو علاقے میں چھوٹا موٹا کام ملتا کر کے آنے
دو آنے کر کے پیسے اکٹھے کرنے لگا اسی دوران سکول آتے جاتے میرے پچھلے ٹائر
اور اگلے ٹائر کی ٹیوبوں میں کل ملا کر نو پنکچر ہو چکے تھے جن میں سے سات
پنکچر پچھلے ٹائر کی ٹیوب میں تھے اب حالت یہ تھی کہ ٹیوب خود ہی ہوا نکال
جاتی جس کیلئے مجھے آتے اور جاتے وقت ہوا بھروانی پڑتی تب سکول اور سکول سے
گھر پہنچتا لیکن چند ہی دنوں میں ہوا کا دورانیہ مختصر ہوگیا اور آتے جاتے
وقت دو مرتبہ ہوا بھروانی پڑتی اسی اثناء میں میرے پاس اڑھائی روپے اکٹھے
ہو گئے تھے جس سے میں نے پنکچر کا سامان اور ہوا بھرنے والا پمپ ذاتی خرید
لیا اب مجھے کسی کی محتاجی نہیں لینی پڑتی اور جہاں پنکچر ہوتا یا ہوا
بھرنے کی ضرورت پڑتی خود ہی کر لیتا ابھی وہی سال ختم نہیں ہوا تھا کہ
سائیکل کا ٹائر بھی جواب دے گیا اور پھر سائیکل بھی بے کار ہو گیا صرف ایک
ٹیوب کے نہ بدلنے اور اتنے زیادہ پنکچر ہونے کی وجہ سے میری تعلیم بھی گئی
اور سائیکل بھی گیا ۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت ملک بھی اسی سائیکل کی ٹیوب
کی طرح پنکچروں پر چل رہا ہے سال 2013 کے انتخابات میں پینتیس پنکچر کا قصہ
زبان زد عام رہا یہ پنکچر ان انتخابات میں نئے نہیں تھے بس اس بار بات ذرا
پھیل گئی تھی اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں
پہلے بھی جتنی جمہوری حکومتیں آئیں ہیں وہ بزرگ کے اس سائیکل کی طرح چلی
اور آخر میں ختم ہو گئیں جس سے نہ صرف عوام بلکہ ملک کا بھی کافی حد تک
نقصان ہوا جب سیاسی پارٹی میں تین پنکچر لگ جائیں تو جماعت کے لیڈر کو
چاہئے کہ وہ اسے ختم کر دے کیونکہ اس میں پھر وہ مخلصانہ انداز و طریقہ
نہیں رہ جاتا جو بغیر پنکچر کے جماعت میں ہوتا ہے ۔ابھی یہ پنکچر والی
کہانی دوبارہ چل پڑی ہے پہلے فیصل صالح حیات اور اب فریال تالپور سمیت دیگر
ن لیگی رہنماؤں کا پی پی پی میں شامل ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پھٹی
ٹیوب میں پنکچر پورے کر کے اس پر ریاست کا پہیہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے
۔ہمیشہ سے عوام ہی بے وقوف کیوں بنے ہمیں اس دور میں جب سب باشعور ہو چکے
ہیں ایسی جمہوریت اور ایسے رہنماء نہیں چاہئیں ۔یہاں ایک قصہ یاد آتا ہے کہ
ایک شخص کو موچیوں کے گاؤں میں رات ہو گئی پناہ لینے کیلئے اس نے جھوٹ بولا
کہ میں بھی موچی ہوں اور سفر کر رہا ہوں رات ہو گئی ہے مجھے رہنے کیلئے جگہ
دی جائے تو اس گاؤں کے سردار نے اسے رات رکنے کیلئے اجازت دے دی سارے گاؤں
کے لوگ اس کے پاس اکٹھے تھے اور انہوں نے سوال کیا کہ آخر تم بھی موچی ہو
یہ بتاؤ کہ تم چمڑا رنگنے کیلئے کیا طریقہ استعمال کرتے ہو تو اس نے کہا کہ
نمک لگا کر پہلے خشک کرتے ہیں اور پھر اسے صاف کر کے رپھاڑ میں ڈال دیتے
ہیں اب رپھاڑ کی سمجھ وہاں بیٹھے کسی کو نہیں آئی اور نہ ہی کسی نے پوچھا
سب نے یہ سمجھا کہ یہ کوئی نیا طریقہ ہو گا لیکن رپھاڑ کا مطلب تو رپھڑ میں
ڈالنا تھا اسی طرح اس وقت ملک میں سب کچھ رپھڑ میں ڈالا جا رہا ہے کوئی
دادا کی کفالت میں ہے تو کوئی بیٹے کی کفالت میں اور کوئی قطری شہزادے کی
کفالت میں عوام کے سامنے بھی جھوٹ پارلیمنٹ میں بھی جھوٹ اور عدالت میں بھی
جھوٹ سب جگہ جھوٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے پیپلز پارٹی کو
بھی اب پھر سے مضبوط کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی تیسرا ہماری کرپشن میں دخل
اندازی نہ کر سکے یہ معاشی دہشتگرد ہر بار اسی طرح سے عوام کو اندھیرے میں
رکھ کر کرپشن کرتے ہیں ۔لیکن اس بار پاکستان اور عوام اور زیادہ معاشی
دہشتگردی کی متحمل نہیں ہو سکتی پنکچر والی ٹیوبز پر سائیکل یا کوئی بھی
گاڑی چلانا کہاں کی عقل مندی ہے اگر یہ اسی طرح رہا تو بزرگ کی سائیکل کی
طرح پاکستان بھی ہر طرف سے جائے گا سی پیک جیسا بڑا منصوبہ بھی کسی کام نہ
آئے گا۔سوال یہ ہے کہ میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جو بیانات
دئیے وہ اور آج جو چل رہا ہے دونوں معاملات کے پس منظر میں میاں صاحب اس
وقت خود کہاں کھڑے ہیں؟؟ |