دل کی کچھ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کب اور کہاں کسی پر فدا
ہوجائے ۔دل خوبصورتی ، بدصورتی ، جوانی ، بڑھاپے ، تعلیم ، ان پڑھ ، اچھے
اور برے کی تمیز نہیں کرتا ۔جو بھی اسے اچھا لگتا ہے ، وہ اسے ساری دنیا سے
خوبصورت اور باہنر دکھائی دینے لگتا ہے پھر اس کی تصویر ہمیشہ کے لیے دل کے
نہاں خانے میں ایسے سج جاتی ہے جسے کوشش کے باوجود کوئی اتار نہیں سکتا ۔
ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا ہے ۔ اس کے باوجود کہ پسند اور ناپسند اب
میرے لیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔ پھر بھی چند چہرے ایسے دکھائی دے جاتے
ہیں جن کو کوشش کے باوجود بھولنا مشکل ہوتا ہے ۔ شاید یہ دوبئی میں ہونے
والے کرکٹ میچز کا ہی زمانہ تھا جب پاکستانی ٹیم ، ویسٹ انڈیز کے ساتھ کرکٹ
میچ کھیل رہی تھی ۔ اچانک میں ٹی وی کے سامنے آ بیٹھا اور میری نگاہیں ٹی
وی سکرین پر ایسی جمی کہ جمی ہی رہ گئیں۔اس وقت جو بیٹسمین خوبصورت شارٹس
کھیل رہا تھا یہ دیکھے بغیر کہ وہ کون ہے اور اس کا نام کیا ہے ،اس نے فوری
طور پر دل کے دروازے پر دستک دی ۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ جب سے پاکستان
ٹیم کی کارکردگی میں غیر یقینیت اور اتار چڑھاؤ شروع ہواہے۔ میں براہ راست
میچ دیکھنے کی غلطی نہیں کرتا اگر یہ غلطی کر بھی بیٹھوں تو میرا بلڈپریشر
شوٹ کرجاتاہے اور موڈ بھی اس حدتک خراب ہوجاتاہے کہ جو بھی بات کرے اسے
کاٹنے کو دل کرتا ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی
کبھی معیاری نہیں ہوئی۔بہت مدت پہلے جب ٹیم میں ظہیر عباس ، آصف اقبال ،
اقبال قاسم ، جاوید میاں داد ، وسیم حسن راجہ ، عمران خان اور وسیم اکرم
جیسے کھلاڑی شامل ہوا کرتے تھے ، تب میچ دیکھنے کا مزا بھی آتا تھا اور ہر
گیند پر خون ابال لیتا تھا ۔لیکن اب ہماری ٹیم ایک میچ جیتتی ہے تو اگلے
تین میچ بہت بری طرح ہار جاتی ہے۔
کبھی وہ زمانہ بھی تھا جب پاکٹ سائز ریڈیو میں اپنی جیب میں رکھا کرتا تھا
اور میچ کی ایک ایک گیند کی کمنٹری سننا اپنا فرض اولین تصور کرتا تھا ۔
کئی بار ایسا بھی ہوا کہ میں گھر سے دفتر جانے کے لیے سائیکل / موٹرسائیکل
پر نکلا ایک ہاتھ میں سٹیرنگ اور دوسرے ہاتھ میں ریڈیو کان سے لگاکر سفر
کیاکرتا تھا ۔ ایسا کرتے ہوئے میں کئی بار حادثات سے بھی بچا، لیکن مجال ہے
کرکٹ میچ کی کوئی گیند مس کی ہو ۔جیسے جیسے باؤلر گیند کروانے کے بھاگتا
ویسے ویسے ہی میرا دل بھی باولر کے ساتھ ہی ہچکولے کھاتا۔یہ جذبہ جنون بہت
مدت تک مجھ پر سوار رہا ۔اس کی شاید یہ وجہ بھی تھی کہ میں خود پنجاب
انڈسٹریل بورڈ کی کرکٹ بورڈ کا چودہ سال تک کپتان رہا تھا۔میری کپتانی میں
ٹیم بے شمار ڈیپارٹمنل ٹیموں کے ساتھ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی گراؤنڈ ،
گریفن ، پی اے ایف گراؤنڈ میں میچز کھیلے اور کرکٹ کو خوب انجوائے کیا ۔میرے
والد( محمد دلشاد خان لودھی ) بھی اپنے زمانے میں کرکٹ کے بہت عظیم کھلاڑی
تھے ۔جب بھی ہماری ٹیم ہارنے لگتی تو ہم اپنے ابا جان کو بلا لاتے پھر وہ
چھکے چھکے مار مار کر ہماری شکست کو فتح میں تبدیل کردیتے ۔ کرکٹ کا جنون
اس قدر ذہن پر سوار تھا کہ سارا دن دوستوں سے اسی موضوع پر گفتگو چلتی رہتی
۔ دل پھر بھی نہیں بھرتا تھا۔ اپنی زندگی کے پچیس سال میں نے کرکٹ کی نذر
کردیئے ۔پھر جب گھٹنوں کے درد نے شدت اختیار کی تو مجبورا کرکٹ کو خیر
بادکہنا پڑا ۔ کرکٹ کو چھوڑنے کے باوجود کرکٹ ہیروز کو دیکھنے ، ملنے اور
ان سے بات کرنے کا جنون کی حدتک شوق اپنی جگہ قائم رہا ۔ پھر وہ وقت بھی
آپہنچا جب پاکستانی کرکٹ کی کارکردگی عروج کم زوال کا زیادہ شکار ہوگئی ۔
چنانچہ ٹینشن سے بچنے کاواحد راستہ یہی تھا کہ میں براہ راست کرکٹ کو خیر
بادکہہ کر جیتے ہوئے میچز کی ریکارڈنگ دیکھ لیا کرو۔چونکہ نتائج پہلے سے
معلوم ہوتے ۔اس لیے جیتا ہوا کرکٹ میچ دیکھ کر دل کو تسلی ہوجاتی بلکہ جسم
میں ایک پاؤ خون بڑھ جاتا ۔
بہرحال تمہید باندھنے کامقصد یہ ہے کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک بیٹسمین
مسلسل شاندار شارٹس کھیل رہا تھا ۔ہلمٹ میں سے اس کی آنکھوں کی چمک نے مجھے
متاثر کیا ۔تو میں اس انتظار میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہا کہ جب وہ آؤٹ
ہوکر ہلمٹ اتار کر واپس پویلین جائے تب پتہ چلے گا کہ یہ صاحب کون ہیں اور
مجھے ان کی آنکھوں کی چمک نے کیوں متاثر کیا ہے ۔ پھر جب اس نے پویلین واپس
جاتے ہوئے ہلمٹ اتارا تو اس کا چہرہ ، آنکھوں سے بھی زیادہ روشن اور
خوبصورت دکھائی دیا۔ دل نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ دور حاضر کا یہی میرا
فیورٹ کھلاڑی ہے ۔اس میں تمام وہ خوبیوں موجود ہیں جو میرے آئیڈیل کھلاڑی
میں ہونی چاہیئں۔بعد میں پتہ چلا کہ اس کا نام عماد وسیم ہے ۔ جب اس کی
نشاندھی ہوگئی تو پھر میں باقاعدگی سے اخبار میں سپورٹس کا صفحہ بھی دیکھنے
لگا تاکہ اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہا جائے ۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرے آئیڈیل کھلاڑی (
عماد وسیم ) سے میری بات بھی ہوسکتی ہے اور وہ مجھ سے مخاطب بھی ہوسکتا ہے
۔ حسن اتفاق سے ایک دن فیس بک پر بیٹھا میں کام کررکھا تھا۔ تو یکدم سامنے
ایک پرکشش نوجوان کی تصویر دکھائی دی ۔ جب ذرا غور کیاتو نیچے عماد وسیم
لکھا تھا میں نے فورا کلک کردیا اور انہیں دوستی کی ریکویسٹ بھجوادی ۔کچھ
دن کے بعد ریکویسٹ قبول کرنے کی اطلاع آگئی۔ جب میں نے پیج اوپن کیا تو
میرا آئیڈیل اور فیورٹ کرکٹر میرے سامنے تھا ۔ اس نے نہ صرف میری عزت
افزائی کی بلکہ روزانہ یا دوسرے دن مجھے اپنے بارے میں اپ ٹو ڈیٹ بھی کرتا
رہا۔ یہ محبت کے تقاضے ہیں کہ جس شخص سے محبت ہوجاتی ہے پھر اس سے بات کیے
بغیر سکو ن نہیں ملتا ۔ یہ بھول کر کہ اس کی مصروفیات کیسی ہیں اور کتنی
ہیں ، میں اس سے روزانہ بات کرنے کے تقاضے کرتا رہا ۔اسی دوران جب اس کے
جانب سے مناسب جواب نہ ملا تو غصے کے عالم میں میری زبان سے ایک ایسی بات
نکل گئی جو عماد وسیم کوناگوار گزری ۔ فوری طور پر معذرت تو میں نے کر لی
لیکن عماد میری اس بات پر بہت غصے میں تھا۔ چنانچہ بات سخت ترین ناراضگی تک
پہنچ گئی ۔ مجھے بھی اس کے تلخ اور ترش رویے پر سخت غصہ آگیا اور میں نے
اسے فیس بک پر بلاک کردیا ۔ اب صورت حال یہ بنی کہ مجھے اس کی شکل سے بھی
نفرت ہوگئی ۔ میں جتنی محبت اس سے کرتا تھا اتنی ہی نفرت ہوگئی ۔
یادرہے کہ دوستی کے ابتدائی دنوں میں ہی عماد نے فاسٹ باولر وہاب ریاض اور
محمد عامر کو بھی میرا دوست بنوادیا ۔قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ جس شخص نے
انہیں مجھ سے شناسا کیااور میرا دوست بنوایا وہ خود مجھ سے دور ..... بہت
دورہوگیا ۔ وہاب نے بہت محبت اور ہمدردی کااظہار کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ
آخر ناراضگی کی وجہ کیا بنی ۔ کچھ مجھے بھی توبتائیں ۔آپ مجھے بتا دیں میں
عماد کو راضی کرلوں گا ۔ اس وقت میں بھی غصہ میں تھا اس لیے میں نے وہاب کو
یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ بہت مغرور ہے میں ایسے مغرور شخص سے بات نہیں کرنا
چاہتا۔ بے شک وہ فیورٹ ہی کیوں نہ ہو ۔ سچ تو یہ ہے کہ میں جتنی عماد سے
محبت کرتا تھا، یہ محبت اتنی ہی نفرت میں بدل گئی ۔ مجھے یقین تھا کہ ہم اب
کبھی بھی بات نہیں کرسکیں گے۔ ہمارے رابطے کبھی بحال نہیں ہوں گے کیونکہ
فیس بک پر رابطے کے تمام ذرائع منقطع ہوچکے تھے ۔ اس دور ان فاسٹ باؤلر
محمدعامر مجھ سے رابطے میں رہااور وہاب بھی کچھ دنوں بعد خاموش ہوگیا ۔میں
اب اسی پر اکتفا کربیٹھا کہ چلوعامر سے بات تو ہوجاتی ہے ۔وہ بھی دنیائے
کرکٹ کا ایک ممتاز فاسٹ باولر ہے اور دنیا بھر میں اس کا بڑانام ہے ۔لیکن
عماد وسیم سے تعلقات ختم ہونے کا احساس مسلسل میرے ذہن پر سوار رہا کہ ایک
بہت ہی اچھا دوست آئیڈیل کرکٹر کی شکل میں قدرت نے مجھ دے کر پھر واپس بھی
لے لیا ۔ ابھی تو دوستی کا آغاز ہی ہواتھا کہ اختتا م بھی ہوگیا ۔
تقریبا اس بات کو ایک ماہ گزرا ہوگا کہ ایک دن پاکستان کرکٹ ٹیم کے مایہ
ناز بلے باز اور کامیاب سپین باولر شعیب ملک کا پیغام فیس بک پر موصول ہوا
۔ انہوں نے کہا کہ محمد عامر نے بتایا ہے کہ آپ رائٹر ہیں اس لیے میرے دل
میں بھی آپ کا احترام موجود ہے ۔ سچی با ت تو یہ ہے کہ شعیب ملک کا یہ
پیغام میرے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ۔ مجھے اس سے بات کرکے خوشی
ہوئی اور میں نے انہیں اپنے فیس بک دوستوں میں شامل کرلیا ۔ میں نے دیکھا
کہ میری پوسٹ پر شعیب ملک بطور خاص اظہار خیال کر رہا ہے ۔ یہ یہ میرے لیے
مزید خوشی کا باعث تھا ۔ چند دن یونہی گزرتے رہے پھر ایک دن شعیب ملک نے
مجھ سے پوچھا کہ محمد عامر نے بتایاہے کہ آپ کی عماد وسیم سے بول چال ختم
ہوچکی ہے کیا میں اس کی وجہ پوچھ سکتا ہوں ۔مجھے شعیب ملک کی یہ بات اچھی
نہیں لگی ۔ مجھ میں یہ بہت بڑی خامی ہے کہ میں کسی محبت کرتا ہوں تو
انتہاکی کرتا ہوں اور دنیا کے آخری کنارے پر پہنچ جاتاہوں اور اگر کسی سے
نفرت ہوجاتی ہے تو اس کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔ کچھ ایسی ہی
صورت حال مجھ پر طاری تھی ۔ میں نے شعیب ملک کو یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ عماد
بہت مغرور انسان ہے میں اس سے اب صلح نہیں کرنا چاہتا ۔ مجھے اس وقت حیرت
ہوئی کہ میں شعیب ملک کی توجہ کسی اور جانب مبذول کروا رہا تھا اور وہ
دوران گفتگو عماد کا ذکر چھیڑ دیتا ۔ چنددن تک یہ سلسلہ جاری رہا بلکہ بروز
ہفتہ7 جنوری 2017ء کی رات جب میں سونے کی تیاری کررہا تھا تو شعیب ملک کا
فیس بک پر مسیج آیا۔ ان سے کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں ۔انہوں نے ایک بار وہی
تقاضا کیا کہ عماد سے آپ نے کیا کہا تھا کہ وہ ناراض ہوگیا اور آپ نے اسے
بلاک کردیا ۔پلیز وہ بات تو بتائیں میں جتنا اس موضوع سے فرار حاصل کرنا
چاہ رہا تھا شعیب ملک اتناہی اصرار کررہے تھے ۔چندلمحات میں اپنے آپ سے جنگ
لڑتا رہا پھر میں نے وہ بات بتا ہی دی جس پر ہم دنوں میں ناراضگی ہوئی تھی
۔ شعیب ملک نے مجھ سے کہا کہ واقعی آپ کو یہ بات نہیں کہنی چاہیئے تھی ۔
بہرحال آپ عماد کو ان بلاک کردیں ۔ و ہ آپ سے بات کرے گا اور اپنے رویے پر
معذرت بھی کرے گا۔ میں اسے سمجھادیتا ہوں ۔میں نے جواب دیا پہلے عماد سے
بات کرلیں اگر وہ راضی ہے تب میں بلاک اوپن کردیتا ہوں ۔ یاد رہے کہ اسی
رات شعیب ملک اور عماد دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ ون ڈے سیریز کھیلنے کے لیے
آسٹریلیا پہنچے تھے اور ٹی وی پر خبرنامے میں عماد کو دیکھا تو وہ بہت
خوبصورت لگ رہا تھا ۔دل نے کہا اگر اسی طرح عماد ایک بار پھر مجھے مل
سکتاہے تو شعیب کی بات مان لینی چاہیئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بدقسمتی
سے مجھے بلاک تو کرنا آتا ہے ۔ بلاک ختم کرنا نہیں آتا ۔ بہت مشکل درپیش
ہوئی ۔ ایک طرف میرا اناڑی پن اور دوسری طرف شعیب ملک کا بار بار اصرار ۔
اب کروں تو کیا کروں ۔ پہلی مرتبہ میں اپنے بیٹے (زاہد) کے کمرے میں گیا
اور کہا عماد وسیم کو ان بلاگ کردو ۔ اس نے کہا بلاک ختم کرنا تو مجھے بھی
نہیں آتا بہرحال کوشش کرتا ہوں ۔ شعیب ملک مسیج پر مسیج کررہا تھا ۔ اس
لمحے رات کے پونے دس بجے تھے۔ یہ وقت میرے سونے کا ہے ۔ لیکن میں موبائل
ہاتھ پکڑے کبھی ایک بیٹے کے پاس جاؤں تو کبھی دوسرے بیٹے کے پاس ۔ جب
موبائل پر بلاگ ختم نہ ہوا کمپیوٹر کو ان کرنا پڑا ۔ پھر شعیب ملک کے بتائے
ہوئے طریقے پر عمل کیا تو عماد کاپیج سامنے آگیا۔چند ہی لمحوں بعد عماد کی
ایک خوبصورت تصویر میرے پیج پر نمودار ہوئی اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے
صدیوں کے پیاسے شخص کو جام شیریں کالبالب بھرا ہوا گلاس پی مل گیا ہو۔ بے
ساختہ میں نے NICE لکھ دیا ۔ یہ لفظ عماد کو میری دنیا میں کچھ اس طرح واپس
لے آیا کہ دل سے تمام گلے شکوے یک جنبش ختم ہوگئے اور ایک بار پھر میرے دل
پر عماد وسیم کا قبضہ ہوگیا ۔ ابھی اختلافات کی دھند چھٹنا شروع باقی تھی۔
مطلع ابھی صاف ہونا باقی تھا ۔ یہ عماد کے رویے پر منحصر تھا کہ اب دوستی
میں کس نہج تک پیش قدمی کرسکتے ہیں ۔کیا ہماری دوستی پہلے کی طرح ہوسکتی ہے
یا درمیان حجاب حائل ہوجائے گا۔
ابھی ہم دونوں میں کھل کے بات نہیں ہوئی تھی ۔ اگلی صبح میں نے عماد وسیم
کو پھولو ں کا ایک گلدستہ فیس بک پر ان باکس میں بھیجا تو عماد نے شکریہ
ادا کرتے ہوئے مجھ سے اپنے رویے کی معذرت کی ۔ اس کے فورا بعد میں نے بھی
معذرت کرتے ہوئے کہا میں بھی آپ سے دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہوں کہ آپ
کو میری وجہ سے دکھ اور پریشانی اٹھانا پڑی ۔ میرا یہ کہنا ہی تھا کہ عماد
کا پیغام موصول ہوا ۔ چلیں اب ہم پکی دوستی کرتے ہیں ۔ آج سے آ پ میرے بیسٹ
فرینڈ ہیں ۔پیاسے کو کیا چاہیئے دو بوند پانی ۔ یہاں تو خود کنواں ہی پیاسے
کو دوستی کی پیشکش کررہا تھا ۔ میں نے کسی تاخیر کے بغیر دوستی کا ہاتھ
تھام لیا اور کبھی جدا نہ ہونے کا عہد کیا ۔ اس لمحے میں مجھے یو ں محسوس
ہورہا تھا جیسے مجھے دنیا کی تمام دولت دوبارہ مل گئی ہو ۔
یہ دولت شاید مجھے کبھی واپس نہ ملتی اگر شعیب ملک درمیان میں نہ آتا۔ ہم
دونو ں کے مابین بنی ہوئی اختلافات کی دیوار شعیب ملک نے ہی اپنے پاؤں کی
ٹھوکر سے گرا گرا دی ۔ مجھے اس بات کاعلم نہیں کہ شعیب ملک نے عماد کو کس
طرح راضی کیا کہ وہ بھی تمام اختلافات بھولا کر بات کرنے پر آمادہ ہوگیا ۔
میں سمجھتا ہوں اگر میرا آئیڈیل میرا فیورٹ کرکٹر عماد وسیم مجھے واپس مل
گیا ہے تو اس کا تمام تر کریڈٹ شعیب ملک کو جاتاہے ۔ جو فرشتہ بن کر ہمارے
درمیان آیا اور اپنا کام مکمل کرکے چلتا بنا۔ میں نے شعیب ملک کا شکریہ
اداکرتے ہوئے کہا۔ میں پہلے آپ کو ایک اچھا اور بااعتماد کرکٹر سمجھتا
تھالیکن اب میں آپ کو ایک عظیم انسان سمجھتا ہوں۔ جو محبت کرنے والوں کے
مابین فاصلے زیادہ نہیں کرتا بلکہ کم کرتا ہے ۔ آپ نے عماد سے میری صلح
کروا کر حقیقت میں جنت خرید لی ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ جو
شخص رات سونے سے پہلے دو ناراض مسلمان بھائیوں کے درمیان صلح کروائے گا۔ وہ
جو جنت کا حق دار ہوگا ۔اسی دوران شعیب ملک کا مجھے مسیج موصول ہواکہ فاسٹ
باؤلر محمد عرفان کی والدہ کاانتقال ہوگیا ہے اس کے لیے تہجد کے وقت ضرور
دعا کرنا پھر نائب کپتان سرفراز کی والد ہ تشویش ناک حالت میں ہسپتال میں
داخل تھی جس کی وجہ سے سرفراز کو آسٹریلیا سے فوری طور پر واپس آنا پڑا ۔اس
کی والدہ کے لیے بھی دعا کی درخواست شعیب ملک اور وہاب ریاض کی جانب سے
موصول ہوئی۔ یہ پیغامات اس بات کا اظہار ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے تمام
کھلاڑی ایک دوسرے کے نہ صرف اچھے دوست ہیں بلکہ ایک دوسرے کے درد کا احساس
بھی بخوبی رکھتے ہیں ۔
جہا ں میں اس صلح کا کریڈٹ شعیب ملک کو دے رہا ہوں ،وہاں وہاب ریاض اور
محمد عامر کابھی میں مشکور ہوں جنہوں نے عماد سے ناراضگی کے دوران بھی مجھ
سے رابطہ ختم نہیں کیا بلکہ ان کے پیغامات اور جذبات میرے لیے حوصلہ افزا
ئی کا باعث بنتے رہے۔ بے شک یہ دونوں کرکٹر بھی اپنی اپنی جگہ بہت اچھے اور
نفیس انسان ہیں اور دونوں ہی دنیائے کرکٹ میں بہت اہم مقام رکھتے ہیں ۔
مجھے اب یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ چاروں کرکٹر بلکہ ایک اور ابھرتا ہوا گجرات
سے تعلق رکھنے والا کرکٹر محمد اسامہ بھی ہمارا ہم رکاب ہوچکا ہے ۔جو عماد
وسیم کا کزن بتایا جاتاہے ۔ ان سے روزانہ کرکٹ میچز کے بارے میں گفتگو ہوتی
ہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بھی اپنی صلاحیتیں دنیائے
کرکٹ کے ماہرین سے ضرور منوائے گا ۔ |