ذھنی مقابلے، خاوند اور بیوی

چالاک اور مکار لوگ جب بھی کسی کو دھوکہ دینا چاھتے ھیں، کوئی فریب کرنا چاہتے ھیں تو وہ اپنے شکار کو ذھنی طور پر ھرانے کی کوشش کرتے ھیں کبھی چینی سے زیادہ میٹھے ھو کر وار کرتے ھیں اور اسی مٹھاس کے سہارے دھوکہ دینے کیلئے رعب بھی ڈالتے ھیں اور جب کوئی کسی سے ذھنی طور پر دب جاتا ھے یا دھوکہ کھا جاتا ھے،اعتبار کر بیٹھتا ھے، بلکہ قابو آ جاتا ھے تو وہ اس ٹھگ کے مقابلے میں اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ھے اور جب کوئی شخص اپنا ذھن استعمال کرنے کی بجائے مکمل طور پر کسی ٹھگ کی سوچوں پر انحصار کرنے لگتا ھے تو وہ اس کے اشاروں پر ناچتا چلا جاتا ھے۔ مجھے اس کا کچھ اندازہ تھا اور پھر بے شمار مشاہدات نے اس اندازے کو یقین میں بدل دیا۔ یہ سلسلہ نہایت عجیب ھے لیکن عام ھو چکا ھے۔ کچھ سال پہلے کی بات ھے کہ ٓآفس کی ایک لڑکی لنچ ٹائم میں روزانہ دلاور کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتی اور دونوں غائب ھو جاتے۔ پہلے وہ وقت پر واپس آ جاتے لیکن پھر اکثر وہ لیٹ ھونے لگے۔ دلاور کے انچارج نے مجھے شکایت کی تھی۔ میں نے دلاور کو بلایا۔ دلاور نے مجھے بتایا کہ سر ھم آفس سے باہر جو مرضی کریں کوئی ھمیں کچھ نہیں کہ سکتا۔ میں نے دلاور کو بتایا کہ صرف اسی لئے اسے کبھی کچھ نہیں کہا گیا لیکن ان دونوں کا لنچ ٹائم کے بعد روزانہ دیر سے آنا قبول نہیں ھے۔ دلاور نے مجھے بتایا کہ وہ کچھ وجوہات کی بنا پر وہ میری بہت عزت کرتا تھا اور اس نے مجھے یقین دلایا کہ آئندہ ایسا نہیں ھو گا۔ لیکن اگلے تین دن تک یہی سلسلہ چلتا رھا۔ میں نے دلاور اور مس ۔۔۔۔۔۔ کو بلایا اور ابھی میری ڈانٹ وسط تک ھی پہنچی تھی کہ لڑکی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ میں نے اپنی ڈانٹ کو موخر کیا اور معاملے کی تہہ میں گھس گیا۔ دلاور نے آفس کی ایک اور لڑکی اور دوسری کئی لڑکیوں کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھے تھے اور یہ اس لڑکی کے علم میں آ گیا تھا جو محبت کے فریب پر اپنا سب کچھ دلاور کو سونپ بیٹھی تھی، لنچ پر آپس کی لڑائی کی وجہ سے دونوں لیٹ ھو جاتے تھے۔ میں نے ان کو آفس کی ضروری کاروائی،آخری وارننگ اور ایک زبردست اخلاقی لیکچر دے کر فارغ کر دیا۔ کچھ عرصے بعد میں اپنے پاؤں پر چوٹ کے نتیجے میں بستر پر جا پڑا۔ میری بیماری سالوں پر محیط ھو گئی، تو میں نے استعفیٰ دے دیا۔ آھستہ آھستہ آفس کے سٹاف سے رابطہ ختم ھوتا گیا لیکن ایک دن دلاور میری خبر لینے آیا۔ اس دن مجھے پتہ چلا کہ میرا اخلاقی لیکچر دلاور کے دل پر چوٹ کر گیا تھا۔ دلاور اسی لڑکی کے ساتھ شادی کا کارڈ دینے آیا تھا۔ دلاور نے مجھے بتایا کہ کمزور اور احمق لڑکیاں بہت جلد اپنا دماغ اس کے حوالے کر بیٹھتی تھیں اور وہ ان سے بس دماغی کھیل کھیلتا رھتا تھا۔ لیکن اب ایسا کچھ نہیں ھے۔ آپ یقین کریں اور میں سوچتا رھا کہ مجھے دلاور کی بات پر یقین کرنا چاھئے یا نہیں۔ ماضی کا دلاور اور ماضی کے دلاور جیسے لوگ بس ذھنی کھیل ھی تو کھیلتے ھیں اور اپنی ذھنی مکاری سے اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر لوگوں کو برباد کر دیتے ھیں۔ دوسروں کو ذھنی شکست سے دوچار کر کے اپنا مطلب نکالنا ھمارے معاشرے کی اکثریت کا نہیں تو کم از کم آدھے معاشرے کا ایک رواج بن چکا ھے۔ میرے ایک دوست نے مجھے ایک بڑی عجیب بات بتائی، اس کے بھائی کی دوکان میں ایک لڑکی آتی اور اسے کہتی کہ جتنے پیسے ھیں مجھے دے دو ورنہ میں شور مچا دوں گی کہ تم نے میری عزت پر ھاتھ ڈالا ھے اور وہ ساری رقم اس کو پکڑا دیتا اور اپنی عزت کے ڈر سے کسی کو کچھ نہ بتاتا۔ جب لڑکی نے دیکھا کہ موصوف بڑی اچھی طرح سے اس کے جال میں پھنس چکے ھیں اور ذھنی طور پر شکست مان چکے ھیں تو اس نے بار بار آنا شروع کر دیا لہٰذا موصوف دوکان چھوڑنے کے چکر میں تھے۔ ایک دن میں دوکان کے کاؤنٹر کے نیچے چھپ کر بیٹھ گیا۔ جیسے ھی لڑکی نے آ کر پیسے مانگے، میں باھر نکلا تو میرے ایک ھی تھپڑ کے بعد اس نے اپنی حقیقت بک دی۔ یہ تین چار لڑکے لڑکیوں کا ایک گروپ تھا جو مختلف جگہوں پر جا کر ایسے بھلکڑ قسم کے مرد حضرات کو تاکتے اور ان کے اشارے پر ان کی ساتھی لڑکیاں اپنی عزت پر ھاتھ ڈالنے کی دھمکی دے کر جیبیں خالی کروا کر رفو چکر ھو جاتی۔ بھولے بھالے لوگوں نے ان کا حوصلہ بہت بڑھا دیا تھا۔

اپنے آپ کو بڑا ھوشیار سمجھنے والے اور دوسروں کو نیچے لگا رکھنے کے خبط میں مبتلا لوگ کسی کو پہلے سلام کرنے سے بھی کتراتے ھیں ان کا خیالِ غلط ھے کہ اسطرح ان کی شان کم ھو جائے گی اور وہ اگلے کے نیچے لگ جائیں گے۔ کچھ کاروباری لوگ دوسروں کو نیچے لگا کر رکھنے کے مرض میں اسطرح سے مبتلا ھیں کہ اگر وہ کسی کو زکوۃ بھی دیں تو اسے نیچے لگانے کے بعد یعنی ذھنی طور پر زِچ کرنے کے بعد دیتے ھیں اور زکوۃ لینے والا باھر نکل کر لوگوں کو بتاتا ھے کہ اس نے زکوۃ تو دی ھے لیکن ذلیل کر کے، اور اگر زکوۃ لینے والا ان پڑھ ھو تو ایک آدھ گالی بھی نکال دیتا ھے۔ میں نے ایک فیکٹری کے مالک کو اپنی ضمانت پر ایک پریس سے ادھار کروا دیا۔ مقررہ وقت کے کافی دیر بعد پریس والے نے مجھے شکایت کی کہ فیکٹری والے صاحب ادھار چکانے سے گریزاں ھیں۔ میں نے فوراً فیکٹری کے مالک سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ چیک تیار ھے لیکن کچھ دن بعد دوں گا، اپنا ھاتھ اوپر رکھنا ضروری ھے اور اس کے نزدیک ھاتھ اوپر رکھنے کا مطلب دوسرے کو ذھنی طور پر زِچ کرنا یعنی نیچے لگانا تھا، اس کے خیال بَد میں اسطرح کرنے سے اسے آئندہ اپنے مطالبات منوانے میں آسانی ھونی تھی۔ ذھنی مکاریوں یا سازشوں کا رواج عام تو ھے لیکن یہ رواج سب سے زیادہ ان عورتوں میں نظر آتا ھے جو اپنی بیٹی کا بیاہ کرتی ھیں۔ ساری ساسیں اور عورتیں یقیناً ایسی نہیں ھیں لیکن ایک مچھلی تو ساری تالاب کو گندا کر ھی دیتی ھے اور یہاں تو ایسی مچھلیوں کی تعداد کافی زیادہ ھے،جو اپنے داماد کو نیچے لگانے کے شوق میں اپنے اور داماد کے گھر والوں کی زندگی میں ایک آگ لگا بیٹھتی ھیں اور نتیجتاً سب سے زیادہ نزلہ ان مرد حضرات پر ھی گرتا ھے جن کے سر پر نزلے سے پہلے سہرا سجا ھوتا ھے۔ اکثر نوبت طلاق تک بھی جا پہنچتی ھے اور پھر لڑکی کی ماں لوگوں کو کہتی پھرتی ھے کہ لڑکا شادی کے قابل نہیں تھا اور لوگ یہ سن کر ھنستے ھیں کہ طلاق شادی کے ایک سال بعد ھو رھی ھے تو ایک سال لڑکا شادی کے قابل کیسے بنا رھا۔ آجکل کی شادی(ساری نہیں لیکن اکثر) ایک ایسا محاذ بن چکی ھے جس پر دولھا میاں کو ایک وقت میں کئی لڑائیاں لڑنی پڑتی ھیں۔ اسے کما کر لانا ھوتا ھے۔ بچوں کی تعلیم کے ساتھ بہت سارے دوسرے اخراجات کا بندوبست کرنا ھوتا ھے۔ اگر اس کی ساس ذھنی مقابلوں (ذھنی مکاری)کے عارضے میں مبتلا ھو تو اس کی بیوی اپنی ماں کے کہنے پر ھر وقت خاوند کو نیچے لگانے کے چکر میں نت نئے وار کر کے اس مرد کی زندگی میں مشکلات اور بے سکونی کے پہاڑ کھڑے کر دیتی ھے۔ اور اگر وہ مرد یا خاوند شکست قبول کر کے ذھنی غلام بن جائے یا اپنے حمایتیوں کے ساتھ دفاع یا مقابلے پر اتر آئے تو دونوں صورتوں میں گھر کا سکون رخصت ھو جاتا ھے اور سب سے زیادہ نقصان مرد صاحب کا ھی ھوتا ھے۔ کچھ دولھا حضرات یا ان کی ماؤں کی طرف سے ظلم و ستم کا مظاھرہ بھی ھمارے معاشرے کا ایک مقبول رواج ھے، جس کی اکثر وجہ لالچ دیکھی گئی ھے لیکن یہ میرا اس وقت کا موضوع نہیں ھے۔ یہ ذھنی مقابلے اکثر لڑکی کی ماں کی طرف سے شروع ھوتے ھیں اور لڑکی(دولھن) کے اپنی ماں کی ھدایات پر عمل کرنے کے سبب ایک ایسی آگ لگتی ھے، جس میں لڑکی کے سارے گھر والے اور لڑکے کے حمایتیوں کو بھی کودنا ھی پڑتا ھے اور ان میں سے کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں ھو پاتا کہ یہ ساری آگ لڑکی کی ماں نے اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر خود لگائی ھوتی ھے۔ آج تک صرف ایک لڑکی ایسی دیکھی جس کی گھر میں جب پہلی دفعہ اپنی ساس کے ساتھ ذرا ان بن ھوئی، لڑکی کی والدہ نے اپنا مشورہ پیش کیا، بھائیوں نے غصہ دکھانے کی کوشش کی۔ لیکن لڑکی نے سب کو چپ کروا دیا۔ لڑکی کا کہنا تھا کہ جب اِس گھر میں تھی تو ھم اپنے مسئلے آپس میں ھی حل کرتے تھے۔ ماں باپ سے کئی دفعہ ڈانٹ پڑی لیکن ماں باپ آج بھی ماں باپ ھی ھیں۔ اب میرے خاوند کا گھر میرا گھر ھے۔ ساس کا سلوک بیٹی بن کر برداشت کروں گی اور بعد میں بھی بیٹی بن کر ھی رھوں گی۔ آپ لوگ مداخلت نہ کریں۔ آج وہ لڑکی اپنے گھر میں خوش و خرم ھے اور صحیح معنوں میں ساس کی آنکھوں کا تارا بن چکی ھے، اگر وہ اپنی ماں اور بھائیوں کے پیچھے لگ جاتی تو آج ساس کی آنکھوں کے تارے کی بجائے ساس کے ساتھ ساتھ اپنے خاوند کے نزدیک ایک کانٹے کی حیثیت رکھتی ھوتی۔ کتنی ایسی ھیں کہ ایسی سوچ جن کے قریب سے بھی نہیں گزری اور ان کو اپنی شادی کی خوشیاں بھی کم ھی نصیب ھوتی ھیں۔ وہ خاوند بیچارے کہلانے کے بڑے حقدار ھیں جو ان ذھنی مقابلوں کی آگاھی نہیں رکھتے اور ساری زندگی گھُل گھُل کر گزار دیتے ھیں۔ دن رات شکست کھانے سے بہتر ھے کہ اس مقابلے کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر ختم نہ ھو سکے تو طلاق کے ذریعے ھی یہ مقابلہ ختم کر دیا جائے۔ اس ذھنی مقابلے کے کئی انداز ھیں۔ مثلاً اگر کسی شادی پر لڑکی والے اپنے مرضی کا حق مہر رکھنے کی کوشش کریں جو کہ لڑکے کی آمدن سے بہت زیادہ ھوتا ھے تو یہ ایک ایسے ذھنی مقابلے کے آغاز کا الارم ھوتا ھے جس میں لڑکی کی ساری فیملی شریک ھوتی ھے۔ ایسا اکثر اس صورت میں کیا جاتا ھے جب لڑکی والے ذھنی ( مکاری )مقابلوں کے کھلاڑیوں سے ترقی کرتے کرتے چمپئین بن چکے ھوں یا پھر، جب لڑکی والوں کو اپنی ھی لڑکی پر شک ھو کہ اس کا گھر میں بسنا مشکل ھے۔ وہ اصل میں یہ چاہ رھے ھوتے ھیں کہ جب ھماری لڑکی اپنے کرتوت سے لڑکے والوں کا ناک میں دم کر دے تو لڑکا ان کی لڑکی کو طلاق نہ دے سکے، اگر لڑکے پر شک ھو کہ یہ لڑکی کو بسائے گا نہیں تو پھر تو رشتہ ھی نہیں کیا جاتا۔(مھربانی فرما کر شریف لوگوں کی فیملیوں اور ان کی لڑکیوں پر اس بات کو قیاس نہ کریں۔ یہ بات صرف ان لوگوں کے بارے میں ھے جو ذھنی مکاری کے کھلاڑی ھیں)۔ بعض بھولے دولھا اپنے بھول پن میں اپنی حیثیت سے بہت زیادہ بھاری بھرکم حق مہر مان لیتے ھیں اور بعد میں پریشان پھرتے ھیں، ایسا کر کے دراصل وہ اپنا ایک اسلامی حق کھو دیتے ھیں اور ایک طرح سے اسلامی اصول کی خلاف ورزی کے مرتکب ھوتے ھیں کیونکہ حق مہر دولھا کی مالی حیثیت کے مطابق ھی رکھنا چاھئے کیونکہ حق مہر دولھا کو ھر صورت ادا کرنا ھوتا ھے، جو ادا ھی نہ ھو سکے وہ حق مہر بالکل بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر دولھا کو حق مہر ادا کرنے کیلئے قرضہ لینا پڑے یا اپنی جائیداد بیچنی پڑے تو اس کو حق مہر کی بجائے ایک بوجھ یا تکلیف اور زیادتی کہنا زیادہ مناسب ھو گا اور اگر حق مہر ادا نہ کیا جائے تو یہ ایک گناہ ھے، حق تلفی ھے اور شریعت کی خلاف ورزی ھے۔ حق مہر کیلئے شریعت میں کم از کم مقدار مقرر ھے اس سے کم ھرگز نہیں ھونا چاھئے اور دونوں فریقوں کی رضامندی بہت ضروری ھے اور اگر لڑکی والے دولھا کی آمدن سے زیادہ حق مہر پر اصرار کریں تو دولھا کو اور دولھا کے سرپرستوں کو اس سے صاف انکار کر دینا چاھئے، چاھے کچھ بھی ھو جائے اور اگر لڑکی والے شادی(نکاح) نہ کرنے کی (رشتہ توڑنے کی)دھمکی دیں تو لڑکے والوں کو فوراً سے پہلے اپنی برات خود ھی واپس لے جانی چاھئے۔ ساری زندگی کی بک بک سے وقتی پریشانی بہتر ھے۔ ساری زندگی کے نقصان سے کچھ پیسوں کا نقصان بہتر ھے، پیسے تو دوبارہ بھی کمائے جا سکتے ھیں۔ جن لوگوں(لڑکی والوں) کا آغاز ایسا ھے بعد میں تو وہ لڑکے والوں کو تگنی کا ناچ ضرور نچائیں گے،یہ بات الگ ھے کے ناچنا ان کو خود بھی پڑتا ھے لیکن اس بات کی انھیں سمجھ نہیں ھوتی۔ ممکن ھے کہ آگے چل کر ایسے حالات ھو جائیں کہ عورت شوھر کو یا شوھر کے دیگر رشتے داروں کو تکلیف پہنچائے یا بے حیائی کی یا جہالت کی ایسی صورت اختیار کرے کہ شوھر کے پاس طلاق کے سوا کوئی راستہ نہ رھے اور بعض صورتیں تو ایسی ھیں کہ طلاق دینا واجب ھے۔ ایسی کسی صورت میں اگر طلاق دینا پڑی تو یہ حق مہر جو زیادہ ھونے کی وجہ سے پہلے ھی ادا نہ کیا ھو گا یہ مسئلہ بن جائے گا اور اگر دولھا کی مالی حیثیت سے زیادہ رکھا گیا حق مہر دولھا نے پہلے ھی یا اس وقت کسی طرح دے بھی دیا تو دولھا مالی مشکالات کا شکار ضرور ھو گا۔ لہذا دولھا حضرات کو اصرار کر کے حق مہر اپنی مالی حیثیت کے مطابق اتنا ھی رکھوانا چاھئے جو وہ کسی مشکل کے بغیر آسانی سے دے سکیں، کیونکہ اس کا ادا کرنا ضروری ھے، اس کے علاوہ پر انھیں رضامند ھی نہیں ھوناچاھئے،یہ ان کا شرعی حق ھے۔ حق مہر کے معاملہ پر دولھا حضرات کیلئے یہ مشورہ دینے سے پہلے میں نے شرعی راھنمائی حاصل کی ھے اور علماء کرام کی تائید اور حمایت سے ھی یہ مشورہ پیش کر رھا ھوں اور اگر کوئی یہ سوچے کہ طلاق تک نوبت آئے گی ھی نہیں،تو یہ اس کی خود فریبی ھے۔ طلاق سے بچنے کی ھر ممکن کوشش کرنی چاھئے، طلاق حلال کاموں میں ایک ناپسندیدہ کام ھے ، لیکن طلاق کا امکان بہرحال موت تک موجود رھتا ھے، یہی حقیقت ھے اور حقیقت کو تسلیم کرنے ھی میں بہتری اور کامیابی ھے، بعض صورتیں تو ایسی ھیں جن میں طلاق دینا واجب ھو جاتا ھے اور واجب کو ترک کرنا(چھوڑنا) گناہ ھے اور اس پر دنیا میں وبال بھی آ سکتا ھے اور آخرت میں پکڑ بھی ھو سکتی ھے۔ طلاق کی نوبت آنا ممکن ھے ورنہ طلاق کا کوئی وجود ھی نہ ھوتا۔ اسلامی اصولوں کی پیروی میں سب کیلئے آسانی اور خوشی ھے چاھے وہ لڑکا ھو یا لڑکی۔ یہ تو ایک الارم کی بات تھی لیکن حق مہر زیادہ نہ بھی ھو، مناسب بھی ھو اور لڑکی (بہو)کی ماں ایک شریف خاندان کی تیز طرار عورت ھو تو اکثر تیز طرار عورتیں(ساری بالکل بھی نہیں) ذھنی مکاری یا چالوں کی کھلاڑی ھوتی ھیں اور بیٹی کی شادی کی صورت میں ان کے پاس اپنی چالیں آزمانے کو ایک میدان ھاتھ آ جاتا ھے،بعض مشاہدات میں تو یہ حیران کن بات دیکھنے میں آتی ھے کہ لڑکی کی ماں کی طرف سے تو کوئی مسئلہ نہیں کھڑا ھوتا لیکن لڑکی کی خالہ اپنی بھانجی کے گھر کو کھیل کا میدان سمجھ کر اپن ذھنی عیاری کی چالیں آزماتی ھے اور نتیجہ اکثر طلاق ھی نکلتا ھے اور نتیجہ کے بعد خالہ صاحبہ اپنے گھر میں ایسی گھستی ھیں جیسے کوئی سانپ اپنے بل میں۔ اور اگر دولھا میاں ان ذھنی عیاریوں ، مکاریوں کے کھیل ادراک نہ کر سکیں یا سیدھے سادھے ھوں تو ساری عمر یا اگر طلاق ھو جائے تو طلاق تک زندگی کے میدان میں بار بار ناک آؤٹ ھی ھوتے رھتے ھیں اور دولھا میاں کی ماں(اگر بھلی مانس ھو) الگ کڑھتی رھتی ھے، ورنہ پھر مقابلہ ھوتا ھے۔ اور اگر دو بھائیوں کی بیویاں ایک ھی گھر میں رھتی ھوں، تو مقابلہ شروع ھونےکے امکانات بہت زیادہ ھوتے ھیں اور ان کے خاوند جس دن اپنے بھائی کو اپنی بیوی کی آنکھ سے دیکھنا شروع کرتے ھیں اس گھر کی تباھی کا آغاز ھو جاتا ھے اور کچھ ھی عرصے میں آپس میں پھوٹ پڑ جاتی ھے اور اکثر دیکھنے میں آیا ھے کہ بھائیوں کی لڑائیاں کروا کے، ان کو ایک دوسرے سے دور کر کے یہ عورتیں پھر ایک دوسرے سے ملنا شروع کر دیتی ھیں۔ شادی کی خوشیوں اور گھر کے سکون کی امیدوار صرف وھی دلھنیں بن سکتی ھیں جو اپنے خاوند کے گھر میں آ کر اپنے خاوند کے گھر والوں کی اسی طرح عزت کریں جسطرح اپنے ماں باپ کے گھر میں اپنے گھر والوں کی کرتی تھیں۔ خاوند کے گھر کی بات اپنے ماں باپ کے گھر میں اور اپنے ماں باپ کی بات اپنے خاوند کے گھر میں بالکل نہ کریں اور اپنی ماں کی ھر اس بات سے جو اِن کے خاوند کے گھر میں مداخلت ھو اس سے کان بند کر لیں اور جو دولھا سیدھے سادھے یا بھولے ھوتے ھیں ان کو اپنے بھولپن کے خول سے نکل کر ایک عقلمند خاوند بننا چاھئے۔ ماں باپ کی عزت اور احترام پر ، اپنے گھر کے معاملات میں مداخلت پر، بیوی یا اس کے گھر والوں یا رشتے داروں کا کوئی لحاظ نہیں کرنا چاھئے، انھیں ھر صورت شروع ھی میں روک دینا چاھئے لیکن اس خوبصورتی سے کہ بیوی کے حقوق کی اچھے طریقے سے پاسداری قائم رھے اور بیوی کے گھر والوں کا احترام بھی قائم رھے۔ بھن بھائی او ر ماں باپ کے رشتے کو بیوی کے دماغ سے نہیں سمجھنا چاھئے اور بیوی کی نظروں سے بالکل نہیں دیکھنا چاھئے بلکہ بیوی کو اپنے خاوند کے گھر والوں کو اسلام کی نظر سے دیکھنا چاھئے اور دولھا یا خاوند کو بیوی کے رشتے کو اور بیوی کے میکے کے افراد کے رشتے کو بھی اسلام کی نظر سے دیکھنا چاھئے۔ اگر کوئی خاوند اور بیوی خوشیوں اور سکون بھری زندگی کے متلاشی ھوں تو ایک خاوند کو اسلام میں بیوی کے حقوق کا، اپنے فرائض کا اور طلاق کے مسائل کا اور بیوی کو اسلام میں اپنے خاوند کے حقوق کا، اپنے فرائض کا علم حاصل کرنا چاھئے ، اپنے اردگرد کے لوگوں کے حقوق کے بارے میں اسلامی احکامات سیکھنے چاھئیں،اسلام میں بچوں کے حقوق کا علم حاصل کرنا چاھئےاور پھر اس علم پر اللہ (عزوجل) کی رضا کیلئے عمل کرنا چاھئے ، (اچھی نیت کے بغیر اچھے عمل کا ثواب بھی نھیں ملتا)۔عمل کیلئے خلوص نیت اور علم ضروری ھے اور جتنا عمل اچھا ھو گا خوشیوں کی امید بھی اتنی ھی بنے گی۔ اسلام زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ھے اور زندگی کے ھر شعبے کے بارے میں کامل راھنمائی کرتا ھے۔ زندگی کے ھر معاملے میں اپنی عقلوں کے گھوڑے کو پہلے اسلام کے مکمل تابع کر دیجئے اور پھر اس کو جتنا چاھے بھگائیں، آپ کامیاب رھیں گے،اپنی شادی شدہ زندگی میں بھی اور زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی۔ اسلامی اصولوں پر عمل خلوص نیت(اللہ جل جلالہ کی رضا) کیلئے عمل کرنے میں ھی بھلائی اور عافیت ھے۔ اگر کسی کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تو وہ اس بات کو یوں سمجھے کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے اور اعلی تعلیم یافتہ لڑکی میں طلاق کیوں ھوتی ھے۔ ان کی اعلیٰ تعلیم انھیں خوشیاں کیوں نہیں دلا سکتی۔ وجہ صاف ھے کہ آجکل اعلیٰ تعلیم کے اعلی اداروں میں اعلیٰ تعلیم تو ھے لیکن اسلام نہیں ھے اور جب اسلام نہیں ھو گا تو یہی حال ھو گا۔ پہلے یہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے نہیں ھوتے تھے لیکن لوگ اسلام کا دامن مضبوطی سے تھامے ھوئے تھے تو حال بہت اچھا تھا،مسلمان دنیا کے بڑے حصے پر حکمران تھے اور طلاق کی شرح نہ ھونے کے برابر ھی تھی۔ اسلام کو عملی طور پر اپنائیے اور دونوں جہانوں کی بھلائیوں سے اپنا دامن بھر لیجئے۔ لیکن جلدی کہیں دیر نہ ھو جائے اور اس دیر کی وجہ سے ایک اور طلاق نہ ھو جائے۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117222 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More