اخلاقی تقاضے اور ہم

اخلاق خلق کی جمع ہیں، اخلاق کے معنی ملنساری اور آؤ بھگت ہیں، عید قریب ہے ممکن ہے کہ یہ تحریر آپ عید کے دن ہی پڑھ رہے ہوں۔ اخلاق کے تین حصے ہیں اخلاق فاضلہ، اخلاق حسنہ اور اخلاق معاشرت، اخلاق معاشرت ایک جگہ ملکر رہنے کے لئیے جو بنیادی معاملات ہوتے ہیں اسے کہا جاتا ہے۔

ذرا ہم غور کریں کہ ہمیں اخلاق کی کتنی اور کیوں ضرورت ہے۔ اخلاق کے حوالے سے ہم مسلمانوں کے لیئے زیادہ بحث کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی جملے میں کہہ دیا ہے کہ ُُُ جس کا اخلاق صحیح نہیں وہ مجھ میں سے نہیں، مطلب یہ کہ جو بد اخلاق ہے اس کو آپ (ص) نے کہہ دیا کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔

اب آپ ذرا غور کریں کہ جس انسان کو اللہ نے اپنا آخری نبی قرار دیا اور ان کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم کردیا جو تمام انسانوں سے اعلیٰ اور افضل اور بے مثال انسان قرار پائے وہ فرما گئے کہ “ جس کا اخلاق درست نہیں وہ مجھ میں سے نہیں “ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ (ص) نے واضع طور پر کہا کہ وہ مجھ میں سے یعنی کے انسانوں میں سے نہیں ہے ممکن بعض لوگ اس پر اعتراض کریں اور یہ وضاحت کریں کہ آپ (ص) کا مطلب یہ ہے کہ جس کا اخلاق صحیح نہیں ہے وہ آپ (ص) کی امت میں سے نہیں ہے۔ میرا استدلال یہ ہے کہ بہترین انسان ہی مسلمان ہے اور اگر ہم انسان ہی نہیں تو پھر کیسے مسلمان؟

اب آپ ذرا غور کریں کہ کیا آپ کا اخلاق معاشرے اور گھر میں اچھا ہے آپ اچھے اخلاق کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔؟۔

لفظ اخلاق جمع ہے خلق کی، جس کے معنی عام لغت میں انسانوں یا لوگوں کے بتائے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اخلاق کا تعلق انسانوں ہی سے ہے اور اس کائنات کا سلسلہ انسانوں سے شروع ہوا جو کچھ اللہ نے زمین پر پیدا کیا وہ سب کچھ انسانوں اور ان کی سہولت اور کھانے پینے کے لیئے ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوتا کہ انسانوں میں سب سے اعلٰی اور بے مثال شخصیت اخلاق کا درس نہیں دیتی۔

اب ذرا ہم اپنے آس پاس یا اطراف میں غور کریں کہ ہم سب اخلاقیات کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اللہ نے حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا ہی ذکر کیا ہے۔ ہم میں سے اکثریت حقوق العباد کے معنی سے بھی ناواقف ہیں۔ ایک انسان کا دوسرے انسان پر یہ حق ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھیں اور مزاج پرسی کرتے رہیں۔ مذہب اسلام بھی ہمیں یہ ہی سبق دیتا ہے۔ ایک دوسرے سے میل ملاپ کریں اور اس کی ابتداء سلام سے کریں۔ اسلام میں سلام کو عام کرنے کی بات کی گئی ہے کیونکہ سلام میں سلامتی ہے۔ آج ہم لوگ محدود ہوکر رہ گئے ہیں کہ ایک دوسرے کی ضروریات تو کجا سلام تک نہیں کرتے کہ کہیں کوئی “ فٹھیک “ نہ آجائے اور سلام بھی اس کو کرتے ہیں جو جاننے والا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ایسا مسلسل کررہے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچ رہے کہ ہم جسیے بد اخلاق لوگوں کو ہی تو آپ (ص) نے اپنی صفحوں ہی سے فارغ کردیا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ جس کا اخلاق درست نہیں وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔

اللہ نے ہر عمل کی نیکیاں بھی مقرر کی ہیں اس کے علاوہ دنیا میں بھی حسن اخلاق کے بے تحاشہ فوائد ہیں اور انسانوں کے ساتھ کیئے جانے والے ہر مثبت عمل کا پھل دنیا میں بھی ملتا ہےاور انشاءاللہ آخرت میں بھی ملے گا۔

آج جب ہم سلام اور دوسرے کی خیریت تک معلوم کرنے سے کترانے لگے ہیں تو پھر ہم کس منہ سے اللہ سے کچھ مانگ سکتے؟ اللہ پھر بھی ہم پر مہربانی کرتا ہے کیونکہ وہ بڑا مہربان اور معاف کرنے والا ہے۔

خیر اب بات کرتے ہیں کہ ہمارا طرز عمل کیسا ہونا چاہیئے۔؟ ہر کوئی شخص بنیادی طور پر اخالاقیات، رہن سہن اور بات چیت کا طریقہ گھر سے سیکھتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے گھر ہی سے اخلاق کے حوالے سے کوئی خاص تربیت نہیں دی جاتی بلکہ بعض گھروں میں تو ابتداء ہی میں بچے کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ اپنے کام سے کام رکھنا کسی کے معاملات میں مت بولنا اور اسکول میں بھی کسی بچے کے ساتھ زیادہ تعلقات نہیں رکھنا۔ اخلاق یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملا جائے اس کی خیریت معلوم کی جائے اور اگر کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو اس کی جو ہوسکے وہ مدد کرنا چاہیئے۔

لیکن گھر سے ہی بچے کو ہر ایک کے معاملات سے دور رہنے اور میل ملاپ نہ بڑھانے کی ہدایت کر کے اسے بد اخلاق اور خود غرض بننے کا سبق دیا جاتا ہے اور ایسا عمل خود گھر پر بڑے کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ پڑوسی نے کچھ مانگ لیا تو صاف انکار کردیا، لو صاف جھوٹ بھی بول دیا اور اخلاقی ذمہ داری کی دھجیاں بھی اڑادی نتیجہ یہ ہوتا کہ بچہ بڑا ہونے پر اخلاق سے نابلد اور خود غرضی کا ایک نمونہ بن کر سامنے آتا ہے وہ اپنی دنیا میں مگن رہتا ہے اسے کسی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ اور اس طرح معاشرہ تباہ و برباد ہونے لگتا ہے۔

اخلاق کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ آپ عام لوگوں، پڑوسیوں اور دفتر کے ساتھیوں سے بلا غرض صرف اللہ کی رضا کے لیئے ملاقات کریں اور ان کے دکھ سکھ کا خیال رکھیں اور اگر ان کو کسی مدد کی ضرورت ہو تو آپ پہل کریں اور کوئی مسئلہ پیش آجائے تو ایسے مدد کریں جیسے خود اپنی مدد چاہتے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ اگر آپ نے ایسے طرز عمل کو اپنی عادت بنالیا یا اللہ کی رضا کے لیئے ایسا کرتے رہے تو آپ زندگی میں کھبی بھی تنہا نہیں ہونگے ضروری نہیں کہ وہ ہی لوگ وقت پڑنے پر آپ کے کام آئیں بلکہ کوئی بھی آسکتا ہے ممکن ہے ایسے چہرے سامنے آجائیں جن کے بارے میں اپ تصور بھی نہیں کرسکتے ہوں یہ ہوتا ہے نیک عمل کا دنیا میں صلہ۔

تو آیئے ہم اچھے انسان اور مسلمان ہونے کا ثبوت دیں پاکستان میں ان دنوں اخلاق حسنہ اور اخلاق فاضلہ کے بڑے مواقع ہیں بس آپ نیت کریں اور کچھ نہیں تو اپنے پڑوسیوں سے ہی پوچھ لیں کہ عید کی تیاری ہوگئی کسی چیز کی کمی تو نہیں رہی؟ وہ ہچکچاہیں تو آپ خود ان کو ایک بند لفافے میں کچھ رقم دیدیں اور کہیں کہ جب آپ کے پاس ہو تو یہ واپس کردینا ورنہ کوئی بات نہیں آپ کی ضروریات کا خیال رکھنا میری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ آپ یقین کریں کہ جب آپ پہل کریں گے تو آپ کا دیکھا دیکھی دوسرے بھی کریں گے اور پھر ہمارا معاشرہ بھی ایک آئیڈیل معاشرہ بن جائے گا اللہ ہم سب کو اخلاقیات پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین۔ ( ختم شدہ)
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 166260 views I'm Journalist. .. View More